ہوم << چوہا نامہ - زید محسن

چوہا نامہ - زید محسن

لوگوں کی صبح کا آغاز مختلف انداز سے ہوتا ہے ، اور ہر کوئی اٹھتے ہی مختلف چیزیں تلاش کرتا ہے ، اور زبان پر الگ الگ باتیں لاتا ہے ، جیسے اہلِ یورپ کے ہاں عام طور پر اٹھتے ہی باہر جایا جاتا ہے ، اپنے ماحول میں کسی خوبصورتی کو تلاش کیا جاتا ہے اور "واؤ ، واٹ آ بیوٹی" (Wow what a beauty) جیسے الفاظ کہہ کر ماحول سے لطف اندوز ہوا جاتا ہے۔ ہم بھی چاہتے تو یہ ہیں کہ کچھ ایسا ہی اہتمام کریں لیکن ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ باہر نکلتے ہی ہمارا سامنا ایک ایسی مخلوق سے ہو جاتا ہے جس کو دیکھ کر"واٹ آ۔۔۔۔" مکمل ہونے کی بجائے "واٹ لگ گئی" منہ سے نکل جاتا ہے۔

ہم جو فجر کے وقت بستر چھوڑنے کو تیار نہیں ہوتے ، اس مخلوق کا ہم پر یہ احسان ہے کہ اسے دیکھتے ہی ہماری سستی رفو ہو جاتی ہے اور ہم ایک دم فریش اور چوکنا ہو جاتے ہیں ، قبل اس کے کہ شادی شدہ جوڑے ایک دوسرے کے بارے میں خیال کریں کہ ان کی بات ہو رہی ہے ، ہم واضح کر دیں کہ ہماری مراد "چوہے" ہیں۔

ہم پطرس بخاری کی طرح یہ دعویٰ تو ہر گز نہیں کر سکتے کہ ہم نے ماہرین سے چوہوں کی بابت بہت پوچھا لیکن آج تک کوئی نہ بتا سکا کہ اس مخلوق کے وجودِ نا مسعود میں کیا حکمتیں ہیں چونکہ ایک حکمت سے ہم خود واقف ہیں کہ بلیوں کیلئے ایک اچھا انتظام ہوتا ہے لیکن سچ پوچھئے تو ہمارا جن چوہوں سے سامنا ہوتا ہے ، ان سے تو بلیاں بھی خوف کھاتی اور بھاگتی پھرتی ہیں۔

البتہ ہم پطرس بخاری کی طرح چوہوں کی اقسام پر ضرور بات کریں گے ، جیسے ایک تو ہوتے ہیں سفید ، نرم ، ملائم سے چوہے جن کو جہاں کسی چائنیز نے دیکھا دُم سے پکڑا اور بھون کر پیٹ میں بھسم کر لیا ، دوسرے ہوتے ہیں پنک کلر کے چوہے جن کو ممالکِ غیر میں بطورِ خوبصورتی کے شوکیس میں رکھ کر عوامی پارکوں میں رکھ کر چوہا گھر قائم کیا جاتا ہے ، ایک ہوتا ہے کانٹے والا چوہا جو کبھی کبھی جنگل میں دنگل تک مچا دیتا ہے جب کوئی شکاری جانور اس سے زخم کھاتا ہے ، ایک وہ ہوتا ہے جس کے کبھی پیچھے ٹوم بھاگتی اور کبھی آگے یعنی ٹوم اینڈ جیری والا سمجدار ، پڑھا لکھا چوہا اور ایک ہوتے ہیں جو ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں ، کالے رنگ کے ہیبت ناک چوہے۔۔۔۔اپنے ہاں کے چوہوں کی تین اقسام سے میں متعارف ہو سکا ہوں:
چوہا ، چوہیہ ، اور چچندر۔۔۔۔ان تینوں میں آپ بھی بآسانی فرق کر سکتے ہیں جیسے چوہا عام طور پر بڑا سا ہوتا ، جو ہٹا کٹا بھی ہوتا ہے ، جبکہ چوہیا چھوٹی ہوتی اور ذرا اسمارٹ اور سِلِم سی ہوتی ہے البتہ چچندر ان دونوں سے مختلف ہوتی ہے ، جس کا چپٹا سا منہ ہوتا ہے اور معلوم ہوتا ہے کہ زمین پر کوئی آبدوز سبک رفتاری سے لہرے کاٹتی ہوئی دوڑے چلی جا رہی ہے ، اس کو قابو کرنا نا ممکنات میں سے ہے کیونکہ یہ بصورتِ خورشید ہے ، کہ: اِدھر نکلے اُدھر ڈوبے ، اُدھر نکلے اِدھر ڈوبے

تو بات یہ ہو رہی تھی کہ ہماری صبح یوں ہوتی ہے کہ بلڈنگ سے نکلتے ہی ہر طرف سے چوہوں کی آر جار جاری ہوتی ہے ، اور رات جس طرح سڑکوں پر کتوں کی بادشاہت اور فضاؤں میں الوؤں کی حکمرانی ہوتی ہے اسی طرح فٹ پاتھوں اور گزر گاہوں پر چوہوں کا کام ، دہن چل رہا ہوتا ہے ، پھر جوں ہی ہم کسی منظر کی تلاش میں نکلتے ہیں تو منظر نامے میں یہ چوہے مخل جو جاتے ہیں ، یا پھر ہم ان کے کاموں میں مخل ہو جاتے ہیں۔۔۔۔

ویسے ہم نے اس حوالے سے کافی تلاش کی کوشش کی ہے کہ چوہوں کی واپسی کا وقت کون سا ہے تو ہر چند دو میں سے ایک وقت سمجھ آتا ہے ، یا تو وہ وقت جب چہل پہل شروع ہو جائے یا پھر وہ وقت جب ذرا روشنی ہو جائے ، اب اگر دوسرا والا وقت ہے تو ہمیں بھی فقہ حنفیہ کے اوقات کار کے مطابق نماز کو روشنی میں پڑنے پر غور دینا پڑے گا ، اور اگر چہل پہل ہے تو ہماری حنفی بھائیوں کو اپنے اوقات کار کو اندھیرے والی حدیثوں کے مطابق ڈھال لینا چاہئے تاکہ چہل پہل ذرا جلد ہو جائے ، کہ پتا نہیں کتنے ہی لوگ ہماری طرح خوفِ دل چھپانے کے واسطے اور خفگی کے ڈر سے بجائے یہ کہنے کہ "جناب ، راستے میں چوہے بہت ہوتے ہیں اس لئے فجر میں نہیں آ پاتے" بے چارے کتوں کے کھاتے میں یہ برائی بھی ڈال دیتے ہیں اور چوہوں کی بجائے انہیں بد نام کر دیتے ہیں۔

حالیہ واقعہ یہ ہے کہ پچھلے کئی ہفتوں سے کراچی میں سردی کی شدت ہے ، جس کو نہ پنجاب والے سردی مانتے ہیں ، نہ خیبر والے اور نہ ہی بلوچستان والے ، بس اپنے سندھی بھائیوں کا ہی کراچی پر یہ احسانِ عظیم ہے کہ کراچی والوں کے علاؤہ وہ اس سردی کو سردی گردانتے ہیں ، تو اس سردی کا جہاں انسانوں پر فرق پڑا ہے وہیں چوہوں پر بھی پڑا ہے ، اب کئی دنوں سے سکون یہ ہے کہ ان کے دندناتے پھرنے کی روایت ماند پڑ گئی ہے اور مارے سردی کہ یہ مخلوقِ خدا بھی ایک کونے میں دبک کر بیٹھ گئی ہے ، تو اب ہم کافی سکون سے بلڈنگ سے باہر آ کر "واٹ آ بیوٹی" کہہ سکتے ہیں ، ورنہ تو حال یہ ہوتا تھا کہ جاتے ہوئے بھی خیال کرو کہ اپنی بیگم کو مناتے کسی ہٹے کٹے چوہے کے سامنے نہ آ جاؤ ورنہ وہ راستہ بدلنے کے بجائے پیر پر چڑھ کر گزرنے کو ترجیح دیں گے ، اور واپسی پر اگر آپ نے جانے انجانے میں کسی افسرِ شاہی کی دم پر پاؤں رکھ دیا تو بجائے وہ بھاگنے کے پلٹ کر بھی حملہ کر سکتا اور غلاظت مچا سکتا ہے لیکن آج صبح کسی ناہنجار سے چوہے کو سردی سے چھپنے کو ایک ایسا ٹھکانہ نصیب ہوا کہ: صاف چھپتے بھی نہیں ، سامنے آتے بھی نہیں، والی صورت بن گئی ، ہم جو نیم غنودگی میں نماز کیلئے جا رہے تھے ، جانے ان جانے میں موصوف کی دم پر پاؤں رکھ گئے ، سچ پوچھئے اگر وہ چاہتا تو پلٹ کر آ سکتا تھا لیکن یہ تو ان کی زرہ نوازی کہ بڑی نزاکت سے وہ اپنے بِل میں مزید گھس گئے اور ہم سکون سے نکل گئے۔