ہوم << ویلنٹائن ڈے: یوم محبت یا یوم زوال؟ قاری حفیظ

ویلنٹائن ڈے: یوم محبت یا یوم زوال؟ قاری حفیظ

ویلنٹائن ڈے کی تاریخ ایک پراسرار داستان ہے، جسے مختلف مسیحی روایات اور تاریخی حوالوں سے جوڑا جاتا ہے۔ بعض مؤرخین کے مطابق، یہ دن رومی تہوار "Lupercalia" کی باقیات ہے،مطلب یہ رومی تہذیب کی باقیات ہے۔۔جو ہر سال 13 سے 15 فروری تک جاری رہتا تھا اور بے حیائی وفحاشی پر مبنی رسومات کا مجموعہ تھا۔ بعد میں، عیسائی چرچ نے اسے سینٹ ویلنٹائن سے منسوب کر کے "یوم محبت "کے طور پر رائج و منسوب کر دیا۔ مشہور روایت کے مطابق، رومی سلطنت میں سینٹ ویلنٹائن نامی پادری نے بادشاہ کلاڈیس II کے حکم کے خلاف خفیہ طور پر شادیاں کروائیں، جس کے نتیجے میں اسے 14 فروری 269 عیسوی کو سزائے موت دے دی گئی۔ بعد میں چرچ نے اس دن کو" رومانوی رنگ" دے کر مغربی معاشرے میں محبت کے جشن کے طور پر مقبول بنا دیا۔

آج یہ دن" گلابی دلوں"، مہنگے تحائف، اور محبت کے اظہار کا عنوان بن چکا ہے، لیکن حقیقت میں یہ سرمایہ دارانہ نظام کے لیے "سونے کی کان" ہے۔ سن 2023ء میں صرف امریکہ میں 25 ارب ڈالر سے زائد ویلنٹائن ڈے پر خرچ کیے گئے۔ بڑے کارپوریٹ برانڈز، مارکیٹنگ کمپنیاں، اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اس دن کو "محبت کا دن" قرار دے کر نوجوانوں کو جذباتی استحصال کے جال میں پھنساتے ہیں۔

"محبت" کو مہنگے تحائف، لگژری ڈیٹس، اور سوشل میڈیا پر دکھاوے سے مشروط کر دیا گیا ہے۔
یہ دن بظاہر محبت کے فروغ کا دعویدار ہے، لیکن حقیقت میں اس کے اثرات فرد، خاندان اور معاشرے پر تباہ کن ہیں۔
مغربی معاشرے میں یہ دن "ڈیٹنگ کلچر" کے فروغ کا باعث بن چکا ہے، جس کے اثرات اب اسلامی معاشروں میں بھی نظر آنے لگے ہیں۔
پاکستان جیسے اسلامی ملک ( جس مملکتی مذہب اسلام ہے)میں شاپنگ مالز، کیفے، اور سوشل میڈیا پر "ویلنٹائن اسپیشل آفرز" اور "ڈیٹ نائٹس" کے اشتہارات عام ہو چکے ہیں۔
ماہرین نفسیات کے مطابق، یہ عارضی تعلقات نوجوانوں میں جذباتی بے چینی، بے راہ روی، اور مایوسی و ڈپریشن کو جنم دے رہے ہیں۔
اس دن کی آڑ میں والدین اور اولاد کے درمیان عدم اعتماد بڑھتا جا رہا ہے۔
وقتی تعلقات کا رجحان شادی جیسے" مقدس بندھن "کو غیر ضروری بنا رہا ہے، جس سے طلاق کی شرح میں اضافہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
مغربی ممالک میں نکاح کے بجائے "لِو اِن ریلیشن شپ" کا رجحان بڑھ چکا ہے، جو اسلامی معاشروں کو بھی متاثر کر رہا ہے۔
نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تحائف، کارڈز، اور سوشل میڈیا پر محبت کے اظہار کے نام پر" حدودِ شریعت" کو پامال کر رہے ہیں۔
اسلامی معاشروں میں بھی یہ دن "رومانوی اظہار" کے نام پر بے حیائی کے فروغ کا باعث بن رہا ہے، جبکہ اسلام حیا کو ایمان کا حصہ قرار دیتا ہے۔

سوشل میڈیا ویلنٹائن ڈے کو مقبول بنانے میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔ فیس بک، انسٹاگرام، ٹک ٹاک، اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز پر #ValentineChallenge اور Couple Goals جیسے ٹرینڈز نوجوان نسل کو بے راہ روی کی طرف لے جا رہے ہیں۔اور ان جیسے ٹرینڈز چلائے جاتے ہیں ۔
الگورتھم ایسی ویڈیوز کو زیادہ فروغ دیتا ہے، جن میں غیر اخلاقی مواد، بے حیائی، اور دکھاوا زیادہ ہو، تاکہ صارفین زیادہ دیر تک سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر رہیں۔
ٹک ٹاک پر نوجوان جوڑے غیر اخلاقی ویڈیوز چیلنجز میں حصہ لیتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ لائکس اور فالوورز حاصل کرنے کے لیے حدود کو توڑنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔
"محبت کے نام پر" سوشل میڈیا انڈسٹری اربوں روپے کماتی ہے، جبکہ نوجوان اخلاقی پستی کی دلدل میں دھنس جاتے ہیں۔۔
اسلام محبت کو نہ صرف جائز قرار دیتا ہے بلکہ اسے نکاح کے ذریعے مقدس بندھن میں تبدیل کرنے کی تلقین کرتا ہے۔اور نکاح آسان بنانے کی ترغیب دیتا ہے ۔۔
قرآن پاک میں ارشاد ہے: "اور اُن کے لیے (تمہارے لیے) اُن کی بیویاں پیدا کیں تاکہ تم اُن کے پاس سکون حاصل کرو" (الروم: 21)۔
۔
نبی کریم ﷺ کی ازدواجی زندگی محبت اور وفا کا بہترین نمونہ ہے۔ حضرت خدیجہؓ سے ان کی محبت سچی، پاکیزہ اور وفاداری پر مبنی تھی۔
حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ان سے محبت کا اظہار کرتے، مگر حیا، عزت، اور احترام کے دائرے میں۔ محبت سے " حمیرا" کے نام سے پکارتے ۔سیرت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک گھر میں داخل ہوکر سلام کیا ، تو دیکھا حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ پانی پتی ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا کہ میرے لیے اسی برتن میں بچا ، جب پانی لائی گئی تو کہا کہ حمیرا اس برتن پر آپ کے لب کہاں رکھے گئے تھے نشان دہی پر نبی کریم صلی اللہ علیہ نے بھی اپنے لب مبارک کو اسی جگہ پر رکھ کر پانی پی لیا۔اسے کہتے ہیں محبت۔۔اس لیے کہا! کہ تم میں سے بہتر وہ ہے جو گھر والوں کے لیے بہتر ہو۔۔۔
"حیا ایمان کا حصہ ہے" (حدیث)
یہ حدیث اسلامی معاشرتی وسماجی اصولوں کی بنیاد رکھتی ہے، جو ویلنٹائن کلچر کے برعکس، محبت کو پاکیزگی اور عزت کے دائرے میں رکھتی ہے۔

ویلنٹائن ڈے: جدید دور کا فتنہ۔۔
یہ دن نوجوانوں کو خاندانی تقدس اور اسلامی اقدار سے دور کر رہا ہے۔ یہ مغربی تہذیب کا پیدا کردہ رسم ہے ۔" سموئیل پی ہنٹنگٹن" نے لکھا ہے یہ صدی تہذیبوں کے تصادم کا ہے ۔اور اس میں مغربی تہذیب اور اسلامی تہذیب کا مقابلہ و کشمکش جاری ہے۔اسلام حیا کی تہذیب کا درس دیتا ہے ، اسلام نکاح کو آسان بنانے، والدین سے مشورہ کرنے، اور سوشل میڈیا کو مثبت تعلیمات کے لیے استعمال کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔
جیسا کہ کہاوت ہے: "جو بوؤ گے، وہی کاٹو گے"
اگر آج ہم اپنی نوجوان نسل کو اسلامی تعلیمات، نکاح کے تقدس، اور حقیقی محبت کا شعور دیں گے، تو کل یہی نسل معاشرتی بگاڑ کے بجائے ایک مضبوط اسلامی سماج کی بنیاد بنے گی۔
ویلنٹائن ڈے عشقِ مجازی کا ایک دھوکہ ہے، جو وقتی جذبات، دکھاوے، اور مارکیٹنگ کے جال میں قید ہو چکا ہے۔ اس دن کو منانے کے بجائے، ہمیں محبت کے اسلامی تصور کو فروغ دینا چاہیے، جو وفاداری، عزت، اور حیا پر مبنی ہو۔
محبت وہ نہیں جو ایک دن میں اظہار کے بعد ختم ہو جائے، بلکہ محبت وہ ہے جو زندگی بھر عزت اور وفاداری کے ساتھ قائم رہے۔
وقت آ گیا ہے کہ ہم اپنی نسل کو مغربی تقلید کے بجائے اسلامی اقدار کی طرف واپس لائیں۔۔