ہوم << ایک آوارہ پادری کی برسی، ناپاک محبت کی داستان -عارف علی شاہ

ایک آوارہ پادری کی برسی، ناپاک محبت کی داستان -عارف علی شاہ

رات کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ سرد ہوائیں روم کے قدیم چرچوں کی دیواروں سے ٹکرا رہی تھیں۔ کہیں دور گھنٹیاں بج رہی تھیں، جیسے کسی سوگوار تقریب کی تیاری ہو رہی ہو۔ چرچ کے تہہ خانے میں ایک مدھم روشنی جل رہی تھی، اور کتابوں سے اٹا ایک کمرہ خاموشی میں ڈوبا تھا۔ یہ وہی جگہ تھی جہاں ویلنٹائن ایک آوارہ پادری نے محبت کے نام پر ایک ایسی آگ بھڑکائی، جس کے شعلے آج بھی بے حیائی اور گناہ کے ایندھن پر زندہ ہیں۔

کہانی کا آغاز تیسری صدی کے روم سے ہوتا ہے، جہاں بادشاہ کلاڈئیس دوم نے ایک حکم جاری کیا نوجوان فوجی شادی نہیں کر سکتے! بادشاہ کا ماننا تھا کہ شادی محبت پیدا کرتی ہے، اور محبت ایک سپاہی کو کمزور کر دیتی ہے۔ مگر چرچ کے ایک پادری، جسے بعد میں سینٹ ویلنٹائن کہا گیا، نے خفیہ طور پر شادیاں کروانے کا سلسلہ شروع کر دیا۔ مگر یہ سب واقعی محبت کے لیے تھا یا کچھ اور؟

مورخین کے مطابق، ویلنٹائن صرف ایک پادری نہیں تھا، بلکہ ایک عیاش شخص تھا جو محبت کی آڑ میں ناجائز تعلقات کو فروغ دیتا تھا۔ چرچ کی راتوں میں وہ نوجوان جوڑوں کو اکٹھا کرتا، ان کی نام نہادشادیاں کرواتا، اور بعض روایات کے مطابق، وہ خود بھی کئی غیر شرعی تعلقات میں ملوث تھا۔ اس نے محبت کے نام پر عفت و حیا کو داغدار کر دیا تھا۔ رومی بادشاہ کو جب اس خفیہ سازش کا علم ہوا تو وہ غصے سے کانپ اٹھا۔ پادری کو گرفتار کر لیا گیا۔ چرچ کی خفیہ سرنگوں میں چھپے اس کے ساتھی پکڑے گئے۔ عدالت میں اس پر ریاستی احکامات کی نافرمانی اور عوام کو گمراہ کرنے کے الزامات لگے۔ مگر قید میں رہتے ہوئے بھی، اس نے محبت کے نام پر اپنی ناپاک سرگرمیاں جاری رکھیں۔ اس نے جیلر کی بیٹی کو بھی اپنی باتوں میں الجھا لیا، اور بعض روایات میں کہا جاتا ہے کہ اسی کے ساتھ اس کا ناجائز تعلق قائم ہوا۔ آخرکار، 14 فروری 269ء کو ویلنٹائن کو سزائے موت دے دی گئی۔ مگر کہانی یہیں ختم نہیں ہوئی۔ کچھ صدیوں بعد، عیسائی کلیسا نے اسی پادری کو مقدس درجہ دے دیا! اور اس کی موت کی برسی کو محبت کے دن کے طور پر منایا جانے لگا۔ مگر سوال یہ ہے کہ یہ محبت کا دن تھا یا گناہ کے فروغ کی ابتدا؟

آج، ویلنٹائن ڈے محبت کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، مگر اس کا اصل مقصد کیا ہے؟ پھول، تحفے، سرخ لباس یہ سب ناجائز محبت کے جال میں نوجوانوں کو پھنسانے کے ہتھیار بن چکے ہیں۔ مغربی میڈیا نے اسے رومانویت کا رنگ دے دیا، مگر حقیقت میں یہ اخلاقی زوال، فحاشی، اور بے راہ روی کا ایک تہوار ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے نام پر محبت کی آزادی کا جو تصور دیا گیا ہے، وہ درحقیقت نوجوان نسل کے کردار کو تباہ کرنے کے لیے مغربی دنیا کی ایک چال ہے۔ بے حیائی کو محبت کا لبادہ پہنا کر، نکاح جیسے پاکیزہ رشتے کو فراموش کرایا جا رہا ہے۔ جب غیر شرعی تعلقات عام ہو جائیں، تو نکاح کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ مغربی معاشروں میں نکاح کا رجحان پہلے ہی کم ہو چکا ہے، اور اب یہ وبا مسلم دنیا میں بھی سرایت کر رہی ہے۔ ویلنٹائن ڈے کے نام پر کروڑوں ڈالر کی مارکیٹنگ کی جاتی ہے۔ مہنگے تحائف، سرخ گلاب، ہوٹل کے بکنگ یہ سب سرمایہ دارانہ نظام کی ایک چال ہے تاکہ لوگ اپنی جیبیں خالی کریں اور ان کی معیشت مضبوط ہو۔

محبت ایک پاکیزہ جذبہ ہے، مگر اس کی حقیقی شکل وہی ہے جو نکاح کے مقدس رشتے میں پنہاں ہے۔ اسلام میں محبت کا مطلب صرف جذباتی لگاؤ نہیں، بلکہ ایثار، قربانی، وفاداری، اور عفت و حیا کا نام ہے۔ نبی کریم ﷺ اور حضرت خدیجہؓ کی محبت محبت کی سب سے پاکیزہ مثال ہے۔ ان کا تعلق اخلاص، وفاداری، اور عفت و حیا پر مبنی تھا، نہ کہ کسی وقتی جذباتی لہر پر۔ اسی طرح، حضرت علیؓ اور حضرت فاطمہؓ کی محبت شرم و حیا، عزت و احترام اور دینی بنیادوں پر قائم تھی۔ اسلام میں حیا کو نصف ایمان کہا گیا ہے۔ اس لئےاسلام میں ویلنٹائن ڈے کا تصور نہ صرف موجود نہیں بلکہ اس کے برخلاف ہے۔ اسلام میں محبت کو ایک پاکیزہ اور مقدس جذبہ سمجھا گیا ہے، لیکن اس کی حدود بھی متعین کی گئی ہیں۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں: وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَىٰ إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا (اور زنا کے قریب بھی مت جاؤ، بے شک یہ بے حیائی ہے اور بہت برا راستہ ہے۔) (الاسراء: 32) نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جب مرد اور عورت تنہائی میں ہوتے ہیں تو تیسرا ان کے درمیان شیطان ہوتا ہے۔" (ترمذی)

ویلنٹائن ڈے بنیادی طور پر غیر شرعی تعلقات کو فروغ دیتا ہے، جو اسلام کے اصولوں سے متصادم ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: "جو کسی قوم کی مشابہت اختیار کرے، وہ انہی میں سے ہے۔" (ابو داؤد) حضرت عمرؓ نے فرمایا: "تم جاہلیت کے تہواروں سے بچو۔" محبت کے اظہار کے لئے مخصوص دن کی ضرورت نہیں. اسلام ہر روز محبت، احترام اور خیر خواہی کا درس دیتا ہے، خاص طور پر شوہر اور بیوی کے رشتے میں۔ نبی ﷺ کا فرمان ہے: "تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو اپنی بیوی کے لیے سب سے بہتر ہو۔" (ترمذی) لہٰذا، محبت کے اظہار کے لئے کسی خاص دن کی ضرورت نہیں بلکہ زندگی بھر اچھے اخلاق، عزت اور وفاداری کی ضرورت ہے۔

ویلنٹائن ڈے پر فحاشی، بے حیائی، ناجائز تعلقات، اور گفٹس کے تبادلے کو فروغ دیا جاتا ہے، جو اسلامی معاشرے کے اصولوں کے خلاف ہے۔ قرآن کہتا ہے: "بے شک جو لوگ یہ چاہتے ہیں کہ مسلمانوں میں بے حیائی پھیلے، ان کے لئے دنیا اور آخرت میں دردناک عذاب ہے۔" (النور: 19)- ویلنٹائن ڈے نہ تو اسلامی تہوار ہے، نہ اس کی اجازت دی جا سکتی ہے، بلکہ یہ اسلامی تعلیمات کے برخلاف ہے۔ محبت کے اظہار کا بہترین طریقہ نکاح، عزت، وفاداری، اور روزمرہ کی زندگی میں اسلامی اخلاقیات کو اپنانا ہے۔ آج بھی 14 فروری کو چرچ کی گھنٹیاں بجتی ہیں، مگر یہ ویلنٹائن کی محبت کی جیت نہیں، بلکہ ایک آوارہ پادری کی ناپاک داستان کا تسلسل ہے۔
اب سوال یہ ہے:
کیا ہم مغربی ثقافت کے اس فریب کا حصہ بننا چاہتے ہیں؟
یا ہم اسلامی اقدار، حیا، اور پاکیزہ محبت کو اپنانا چاہتے ہیں؟
یہ فیصلہ ہمارا ہے!

Comments

عارف علی شاہ

عارف علی شاہ بنوں فاضل درس نظامی ہیں، بنوں یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں، اور کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرر مطالعہ قرآن اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عصرحاضر کے چلینجز کا ادراک اور دینی لحاظ سے تجاویز و رہنمائی کا پہلو پایا جاتا ہے

Click here to post a comment