ہوم << تلہ گنگ ٹی ہاؤس - ملک محمد فاروق خان

تلہ گنگ ٹی ہاؤس - ملک محمد فاروق خان

بوٹا سنگھ کے "انڈیا ٹی ہاؤس" سے لیکر "پاک ٹی ہاؤس" تک 85 سالہ چائے خانے کی فروغ ادب کی تاریخ موجود ہے۔ پاک ٹی ہاؤس ادبی چائے خانہ سہی لیکن اس کے ماتھے پہ ادب کے اتنے چاند چمکے کہ آسمان ادب جگمگا اٹھا۔ ادب چائے خانے کے بغیر نکھرتا ہی نہیں۔ پاک ٹی ہاؤس کا اعزاز اور ظرف رہا کہ اس میں بیٹھنے والے شاعر،ادیب جن کا کوئی مستقل ذریعہ معاش نہیں تھا سوائے چند ایک کے ،لیکن بےحال ادیبوں اور شاعروں کی خالی جیبوں کی آنا کو مجروح نہیں ہونے دیا۔ ایسا کبھی نہیں ہوا کہ کسی دوست کی جیب خالی ہے تو وہ ٹی ہاؤس کی چاۓ اور سگریٹوں سے محروم رہے۔ اس وقت کے ادیبوں میں سے شاید ہی کوئی ادیب ہو جس نے پاک ٹی ہاؤس کی چاۓ کا ذائقہ نہ چکھا ہو اور نہ ہی کوئی پاک ٹی ہاؤس کی چائے کے بغیر مسند ادب تک پہنچ پایا۔پاک ٹی ہاؤس نے بے ادب معاشرے کو مستند ادب سے نوزا۔ٹی ہاوس ادیبوں،شاعروں اور صحافیوں کا سٹیٹس سیمبل اور دوسرا گھر بنا۔شاعر و ادیب ملتے گئے اور ادب کی زنجیر بڑھتی گئی ۔

ہجرت کر کے آنے والوں نے پاک ٹی ہاؤس میں آکر کہا کہ میں انبالے سے آیا ہوں میرا نام ناصر کاظمی ہے، کسی نے کہا میں گڑھ مکستر سے آیا ہوں میرا نام اشفاق احمد ہے، کسی نے کہا میرا نام ابن انشاء ہے اور میرا تعلق لاہور سے ہے ، سائیکل کھڑی کرتے ہوئے کسی نے کہا میں اشفاق احمد ہوں۔ کسی نے کہا میں انتظار حسین ہوں، کسی نے اپنی پہچان سجاد باقر رضوی کے طور کرائی، کسی نے اپنا نام پروفیسر سید سجاد رضوی بتایا،کوئی قیوم نظر کے نام سے متعارف ہوا، کسی نے شہرت بخاری کے نام سے پہچان کرائی،کسی نے انجم رومانی کہا، کوئی امجد اسلام امجد کے نام سے متعارف ہوا، کسی نے اپنے آپ کواحمد مشتاق ، مبارک احمد ، انور جلال شمزہ، عباس احمد عباسی، ھیرو حبیب، سلو، شجاع، ڈاکٹر ضیاء ، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور سید وقار عظیم کے نام سے متعارف کرایا اور پاک ٹی ہاؤس کا فخر حاصل کیا۔ سعادت حسن منٹو، فیض احمد فیض، احمد فراز، منیر نیازی، میرا جی، کرشن چندر، استاد امانت علی خان، ڈاکٹر محمد باقر، وغیرہ بھی پاک ٹی ہاؤس سے ہی فخر مند ہوئے ۔

اےحمید سے لیکراشفاق احمد تک اور کرشن چندر سے لیکر سعادت حسن منٹو تک پاک ٹی ہاؤس کا حصہ رہے۔ یہاں ملک بھر سے ادب کی تشنگی لیے نوجوان ان ادبی شخصیات سے آ کر ملتے اور مستفید ہوتے ۔ اسی چائے خانے سے ناپختہ ادب مستند ادب میں ڈھلتا رہا۔ بہت سارے غیر معروف ادیب و شاعر ناموری کے وکٹری اسٹینڈ پر نظر آئے، تخلیقی اور تحقیقی ادب ترقی پزیر رہا۔ادبی شعور بالیدگی اور پختگی تک پہنچا۔ شعر و ادب کا جو سلسلہ پاک ٹی ہاؤس سے شروع ہوا ۔اسی زمانے کی لکھی ہوئی غزلیں، نظمیں، افسانے اور مضامین آج کے اردو ادب کا قیمتی اثاثہ ہیں ۔پاکستانی ادب پاک ٹی ہاؤس کے پلیٹ فارم کے بغیر ادھورا ہے۔

ضلع تلہ گنگ، کیمبل پور سے اٹک بننے کے عمل میں شامل رہا اور اہل تلہ گنگ اس رفاقت پر فخر مند ہیں۔کیمبل پور اٹک بننے سے پہلے دور دراز دیہاتی علاقوں اور دشوار گزار راستوں کا غیر ترقیاتی اور غیر صنعتی ضلع رہا ہے جسے ترقی پزیر ضلع بنانے میں بہت سارے سیاست دانوں ،ضلعی افسران اور حالات کی نبض پر ہاتھ رکھنے والے صحافیوں کے نام آتے ہیں لیکن ان میں سر فہرست ضلع اٹک کے ڈپٹی کمشنر خالد محمود ہیں جو ضلع کے دور دراز سرحدی دیہاتوں کی سرکاری عمارات کی تعمیر اور ان کے سنگ بنیاد رکھنے کا تاریخی ریکارڈ رکھتے ہیں۔

ڈپٹی کمشنر ضلع چکوال قراۃ العین ملک
اہلیان ضلع تلہ گنگ ضلع چکوال کی انتظامی اور سیاسی رفاقت سے بحالی و فعالی ضلع تلہ گنگ کی جدو جہد کی منزل پہ کھڑے ہیں۔ ڈپٹی کمشنر ضلع چکوال قراة العین ملک اس حوالے سے منفرد ہیں کہ جنہیں چوتھی جماعت سے ہی سی ایس ایس کرنے کا شعور اور شوق تھا جوکہ اس عمر کے بچوں میں عموما اتنا فہم و ادراک نہیں ہوتا اس حوالے سے انہیں غیر معمولی صلاحیتوں والی ڈپٹی کمشنر کہا جا سکتا ہے اس حوالے سے ضلع چکوال اور تلہ گنگ کا فخر تو بنتا ہے۔ضلع اٹک کے ڈپٹی کمشنر خالد محمود کو سب سے زیادہ سرکاری عمارات پر سنگ مرمر کی افتتاحی پلیٹس نصب کرنے کا اعزاز ہوگا لیکن وہ کسی جم خانے کے تعمیر اور اس کے افتتاح کا اعزاز حاصل نہیں کر سکے جبکہ ڈپٹی کمشنر چکوال قراة العین ملک نے صحافتی گولہ باری اور وکلا کی قانونی کاروائی کے باوجود یہ اعزاز اپنے نام کر لیا ہے۔بلکسر انٹرچینج کے قریب ایک دلکش داخلی دروازہ" باب چکوال "بھی انہی کا وژن ہے۔ضلع کے متعدد ترقیاتی منصوبوں پر ان کا انتظامی اور اختیاراتی ہاتھ ہے جسے ضلع چکوال کے محقق کھوج کر تاریخ کا حصہ بنا دیں گے۔

چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف،ڈپٹی کمشنر ضلع چکوال قراة العین ملک اور ڈپٹی کمشنر لیہ امیرا بیدار صاحبہ میں جہاں اتفاقاً صنفی ہم آہنگی موجود ہے۔ چیف منسٹر پنجاب مریم نواز کے عہد حکمرانی اور ڈپٹی کمشنر لیہ کی تقلید میں ڈپٹی کمشنر چکوال قراة العین ملک "چکوال جمخانہ" کی طرح تلہ گنگ میں "تلہ گنگ ٹی ہاؤس" کی بنیاد رکھنے کا ارادہ کر لیں تو تلہ گنگ کی ادبی محافل اور علمی نشستیں فعال ہو سکتی ہیں۔ لاہور کا پاک ٹی ہاؤس ہو،ملتان کا ٹی ہاؤس ہو، لیہ ٹی ہاؤس ہو ،کیمبل پور ٹی ہاؤس ہو یا دیگر شہروں میں قائم ہونے والے ٹی ہاوس، یہ وہ مقامات ہیں جہاں شاعری، نثر، تاریخ اور فلسفے پر سیر حاصل گفتگو ہوتی ہے۔ حال ہی میں لیہ میں پاک ٹی ہاؤس کا قیام اسی روایت کی ایک خوبصورت کڑی ہے، جہاں ڈپٹی کمشنر امیرا بیدار نے اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے عملی اقدامات کیے۔ انہوں نے اپنے خطاب میں لیہ کی طرح ہر تحصیل میں ٹی ہاؤس کے قیام کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ تو کیوں نہ تلہ گنگ میں “تلہ گنگ ٹی ہاؤس” قائم کیا جائے؟ اگر ضلعی انتظامیہ جگہ فراہم کرے، یا کسی سرکاری عمارت کو "تلہ گنگ ٹی ہاؤس" کا اعزاز دے دیا جائےتو لیہ کی طرح تلہ گنگ میں بھی ادیبوں، شاعروں اور صحافیوں کو ایک ایسا پلیٹ فارم مل سکتا ہے جہاں وہ بیٹھ کر ادبی اور ثقافتی سرگرمیاں جاری رکھ سکیں۔

پاکستان میں ادبی چائے خانے کی اپنی تاریخ ہے چائے خانے جب ادب خانے میں ڈھلنے کی روایت قائم کر چکے ہیں تو فروغ ادب کی متمنی شخصیات ہوں،ادارے ہوں یا حکمران ہوں انہیں ادبی چائے خانے کھولنے کو ترجیح دینا ہوگی۔ چیف منسٹر پنجاب اپنے عہد حکمرانی کی تاریخ میں "تلہ گنگ ٹی ہاؤس" کی تعمیر کو ریکارڈ بنا سکتی ہیں۔"تلہ گنگ ٹی ہاؤس" پراجیکٹ کے لئے چیف منسٹر پنجاب مریم نواز شریف فوکل پرسن مقرر کریں اور "تلہ گنگ ٹی ہاؤس"کو حتمی شکل دے کر اپنی حکومت کے ادبی ویژن کو عام کر سکتی ہیں۔