ابو حذیفہ یاسر کے مکہ ہی میں ٹہر جائے پر کچھ حیران ضرور تھے،مگر دل میں بہت مسرور بھی تھے۔ایک جوان جہان مضبوط شخص ان کے گھرانے کا حصہ بن چکا تھا،جو ان کا مادی سہارا بھی بنا اور ان کی دل بستگی کا سامان بھی۔ وہ اب بوڑھے ہوچکے تھے اور قبیلے کی سرداری کے فرائض کے ساتھ دیگر امور حیات میں کسی مددگار کے طالب تھے ۔
یاسر نوجوانی کے اس آزاد اور بے فکرے دور میں بھی بہت عاقل و بالغ اور زیرک شخص کے ساتھ ایک معاملہ فہم اور مدبر و خبیر و علیم کے طور پر خود کو منوا چکے تھے۔ ان کی گفتگو علم و حکمت کے کئی دَر کھولتی اور مکہ ہی تک محدود ابوحذیفہ کے خاندان والوں کو ہر روز کچھ نئی باتیں سکھاتی ۔ان کی کچھ باتیں تو ابو حذیفہ کو چونکا کر رکھ دیتیں،کیونکہ وہ نئی اور اس قدر منطقی ہوتیں،جو کسی کی سمجھ میں نہ آتیں۔خود جناب یاسر کو یہ پتا نہیں ہوتا تھا کہ یہ باتیں ان کی نوک زباں تک کیسے آجاتی ہیں۔
ابو حذیفہ تو یاسر کے دیوانے تھے ہی....وہ سیاہ فام لونڈی بھی کچھ کم خوش نہ تھی ۔ وہ سارا دن ابوحذیفہ کے گھر میں چہکتی، لہکتی پھرتی۔پہلے تین مہمان تھے،جن کی خدمت اسے کرنا پڑتی،اب صرف ایک یاسر ہی تھا،جس کی خدمت کا اس پر کچھ بوجھ نہیں بلکہ ایک انجانی سی خوشی کا غلبہ تھا۔دونوں دن بھر میں بارہا ملتے ،خوب باتیں کرتے اور شائد آنکھوں آنکھوں میں یا براہ راست کچھ عہد وپیمان بھی کرتے۔صاف لگ رہا تھا کہ دونوں ایک دوسرے کی محبت میں گرفتار ہوچکے ہیں، مگر شائد ابھی تک کھلے لفظوں میں اظہار نہ کرپائے تھے۔
ابوحذیفہ بہت جہاندیدہ تھے،انہیں اس تعلق پر کوئی اعتراض نہ تھا۔ان کے نزدیک ان دونوں کی قربت اور باہم تعلق نے ان کے گھر میں ایک نئی طرح کی رونق اور خوشی سی بکھیر دی تھی۔دونوں ہی کی کارکردگی بھی روز بروز بڑھتی جا رہی تھی ۔ یاسر ابوحذیفہ کے ساتھ کام کرتے اور سمیہ گھر میں بہت شوق اور مستعدی سے سرگرم عمل رہتی اور شام کے اترنے کا انتظار کرتی۔ رات کو نجانے کیا کیا راز و نیاز ،باتیں اور وعدے ہوتے۔
دونوں ہی اپنے وطن ،اپنے پیاروں اور اپنے ماحول و معاشرت سے دور تھے۔شائد ہمیشہ کے لیئےاب یہی ان کی دنیا تھی، یہی ان کا ماضی اور یہی حال تھا،البتہ مستقبل کے تانے بانے خود بُننے اور منصوبے بنانے کا انہیں حق ملتا دکھائی دے رہا تھا اور ایک موہوم سی امید بندھی تھی۔ مگر۔۔بظاہر یہ ممکن نہ تھا کہ ان دونوں میں سے ایک نسل در نسل زر خرید غلام تھا،اور دوسرا غلام تو نہ تھا،مگر کسی حد تک غلاموں جیسا۔اس کا نہ اپنا گھر تھا،نہ قبیلہ،نہ کوئی معاون و سہارا،نہ مددگار اور نہ غم گسار۔
یاسر کے ایک بھائی نے صحیح پیشگوئی کی تھی۔ یاسر! تم نے جذبات میں آکر مکہ میں رہنے کا فیصلہ کرتو لیا ہے،مگر دیکھ لینا تم ذلت و بے چارگی کی اس زندگی پر پچھتاؤگے بہت۔ اگر مکہ والوں نے تم پر بہت احسان کیا بھی ،تو زیادہ سے زیادہ حلیف بنا دیئے جاؤگے ،جو خود تو کسی کو دو وقت کی روٹی بھی نہ کھلا پائے گا،البتہ دوسروں کے ٹکڑوں پر ہی پلتا رہے گا۔
" فان رفِق القوم بک و آثروک علی الخیر ،فشأن الحلیف الذی یُعال ولا یَعول "
کچھ کچھ ایسا ہوا بھی اور کچھ نہیں بھی۔
ابو حذیفہ بزرگ بھی تھے اور مالدار بھی ،عالی نسب بھی تھے اور عالی ظرف بھی۔ یاسر کی صورت انہیں ایک کام کا نوجوان ملا تھا،جو ان کا دست و بازو بھی بنا،بلکہ بڑھاپے کا مخلص سہارا بھی اور ان کا دل لگانے کا ذریعہ بھی۔ پھر یاسر میں انہیں کچھ ایسی منفرد فکری و عملی صفات نظر آئیں ،جو اس عمر کے کسی دوسرے نوجوان میں نہیں پائی جاتی تھیں۔انہوں نے یاسر کو منہ بولا بیٹا تو نہ بنایا اور نہ اپنا غلام قرار دیا،البتہ اسے اپنا حلیف مشتہر کر دیا یعنی اس کی تمام ذمے داروں اور ضرورتوں کے وہ کفیل بن گئے اور یاسر بطور حلیف ان کے دشمنوں کے خلاف ان کا دل و جان سے حامی و مددگار قرار پایا۔
وقت گزرتا رہا اور یاسر اولاً تو ابوحذیفہ کے خاندان کے مہمان بن کر ان کے گھر ہی رہے،پھر جلد ہی سمیہ بنت خیاط سے ان کی شادی ہوگئی اور وہ اپنے علیحدہ گھر منتقل ہوگئے۔پھر ان کے بچے ہوئے،جو بڑھتے پلتے رہے۔مگر یہ سب ابو حذیفہ کی ہی ملکیت تھے،کہ ان کی زر خرید لونڈی کے بطن سے پیدا ہوئے تھے ، جسے ابھی آزادی کی نعمت میسر نہیں آئی تھی ،البتہ یاسر ان کے حلیف ہی رہے۔
یہ سب یوں ہوا کہ ایک روز صحن کعبہ میں جمنے والی غیر رسمی مجالس سے واپسی پر گھر آتے ہوئے ابوحذیفہ اور یاسر میں ایک دلچسپ مکالمہ ہوا,جو دونوں کے مابین ایک قابل عمل اور باعزت معاہدے میں ڈھل گیا۔
اہل مکہ کا معمول تھا کہ ہر صبح صحن کعبہ میں پہنچتے،سب سے پہلے اپنے اپنے عقیدے اور طریقے کے مطابق کعبہ میں گڑے ہوئے بتوں کی خدمت میں حاضر ہوتے۔۔سر جھکاتے،دعائیں مانگتے،چڑھاوے ڈالتے،دکھڑے سناتے، ضرورتیں اور حاجتیں بتاتے،اور بزعم خود سمجھ لیتے کہ انہوں نے سب سن لیا ہے،قبول کرلیا ہے اور اب ان کے سب دکھڑے دور ہوا ہی چاہتے ہیں،
مگر۔۔۔ زندگی کے معمولات یوں ہی اپنی ڈگر پر چلتے رہتے۔ یہ لوگ سمجھتے کہ اب ان کے دن پھر ہی جائیں گے۔اب کی بار ان کی تجارت خوب چمکے گی،ان کے گھر خوشحالی آئے گی،ان کا دشمن و حریف نیست و نابود نہ سہی،مغلوب ضرور ہوگا،دشمن سے جاری انتقام کی جنگ میں ان کا قبیلہ سرخرو ہوگا،ان کے قبیلے کی شان اور تعداد بھی خوب بڑھے گی۔اور غلاموں سمیت خوب مال غنیمت بھی ہاتھ لگے گا۔ بس یہی ان کا حال تھا،یہی ان کا ماضی،اور اسی مستقبل کے وہ متمنی تھے۔۔اور یہی ان کی فکر و عمل اور کار زار حیات کا واحد مطمح نظر اور زندگی کا محور و مقصد تھا ۔
وقت یوں ہی گزرتا اور حالات گردش ایام کے سبب بدلتے رہتے،لوگ بیمار بھی ہوتے اور فنا بھی. جنگ، فتح، شکست، ذلت و رسوائی،آزادی اور غلامی کے پہیے چلتے رہتے۔خود ساختہ خدا کہیں کارفرما و کارگر نہ ہوتے،نہ ہوسکتے تھے۔ اس عبادت نما جہالت کے مظاہروں کے بعد یہ لوگ صحن کعبہ میں جابجا گپ شپ کی چوپالیں اور محفلیں سجا لیتے۔ جہاں اپنی پسند ،چاہت،طبیعت اور مزاج کے مطابق لوگ بیٹھ جاتے،پھر اپنی محدود سی دنیا کے معاملات پر بحث و مباحثہ کے علاوہ قرب و جوار کے علاقوں اور نت نئی خبروں،جنگوں اور دلچسپی کے موضوعات پر باتیں ہوتیں۔کبھی کوئی اجنبی یا دور پرے کا مسافر بھی موجود ہوتا،تو وہی شمع محفل قرار پاتا،کیونکہ اس سے نئی اور تازہ بتازہ خبریں جو ملتیں۔
ان مجالس میں ان دنوں وہ مجلس سب سے بڑی اور مرکز نگاہ ہوتی،جہاں یمن سے آیا ہوا،بنو عنس کا یہ ذہین و فطین، عاقل و حاذق اور طلیق اللسان اور مُکثِر الکلام نوجوان یاسر بیٹھا ہوتا ۔ یاسر کے سب ہی دیوانے تھے،اس کی دلچسپ باتوں کے ساتھ اس کے اخلاق و کردار کے بھی۔اور ہر مجلس والوں کی خواہش ہوتی کہ یاسر آج ان کی مجلس میں بیٹھے اور خوب نئی نئی باتیں سنائے۔ یاسر کو سب ہی نے ہمیشہ ان مجالس میں بیٹھتے،چہکتے،بولتے تو دیکھا ،مگر کبھی کسی نے انہیں مکّی بتوں کے سامنے سجدہ ریز ہوتے یا دعا و مناجات کرتے نہیں دیکھا ۔لوگ یہی سمجھتے کہ وہ شاید اپنے یمنی،عنسی بتوں کی ہی پوجا کرتا ہوگا ۔
دن چڑھے یہ لوگ منتشر ہوکر اپنے گھروں،بازاروں یا کھجور کے باغوں میں کام کاج کے لیئے روانہ ہو جاتے۔ ایسے ہی ایک دن صحن کعبہ کی نادی۔۔یعنی صباحی مجلس سے گھر واپس آتے ہوئے ابوحذیفہ نے بہت پیار اور چاہت سے اپنے پاس بطور مہمان مقیم یاسر کا ہاتھ تھاما اور مسکراتے ہوئے کچھ معنی خیز انداز میں پوچھا۔ یاسر۔۔ تمہارے بھائیوں نے تمہارے ساتھ آخر کیا کیا۔۔۔؟؟ ما فعل اخواک یا فتَی عَنس۔؟!
( نابینا مصری ادیب،دانشور،نقاد اور ناول نگار اور دوہری پی ایچ ڈی کے حامل بیسیوں متنوع کتب کے مصنف ڈاکٹر طٰٰہ حسین کے عربی ناول "الوعد الحق" سے مأخوذ)
(جاری ہے)
تبصرہ لکھیے