اپنی مختصر سی زندگی میں بڑے بڑے اہداف طے کرنے اور حصول مقصد کے راستے میں اپنوں اور غیروں سے ملنے والے طنز و تشنیع کو بحسن خوبی برداشت کر کے اپنے نیک مقاصد کو پا لینے والوں سے مسلمانوں کا ماضی بھرا پڑا ہے۔ انہی چمک دار ستاروں میں سے ایک نہایت روشن ستارہ جو اپنے حلقے میں نہایت نمایاں ہے وہ حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمت اللہ تعالی ہیں۔ جنہوں نے عقل و شعور سے آگاہی کے ابتدائی دور سے ہی خلافت بنو امیہ جو خلافت راشدہ کے رشد و ہدایت کے راستے کو چھوڑ کر بے مہار حکومت کر رہی تھی کو کتاب و سنت کی روشنی سے بہرہ آور کرانے کا عزم کر لیا تھا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی ولادت با سعادت 61 ہجری میں مصر میں ہوئی اور آپ رحمہ اللہ کا نسب مبارک دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے بلند پایہ تھا۔ آپ رحمہ اللہ کی والدہ ماجدہ أم عاصم حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ تعالی عنہ کی پوتی تھیں اور آپ رحمہ اللہ کے والد ماجد عبد العزیز بن مروان اموی شاہی خاندان سے تھے اور خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان کے برادر تھے۔ عمر بن العزیز نے دولت و ثروت میں انکھ کھولی اور شاہی محل میں پرورش پائی لیکن اس سب کے باوجود حضرت عمر بن عبد العزیز کے دل میں دینی حمیت اور غیرت کا الاؤ روشن تھا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ زہد و تقوی، حلم و بردباری، عفو و درگزر اور شرافت کا مجسمہ تھے۔ آپ رحمہ اللہ بچپن سے ہی نہایت ذہین و فطین واقع ہوئے تھے۔ آپ رحمہ اللہ تعالی کے والد مکرم عبدالعزیز نے تربیت کی غرض سے آپ کو دارالامارات(شاہی تربیت گاہ) دمشق بھیجنا چاہا تو آپ رحمہ اللہ تعالیٰ نے حصولِ علم کے لیے مدینہ منورہ جانے کی درخواست کی جسے قبول کر کے اپ کو مدینہ منورہ بھیج دیا گیا۔ وہاں آپ نے گراں قدر علماء کرام کے حلقہ درس میں شامل ہو کر اپنے ظاہر و باطن کو علوم دینیہ سے آراستہ کیا اور جب علم حدیث اور دیگر علوم میں مہارت حاصل کر لی تو واپس ہوئے اور خلیفہ وقت عبدالملک بن مروان نے اپنی بیٹی فاطمہ سے ان کا نکاح کر دیا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ جوانی ہی سے حصولِ علم کے ساتھ ساتھ حکومتی نظام سمجھتے تھے اور شاہی دربار میں نہایت ممتاز درجہ رکھتے تھے۔
73 ہجری میں عبدالملک بن مروان کی وفات کے بعد اس کا بیٹا ولید بن سلیمان تخت نشین ہوا اور ولید نے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو مدینہ کا والی مقرر کر دیا جسے آپ رحمہ اللہ تعالی نے ایک شرط کے ساتھ قبول کیا کہ وہ پچھلے والیوں کی طرح عوام پر ناجائز پابندیاں لگا کر ظلم نہیں کریں گے۔ جسے ولید نے بخوشی قبول کر لیا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز نے کئی بگڑی ہوئی اصطلاحات کو درست کیا اور باغ فدک جس کا منافع آپ صلی اللہ علیہ وسلّم اہل بیت اور بنی ہاشم پر خرچ کیا کرتے تھے لیکن عبدالملک بن مروان نے اسے بیت المال میں جمع کرا دیا تھا آپ رحمہ اللہ تعالی نے دوبارہ اس کے منافع کو اہل بیت اور بنی ہاشم پر خرچ کرنا شروع کر دیا اور اپنی نگرانی میں مسجد نبوی کی جدید تعمیر کرائی۔
عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دور میں مدینہ امن و امان کا گہوارہ تھا۔ حجاج بن یوسف کے مظالم سے تنگ آ کر کوفہ کے لوگ مدینہ ہجرت کرنے لگے تھے۔ حجاج بن یوسف نے اسی بات کا بہانہ بنا کر ولید بن عبد الملک سے شکایت کی کہ وہ علاقائی باغیوں اور تخریب کاروں کو پناہ دے رہے ہیں۔ ولید بن عبدالملک نے اس کی شکایت پر یقین کر کے عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کو معزول کر دیا۔
پھر سن 96 ہجری میں ولید بن عبدالملک کے انتقال کے بعد اس کا بھائی سلیمان بن عبدالملک تخت بیٹھا تو اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کو کم و بیش نو دہائیاں گزر چکی تھی اور مسلمانوں کی ایمانی طاقت کمزور پڑتی جارہی تھی اور اموی خلفاء لوگوں کی فلاح و بہبود اور تعمیر و ترقی کی بجائے لوٹ کھسوٹ اور عوام پر ظلم کرنے میں مشغول تھے۔ لوگوں سے زمین چھین کر اپنے رشتہ داروں اور خوش آمدیوں میں بانٹتے اور ان کی جھوٹی تعریفوں سے خوش ہوتے تھے۔ غرض یہ کہ دور نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور خلافت راشدہ کے سنہرے اصولوں کو پس پشت ڈال کر من چاہی حکومت کر رہے تھے۔
سلیمان بن عبدالملک بہرکیف شباب و کباب کا شوقین تھا لیکن عمر بن عبد العزیز کی عزت کرتا تھا اور ان سے سلطنت کے متعلق اہم امور پر تبادلہ خیال اور مشورے بھی کرتا تھا۔ 99 ہجری میں اپنے انتقال سے قبل ایک مشہور عالم "رجا بن حیوۃ" سے مشورہ کر کے اپنے بعد عبدالعزیز رحمہ اللہ کے خلیفہ بننے کا حکم اپنے وصیت نامے میں لکھوا دیا اور وفات پا گیا۔ رجا بن حیوۃ نے اس کی موت کی خبر افشا کرنے سے قبل شاہی خاندان کے افراد کو جمع کیا اور اس وصیت نامے پر بیت لے لی پھر موت کی خبر سنا کر ان کے سامنے وصیت نامہ پڑھا اور حضرت عمر بن عبدالعزیز کا ہاتھ پکڑ کر ممبر پر کھڑا کردیا۔ پہلے پہل تو حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ یہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے پھر بالآخر خلافت کے اس بھاری بوجھ کو اپنے توانا کندھوں پر اٹھا لیا۔
سلیمان بن عبدالملک کے کفن دفن سے فارغ ہونے کے بعد آپ کے لیے حسب روایت سرکاری سواری، فوجی دستے اور خدام پیش کیے گئے جسے آپ رحمہ اللہ نے یہ کہہ کر منع کر دیا کہ:" میرے لیے میرا خچر ہی کافی ہے اور میں عوام کے لیے ایک عام فرد کی طرح ہوں جسے حفاظت کی ضرورت نہیں۔" اس کے بعد آپ رحمہ اللہ عوام کے سامنے آئے اور مختصراً یہ کہا کہ:" لوگوں! میں تمہاری رائے اور مشورے کے بغیر خلیفہ بنا دیا گیا ہوں۔ میں خود کو اس عہدے کے لائق نہیں سمجھتا اور میں تمہیں اس بات کی اجازت دیتا ہوں کہ جسے چاہے خلیفہ منتخب کر لیں۔" یہ سن کر عوام پر سکوت چھا گیا۔ پھر ایک کونے سے آواز آئی کہ:"ہم آپ رحمہ اللہ کو خلیفہ مانتے ہیں اور اس پر راضی ہیں۔" اور اسی طرح کی مختلف بے ہنگم آوازوں سے مجمع چیخ اٹھا۔ یہ دیکھ کر عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے ایک خطبہ کہا جس میں اللہ تعالی کی حمد و ثنا اور توحید اور اتباع سنت کو بیان کیا اور اس کے بعد آپس میں صلہ رحمی اور مظلوم کا ساتھ دینے اور برائیوں سے بچنے کا درس دیا اور خود کو ایک ادنی ادمی شمار کیا اور یوں حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ نے مکمل طور پر خلافت جیسی اہم ذمہ داری قبول کرلی۔ پھر آپ رحمہ اللہ تعالی اپنی شریک حیات کے پاس تشریف لائے اور کہا کہ:" اگر میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو تو تمام زیورات بیت المال میں جمع کرا دو ورنہ بخوشی اپنے میکے چلی جاؤ۔" یہ سن کر ان کی بیوی فاطمہ رونے لگی اور ہر حالت میں اپ رحمہ اللہ تعالی کے ساتھ رہنے پر رضامندی کا اظہار کیا۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ خلافت سے قبل نہایت عیش اور تنعم میں رہتے تھے۔ ہر وقت نہایت اعلیٰ پوشاک زیب تن کیے رکھتے اور جس لباس کو کوئی ایک دفعہ دیکھ لے تو اسے دوبارہ نہیں پہنتے تھے اور عطریات کا استعمال بکثرت کرتے تھے۔ ان کی ہدایت کے مطابق محل کے خدام محل کے تمام حصوں کو اعلیٰ قسم کی خوشبو سے مہکائے رکھتے تھے لیکن جب عنانِ حکومت سنبھالی تو ان کی زندگی بالکل مختلف ہو گئی۔ انہوں نے اپنے اردگرد سے تمام آسائشوں اور تکلفات کو ختم کردیا اور اپنی زندگی انتہائی سادگی سے گزارنے لگے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ اپنے استعمال میں صرف چند کپڑے رکھنے لگے حتی کہ کئی کئی دنوں تک ایک ہی قمیض بدن پر رہتی جس پر لگے پیوند نظر آتے تھے۔ قبول خلافت کے بعد آپ رحمہ اللہ تعالی سابقہ اموی خلفاء کی تمام نا انصافیوں کا تدارک کیا اور عوام سے چھینی گئی زمینیں شاہی خاندان کے افراد سے ضبط کر کے اصلی مالکان تک پہنچائی اور مختلف علاقوں کے والیوں کو خطوط لکھے جس میں تبلیغ دین، اتباع سنت، ذمیوں سے صلح رحمی اور نو مسلموں سے جزیہ کی روک تھام کا حکم دیا۔
آپ رحمہ اللہ کے دور میں اللہ کے فضل سے ہر طرف مال و دولت کی فراوانی ہوئی، زمین نے اپنے خزانے اگلنے شروع کر دیے یہاں تک کہ مدینہ منورہ میں کوئی زکوۃ کا مستحق نہ رہا۔ کوئی شخص زکوۃ کا مال دینے بازار آتا لیکن کسی مستحق کے نا ملنے کی وجہ سے اپنا مال لیے واپس گھر لوٹتا۔
آپ رحمہ اللہ تعالی کے دور میں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کے زمانے کا گہرا رنگ دیکھا گیا۔ آپ رحمہ اللہ تعالی کی زوجہ فاطمہ رحمہا اللہ فرماتی ہیں کہ وہ رات کو مصلے پر بیٹھتے اور خشوع و خضوع کے ساتھ عبادت میں مشغول ہو جاتے اور اتنا روتے کہ آنکھوں میں سوجن اتر آتی۔ آپ رحمہ اللہ تعالی نے عبادت کے لیے ایک کمرہ مخصوص کیا ہوا تھا جسے وہ بند رکھتے تھے۔ کہا جاتا ہے کہ ان کی وفات کے بعد یزید بن عبدالملک نے اس کمرے کو کھولا کہ شاید کوئی خزانہ وغیرہ ہو لیکن کمرے میں ایک طوق اور ایک کملی کی قمیض تھی۔ طوق گلے میں باندھ کر اور قمیص پہن کر اللہ تعالی کی عبادت کرتے تھے۔
اللہ کے خوف سے سرشار اور دنیا سے بے نیاز حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی کو بعض علماء نے خیر التابعین اویس قرنی رحمہ اللہ تعالی سے بھی زیادہ اعلیٰ و مرتبہ والا گردانا ہے اور ان کا ذکر خیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اگر ان کا مقدر حکومت نہ ہوتی تو آپ رحمہ اللہ مسند علم و حکمت پر ہوتے۔
حضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کے دورِ حکومت میں کسی خاص فتح کا ذکر نہیں۔ لیکن آپ رحمہ اللہ تعالی نے سرحد بڑھانے سے زیادہ امور داخلیہ پر دھیان دیا اور اس وقت کے اٹھنے والے کئی فتنوں کی سرکوبی کی۔
آپ رحمہ اللہ تعالی کی علالت کے زمانے میں مسلمہ بن عبدالملک نےحضرت عمر بن عبد العزیز رحمہ اللہ کی بیوی اور اپنی بہن سے کہا:" فاطمہ! لوگ عیادت کے لیے آتے ہیں قمیض تبدیل کرا دیا کرو۔" تو انہوں نے جواب دیا کہ:" دوسری قمیض کیسے بدلوں جبکہ دوسری قمیص ہے ہی نہیں۔"
حکومت کو خلافت میں تبدیل کرنے والے، حقوق المسلمین کے محافظ، ظلم کو روکنے اور مظلوم کی فریاد سننے والے خلفائے راشدین کے حقیقی جانشین حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ تعالی 101 ہجری کو دو سال، پانچ ماہ، چودہ دن حکومت کر کے 39 اور 40 کے درمیانی عمر میں اپنے خالق حقیقی سے جا ملے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔
اپنی موت سے قبل علالت کے ایام میں کسی خیر خواہ نے دوا دارو کا مشورہ دیا تو آپ رحمہ اللہ تعالی نے یہ فرمایا کہ: "اگر مجھے پتہ ہوتا کہ میں اپنے کان کو ہاتھ لگانے سے ٹھیک ہو جاؤں تو بھی ایسا نہ کرتا۔ میں اپنے رب کی طرف سے رحمت و مغفرت کا طلبگار ہوں۔"
سیر اعلام النبلاء میں ہے کہ حضرت عمر بن عبدالعزیز کی اولاد میں تیرا بیٹے اور آٹھ بیٹیاں تھی اور آپ کے اساتذہ میں حضرت انس بن مالک، صائب بن زید، یوسف بن عبداللہ بن سلام، عبید اللہ بن عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالی عنہ جیسے جلیل القدر اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور تابعین تھے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تعالی کے قول کے مطابق حضرت عمر بن عبدالعزیز پہلی صدی ہجری کے مجدد ہیں اور امام شافعی اور سفیان ثوری رحمہما اللہ تعالی کے نزدیک خلفائے راشدین میں سے پانچویں خلیفہ ہیں۔
تبصرہ لکھیے