پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک میں جہاں عوام مہنگائی، بے روزگاری، کرپشن اور بنیادی سہولیات کے فقدان جیسے مسائل کا سامنا کر رہے ہیں، وہاں انقلابی سیاست کا نہ ہونا یا عوام کا اس سے دور رہنا ایک اہم سوال ہے۔ تاریخی طور پر انقلاب ہمیشہ وہاں آتا ہے جہاں عوام بیدار ہوں، منظم ہوں، اور اپنے حقوق کے لیے قربانی دینے پر آمادہ ہوں۔ مگر پاکستان میں ایسا کیوں نہیں ہو رہا؟ اس کی کئی وجوہات ہیں، جن پر تفصیل سے غور کرنا ضروری ہے۔
1. روایتی سیاست اور موروثی نظام
پاکستان میں سیاست چند خاندانوں اور روایتی سیاسی جماعتوں کے گرد گھومتی ہے۔ ان جماعتوں نے سیاست کو عوامی خدمت کے بجائے ایک کاروبار بنا دیا ہے، جہاں اقتدار چند مخصوص گروہوں میں ہی گردش کرتا ہے۔ عوام کے پاس انتخاب کا حق تو ہے، مگر وہ ہمیشہ انہی جماعتوں کے درمیان انتخاب کرنے پر مجبور ہوتے ہیں، جو بار بار ناکام ہو چکی ہیں۔ ان حالات میں انقلابی سیاست کا فروغ مشکل ہو جاتا ہے کیونکہ عوام کو یہ یقین ہو چکا ہے کہ تبدیلی ممکن ہی نہیں۔
2. تعلیم کی کمی اور شعور کا فقدان
انقلاب ہمیشہ باشعور قومیں لاتی ہیں، مگر پاکستان میں تعلیمی نظام عوام کو باشعور بنانے میں ناکام رہا ہے۔ نصاب میں ایسی کوئی چیز شامل نہیں کی جاتی جو عوام کو ان کے حقوق اور فرائض کے بارے میں آگاہ کرے۔ اسی وجہ سے عوام میں سیاسی شعور کی کمی ہے، اور وہ انقلابی نظریات سے ناواقف یا بے خبر رہتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ روزمرہ کی مشکلات میں اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ وہ انقلابی سیاست کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں پاتے۔
3. میڈیا کا کردار اور اسٹیبلشمنٹ کا اثر و رسوخ
میڈیا کسی بھی معاشرے میں انقلاب برپا کرنے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے، مگر پاکستان میں میڈیا زیادہ تر تجارتی مفادات کے تابع ہے۔ وہ عوام کو اصل مسائل سے ہٹاکر غیر ضروری تنازعات اور سنسنی خیز خبروں میں الجھا دیتا ہے۔ دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت بھی عوام کو انقلابی سیاست سے دور رکھنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ جو بھی انقلابی نظریات کو فروغ دینے کی کوشش کرتا ہے، اسے دبا دیا جاتا ہے، اور عوام تک متبادل بیانیہ پہنچنے ہی نہیں دیا جاتا۔
4. معاشی دباؤ اور روزمرہ کی مشکلات
پاکستان میں عوام اپنی بقا کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مہنگائی، بے روزگاری، اور کم اجرتوں نے عام آدمی کو اتنا مجبور کر دیا ہے کہ وہ سیاسی تبدیلی یا انقلاب کے بارے میں سوچ ہی نہیں سکتا۔ جب ایک مزدور کو دو وقت کی روٹی کے لالے پڑے ہوں، تو وہ سیاسی جدوجہد میں کیسے شامل ہو سکتا ہے؟ اس صورتحال میں عوام انقلابی سیاست کی طرف توجہ دینے کے بجائے اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے میں مصروف رہتے ہیں۔
5. مذہبی اور فرقہ وارانہ تقسیم
پاکستان میں عوام کو ہمیشہ مختلف بنیادوں پر تقسیم کیا جاتا رہا ہے، جن میں مذہب، فرقہ، قومیت اور زبان سب شامل ہیں۔ یہ تقسیمیں کسی بھی انقلابی تحریک کو کامیاب ہونے سے روکتی ہیں، کیونکہ عوام کو مشترکہ مسائل کے بجائے ان غیر ضروری اختلافات میں الجھا دیا جاتا ہے۔ سیاسی جماعتیں اور طاقتور عناصر اس تقسیم کا فائدہ اٹھاتے ہیں تاکہ عوام کبھی متحد ہو کر اپنے حقوق کے لیے نہ اٹھ کھڑے ہوں۔
6. ناکام انقلابی تحریکیں اور مایوسی
پاکستان میں ماضی میں کئی مرتبہ انقلابی تحریکیں اٹھیں، مگر وہ یا تو دبادی گئیں یا اپنے مقصد میں ناکام رہیں۔ اس کی ایک بڑی وجہ یہ بھی تھی کہ تحریکیں عوامی مسائل کے بجائے مخصوص شخصیات یا نظریات کے گرد گھومتی رہیں۔ بار بار ناکامی نے عوام کو مایوس کر دیا، اور اب وہ کسی بھی نئی تحریک کو سنجیدہ نہیں لیتے۔
7. قانون نافذ کرنے والے اداروں کا دباؤ
انقلابی سیاست میں ہمیشہ ریاستی جبر ایک بڑی رکاوٹ بنتا ہے، اور پاکستان میں بھی ایسا ہی ہے۔ جو بھی حکومت یا اسٹیبلشمنٹ کے خلاف بولتا ہے، اسے مختلف ہتھکنڈوں سے خاموش کروا دیا جاتا ہے۔ اس صورتحال میں عام عوام ڈرتے ہیں کہ اگر وہ کسی انقلابی تحریک میں شامل ہوئے تو ان کے لیے مشکلات پیدا ہو سکتی ہیں۔ یہی خوف انہیں سیاست سے دور رکھتا ہے۔
کیا پاکستان میں انقلابی سیاست کا امکان ہے؟
حالات جیسے بھی ہوں، کسی بھی معاشرے میں انقلاب کی امید ختم نہیں ہوتی۔ اگرچہ ابھی عوام انقلابی سیاست سے دور ہیں، مگر جب مسائل حد سے بڑھ جائیں گے اور لوگوں کو محسوس ہوگا کہ موجودہ نظام ان کے مسائل حل کرنے سے قاصر ہے، تو تبدیلی ناگزیر ہو جائے گی۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ عوام میں سیاسی شعور بیدار کیا جائے، تعلیم کو عام کیا جائے، اور نوجوان نسل کو متحرک کیا جائے۔
نتیجہ: پاکستان میں عوام کا انقلابی سیاست سے دور رہنے کی وجوہات میں موروثی سیاست، تعلیم کی کمی، اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت، معاشی مسائل، فرقہ وارانہ تقسیم، ماضی کی ناکامیوں اور ریاستی جبر کا کردار شامل ہیں۔ تاہم، اگر عوام اپنے حقوق کے لیے بیدار ہو جائیں اور حقیقی معنوں میں تبدیلی کے لیے تیار ہوں، تو انقلابی سیاست کا امکان موجود ہے۔ تبدیلی صرف نعرے لگانے سے نہیں آئے گی، بلکہ اس کے لیے عملی جدوجہد کی ضرورت ہوگی۔
تبصرہ لکھیے