اس میں کوئی شک نہیں کہ اسلام اور مسلمانوں کو ہر لمحہ تباہ کن تصورات اور عقائد کا سامنا کرنا پڑتا ہے، اور 20ویں صدی میں ہمیں اس طرح کی تصوراتی سرگرمی نظر آتی ہے۔ بیسویں صدی جبلت اور جسم کو پوجتی ہیں اور اسی کو روح سمجھنا چاہتی ہے۔ بیسویں صدی کے فلسفے انسان کو انسان کے درجے سے نیچے لے جانا چاہتے ہیں.
اسلامی دنیا پر حملہ جس کا مقصد فرد، خاندان اور معاشرہ ہے۔ کہ مسلمان کو اس کے اپنے تصورات اور عقائد سے دور لے جائیں اور ان کی جگہ ایسے تصورات اور نظریات پیش کریں جو اسلامی کردار کو بگاڑے۔ وجودیت پسند الحاد اس تصوراتی یلغار کے انٹرفیس کی نمائندگی کرتا ہے جو آج اسلامی دنیا میں الحاد کا مطالبہ کرتا ہے۔ Soren Kierkegaard کو سب سے ممتاز مفکر اور Existentialism کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ جبکہ ژاں پال سارتر اس کے دور حاضر کے سب سے مشہور رہنما اور ایک فرانسیسی ملحد فلسفی ہیں۔
اسلامی نظریہ وجودیت کے نظریہ سے مختلف ہے کیونکہ وجودی عقیدہ میں اللہ کا کوئی وجود نہیں ہے اور مذہب ایک افسانہ ہے جس پر صرف ایک ناخواندہ آدمی ہی یقین کرتا ہے اور وجودیت پسند شخص کے پاس آزادانہ ارادہ ہونا چاہیے اسے اسکے ذات کے علاوہ کوئی حکم نہیں دے سکتا چاہے وہ اللہ ہی کیوں نہ ہو، وجودیت انسان کے مادیت پسند پہلو کا خیال رکھتی ہے اور روحانی پہلو کو یکسر نظر انداز کرتی ہے۔ روحانی پہلو اللہ پر ایمان کے سوا حاصل نہیں ہوتا ہے جس کا تمام آسمانی مذاہب مطالبہ کرتے ہیں
وجودیت کو دو قسموں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔۔
الہیاتی وجودیت thiest existentialism
الحادی وجودہت athiest existentialism
الہیاتی وجودیت کے افراد خدا کو مانتے ہیں اور اس کا بانی سورن کرکیگارڈ ہیں اور الحادی وجودیت کے افراد خدا کا انکار کرتے ہیں اور اسکے بانی نطشے اور جان پال سارتر ہیں۔جان پال سارت کا بنیادی نعرہ یہی ہے کہ وجود ماہیت/جوہر سے مقدم ہیں(Existence precedes essence) جبکہ اسکے برعکس ایک نظریہ یہ چلا ارہا تھا کہ ماہیت وجود سے مقدم ہیں۔۔۔(essence proceeds existence)
وجود سے بحث یونانی فلسفہ اور ملا صدرا کے فلسفہ حکمت متعالیہ میں بھی ہوتی رہی ہے۔ یونانی اور ملاصدرا کے فلسفہ میں مطلق وجود سے بحث ہوتی ہے یعنی تمام کائنات کے وجود کو مدنظر رکھا جاتا ہے جبکہ فلسفہ وجودیت میں صرف انسان کے وجود سے بحث ہوتی ہے۔اور ملاصدرا اور یونانی فلسفہ میں ماہیت امر انتزاعی اور امر ذہنی ہوتی ہے جو وجود سے منتزع ہوتی ہے اور فلسفہ وجودیت کے نزدیک ماہیت انسان کی شخصیت ہے یعنی انسان اپنی شخصیت خود بناتا ہے ۔ ہمارا جوہر متعین یا موروثی نہیں ہے۔
یہ ہمارے وجود، ہماری آزادی، اور ہمارے انتخاب سے تخلیق اور تشکیل پاتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں، سارتر نے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ انسانوں کی فطرت یا تقدیر پہلے سے طے شدہ ہے۔ اس کے بجائے، اس کا خیال تھا کہ ہم اپنے راستے کا انتخاب کرنے اور اپنے وجود کے ذریعے اپنا جوہر بنانے کے لیے آزاد ہیں۔ اور جو حضرات کہتے ہیں جوہر مقدم ہیں وجود سے انکے خیال میں، ایک وجود کا جوہر پہلے سے متعین اور اس کے وجود سے آزاد ہوتا ہے اس کا جوہر اس کے وجود سے پہلے ہی اس کی وضاحت کرتا ہے، اور اس کا وجود محض اس کے پہلے سے تصور شدہ جوہر کو ظاہر کرتا ہے۔
مثال کے طور پر:
کرسی کا جوہر (اس کی تعریف، مقصد اور خصوصیات) اس کے وجود سے پہلے ہے۔ کرسی کا وجود اس کے پہلے سے طے شدہ جوہر کا مظہر ہے .انسان کا جوہر (انسان کا عبد اور مخلوق ہونا) ان کے وجود سے پہلے ہے۔ ان کا وجود ان کے پہلے سے تصور شدہ جوہر کا عکاس ہے۔ سارتر انسانی جوہر کا منکر تو ہے لیکن انسانی زندگی کی مقصدیت سے انکار نہیں کرتا وہ یہ نہیں کہتا کہ انسان کی زندگی بے مقصد ہے بلکہ انسان اپنی زندگی کا مقصد خود متعین کرتا ہے اس اعتبار سے وہ nihilism سے جدا ہوجاتا ہے لیکن وجودیت میں عدمیت کا عنصر پایا جاتا ہے. اب کس حد تک پایا جاتا ہے اور وجودیت کے انسانی زندگی پر کیا اثرات ہیں ؟
وجودیت کا یہ نعرہ کہ انسان اپنے ارادہ و اختیار سے اپنی شخصیت خود بناتا ہے بظاہر تو ایک دلکش اور دل کو موہ لینے والا نظریہ ہیں لیکن اس سے جڑی ہوئی یاسیت، خود غرضی، اکیلا پن کسی سے پنہاں نہیں ہے۔۔وجودیت جس انداز اور اعتبار سے ازادی کا نعرہ لگاتی ہے یہ نعرہ انسانیت اور قوموں کو تباہ کرتی ہے۔ وجودیت کا بنیادی اصول یہی ہے کہ انسان کو ہر اس چیز سے وابستگی نہیں رکھنی ہوگی جو اسکی ازادی کے خلاف ہو کیونکہ جب وہ کسی چیز سے وابستہ ہوگا تو اپنے آپ سے غافل ہوگا اس طرح وہ اپنے ماہیت کی تشکیل نہیں کرسکے گا۔ تو ایک وجودیت پرست کے نزدیک صرف اپنی ماہیت کو تشکیل دینا اہم ہے باقی ماں باپ ، بھائی بہن معاشرتی تعلقات ، اور معاشرہ کی کوئی اہمیت نہیں۔
سوچنے کی بات ہے کہ اگر معاشرے کے سارے افراد وجودیت پرست بن جائے تو معاشرہ جنگل بن جائے گا کیونکہ ہر انسان اپنی ماہیت بنانے یعنی اپنی زندگی سنوارنے میں لگا ہوگا معاشرتی اقدار اور سماجی اخلاقیات سے اس کا کوئی واسطہ نہیں ہوگا۔ یہ نظریہ انسان کو ایسے اندھے کنویں میں گرا دیتا ہیں جہاں سے نکلنے کے لیئے اسکو خود ہی ہاتھ پاوں مارنے ہونگے۔ اس کا کوئی مددگار اور پرسان حال نہ ہوگا۔اس لیئے وجودیت پرست مایوسی ، اضطراب اور ٹوٹ پوٹ کا شکار رہتا ہے کیونکہ خدا کے بغیر انسانیت تنہا اور بغیر کسی مقصد کے رہ جاتی ہے۔ اسلام انسانی وجود کو ایک واضح مقصد دیتا ہے کہ اللہ کی عبادت اور اسکی بندگی کرنا، ارادہ و اختیار کی آزادی اسلام بھی دیتا ہے لیکن انکی ازادی محدود ہے اور انسان اپنے انتخاب میں اللہ کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے ، ہر نفس اپنے اعمال کا ذمہ دار ہوتا ہے ۔
وجودیت مکمل انفرادی وجود پر زور دیتا ہے جبکہ اسلام انفرادیت کو اجتماعیت اور سماجی ذمہ داریوں کے ساتھ متوازن کرتا ہے۔وجودیت خود غرضی سکھاتی ہے جبکہ اسلام انسانیت سکھاتی ہے کہ کیسے ایک فرد کو اپنے ذات اور معاشرے کی تشکیل میں اہم کردار ادا کرنا ہے ۔ انسان کو معاشرت حیوان کہا گیا ہے اسکی فطرت میں ہمدردری ، آپس میں مل جل کر رہنے اور دوسروں کی مدد کرنے کا جذبہ رکھا گیا۔وجودیت کے پاس انسانی ازادی اور مقصد ہے لیکن اخلاقیات اور کوئی عزم نہیں ہے اور ایسی ازادی فرد اور سماج کے لیئے نقصان دہ ہوتی ہے اسی لیئے ایک وجودیت پرست عدمیت کا شکار ہوجاتا ہے انسانی زندگی اور کائنات کو بے مقصد سمجھنے لگتا ہے اور ایک کراہتا ہوا انسان رہ جاتا ہے۔
تبصرہ لکھیے