عزیزم!
انسانی تہذیب کی تاریخ درحقیقت مکالمے کی تاریخ ہے۔ آغازِ آفرینش سے لے کر آج تک، انسان نے اپنی بقا، ارتقا، اور فکری بالیدگی کے لیے مکالمے کو وسیلہ بنایا۔ کبھی یہ مکالمہ فطرت سے تھا، کبھی دیوتاؤں سے، کبھی اپنے ہی ہم جنسوں سے، اور آج یہ ایک غیر جاندار، مشینی ذہن سے ہے- یہ ایک عجیب دور ہے، جہاں زبان تو برقرار ہے، مگر احساسات معدوم ہو رہے ہیں؛ گفتگو تو جاری ہے، مگر اس میں زندگی کی تپش کم ہوتی جا رہی ہے؛ سوالات تو اٹھ رہے ہیں، مگر جوابات محض پیشگی طے شدہ منطقی احتمالات کے گرد گھومتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسان اور کمپیوٹر کے درمیان ہونے والی گفتگو کو "مکالمہ" کہا جا سکتا ہے؟ کیا یہ الفاظ اور خیالات کے حقیقی تبادلے کی کوئی صورت ہے، یا محض ایک ریاضیاتی تعامل؟
تم جانتے ہو کہ مکالمہ محض الفاظ کے تبادلے کا نام نہیں، بلکہ ایک زندہ تجربہ ہے- یہ ایک ایسا عمل جس میں ایک ذہن دوسرے ذہن سے جُڑتا ہے، ایک دل دوسرے دل کی دھڑکن محسوس کرتا ہے، اور ایک روح دوسرے وجود میں اپنی بازگشت سنتی ہے۔ سقراط کے مکالمے ہوں یا مرزا غالب کے خطوط، مولانا روم کی شاعری ہو یا اقبال کا کلام، ہر مکالمہ ایک نئی دنیا تخلیق کرتا ہے۔ مکالمہ صرف اظہار نہیں، بلکہ ایک دریافت ہے، ایک دوسرے کو سمجھنے اور پہچاننے کا سفر۔ لیکن جب ہم کمپیوٹر سے مکالمہ کرتے ہیں، تو یہ سب کہاں رہ جاتا ہے؟ کمپیوٹر ہمارے سوالات کو کوڈز میں بدلتا ہے، انہیں الگورتھمز کے ذریعے پرکھتا ہے، اور پھر ایک متوقع جواب لوٹاتا ہے۔ یہ ایک منطقی تعامل (logical interaction) تو ہے، مگر کیا اسے حقیقی مکالمہ کہا جا سکتا ہے؟
تم یہ جان کر شاید حیران ہو کہ انسانی تاریخ میں غیر جاندار اشیاء کو مکالمے پر مجبور کرنے کی کوششیں ہمیشہ موجود رہی ہیں۔ قدیم یونان میں ہیفیسٹس نامی یونانی دیوتا تھا جو دھاتوں، ہنرکاری، اور مشینی ایجادات سے منسلک تھا۔ یونانی اساطیر میں اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس نے خودکار سنہری خواتین (Golden Maidens) بنائیں جو چل سکتی تھیں اور بات چیت کر سکتی تھیں- (Zhuangzi) زوآنگ زی کی تحریروں میں یان شی (Yan Shi) کی کہانی ملتی ہے، جس میں بادشاہ مُو آف ژاؤ (King Mu of Zhou) کو ایک کاریگر ایک مصنوعی انسان بنا کر دکھاتا ہے۔ یہ خودکار انسان نہ صرف بات کر سکتا ہے بلکہ ایسا لگتا ہے کہ وہ جذباتی ردِعمل بھی دے سکتا ہے۔ یہ کہانیاں اس بات کی علامت ہیں کہ انسان صدیوں سے اس سوال کے گرد گھوم رہا ہے کہ کیا کوئی غیر جاندار شے، کوئی مشین یا کوئی مجازی ذہن، انسان کی طرح سوچ سکتا ہے، محسوس کر سکتا ہے، اور مکالمہ کر سکتا ہے-
افلاطون کے نزدیک ایک حقیقی مکالمہ تب ہوتا ہے جب دو افراد کسی حقیقت تک پہنچنے کے لیے سوال و جواب کا سلسلہ جاری رکھتے ہیں۔ سقراط نے اسے "سقراطی طریقۂ مکالمہ" کہا—ایک ایسا طریقہ جس میں سوالات خود نئے سوالات کو جنم دیتے ہیں، اور مکالمہ ایک ارتقائی سفر بن جاتا ہے۔ آج اگر ہم کمپیوٹر سے سوال کریں تو وہ بھی ہمیں جواب دے گا، مگر کیا اس کے جوابات سقراطی اصول کے مطابق کسی نئی حقیقت کا دروازہ کھولتے ہیں؟ نہیں، کیونکہ کمپیوٹر کے مکالمے میں وہ جستجو نہیں، وہ دریافت نہیں، جو انسانی مکالمے کی جان ہے۔ اس کا ہر جواب ماضی میں محفوظ شدہ ڈیٹا کا ایک عکس ہوتا ہے، کوئی نیا انکشاف نہیں۔ نوم چومسکی، جو جدید لسانیات کے بانیوں میں سے ایک ہیں، کہتے ہیں کہ زبان محض الفاظ کا مجموعہ نہیں بلکہ انسانی شعور کی عکاسی ہے۔ اگر ایسا ہے تو پھر کمپیوٹر، جو انسانی زبان کو سیکھنے کی کوشش کر رہا ہے، کیا واقعی شعور حاصل کر سکتا ہے؟ یا وہ محض ایک چالاک نقال ہے، جو انسانی جذبات کی سطحی نقل اتار رہا ہے؟
یہ بات کسی سی چھپی ڈھکی نہیں کہ جب ایلن ٹورنگ نے 1950ء میں "کمپیوٹر مشینری اور ذہانت" پر اپنا مشہور مضمون لکھا، تو اس نے سوال اٹھایا کہ "کیا مشینیں سوچ سکتی ہیں؟"۔ اسی خاطر اس نے ٹورنگ ٹیسٹ تجویز کیا—اگر کوئی کمپیوٹر انسان کی طرح گفتگو کر سکتا ہے اور سامع کو دھوکہ دے سکتا ہے کہ وہ انسان ہی سے بات کر رہا ہے، تو کیا ہمیں اسے ذہین مان لینا چاہیے؟ آج چیٹ بوٹس، لینگویج ماڈلز، اور مصنوعی ذہانت سے چلنے والی مشینیں ٹورنگ ٹیسٹ کے قریب پہنچ چکی ہیں۔ لیکن کیا وہ حقیقی مکالمہ کر رہی ہیں؟ اگر میں کسی مشین سے کہوں کہ "مجھے اپنے بچپن کی یاد آ رہی ہے"، تو وہ کہے گی، "یادیں قیمتی ہوتی ہیں۔ کیا میں آپ کی مدد کر سکتا ہوں؟" مگر کیا وہ جانتی ہے کہ یادیں کیا ہوتی ہیں؟ کمپیوٹر کے نزدیک "محبت" کا مطلب وہ تمام جملے ہیں جو انسانوں نے محبت کے بارے میں لکھے ہیں، اور "اداسی" وہ تمام اعداد و شمار ہیں جو کسی غمگین کیفیت کی عکاسی کرتے ہیں۔ مگر کیا محض الفاظ کو ترتیب دینا "محبت" یا "اداسی" کو سمجھنے کے مترادف ہے؟ کمپیوٹر کے لیے زبان فقط ڈیٹا ہے- ایک ایسا منطقی نظام جسے الگورتھمز کے ذریعے سمجھا اور پروسیس کیا جا سکتا ہے۔
میرے عزیز، ماہرینِ نفسیات کہتے ہیں کہ انسانی مکالمے کا ایک بڑا حصہ غیر زبانی (non-verbal) ہوتا ہے—باڈی لینگویج، لہجے کا اتار چڑھاؤ، توقف، اور جذبات۔ جب ہم کسی کے ساتھ مکالمہ کرتے ہیں، تو ہم صرف الفاظ ہی نہیں، بلکہ ان کے پیچھے چھپے جذبات کو بھی پڑھتے ہیں- کمپیوٹر کے ساتھ گفتگو میں یہ سب کچھ غائب ہو جاتا ہے۔ ہم اسے اپنی پریشانی بتاتے ہیں، وہ ہمیں ایک حل تجویز کر دیتا ہے، مگر وہ حل کسی ہمدردانہ احساس سے خالی ہوتا ہے- اگر ایک AI سافٹ ویئر کسی عظیم مصنف کے اسلوب کو سیکھ کر اس کے انداز میں لکھ سکتا ہے، تو کیا وہ واقعی اس مصنف کی روح کو اپنے اندر سمو سکتا ہے؟ کیا وہ الفاظ میں چھپے احساسات اور تجربات کو اپنی تخلیق کا حصہ بنا سکتا ہے؟ لہذا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ کمپیوٹر ہمارے مکالمے میں ایک معاون کا کردار ادا کر سکتا ہے، مگر اس کی جگہ نہیں لے سکتا- کمپیوٹر ہماری گفتگو کو سمجھ تو سکتا ہے، مگر وہ ہماری مرضی، ہماری خواہشات اور ہمارے خوابوں کو نہیں سمجھ سکتا-
اب یہ بات طے ہے کہ مستقبل میں AI مزید ترقی کرے گی، اور شاید وہ جذبات اور سیاق و سباق کو بہتر انداز میں سمجھنے لگے۔ لیکن ایک سوال ہمیشہ باقی رہے گا—کیا AI کبھی بھی ایک سچا ہم کلام بن سکتا ہے؟ غالب نے کہا تھا، "درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا" تو کیا کسی مشینی ذہن کے پاس وہ حکمت اور وہ تجربہ ہے جو درد کو دوا میں بدل سکے؟ مکالمے کا یہ فریب ہمیشہ ایک خلا باقی رکھے گا—ایک ایسا خلا، جو شاید صرف ایک انسان ہی بھر سکتا ہے-
میں سمجھتا ہوں کہ انسان اور مشین کے درمیان یہ معاملہ اب ایک ایسے راستے پر ہے جہاں شاید ہم سوال تو پوچھ سکتے ہیں، مگر ہمیں جوابات خود تلاش کرنے ہوں گے۔ کیونکہ مکالمہ وہی ہے جس میں زندگی ہو، اور مشین زندگی نہیں، صرف ایک عکس ہے—ایک بازگشت، جو ہمیشہ اصل آواز سے خالی رہے گی-
خدا تمہیں کھوکھلی آوازوں سے محفوظ رکھے!
تمہارا اپنا۔۔۔
عبداللہ
تبصرہ لکھیے