میرے خاندان کی معلوم تاریخ میں میرے آباؤ و اجداد مہاراجہ رنجیت سنگھ کے لشکری تھے، فقط میرے دادا جی نے تقسیم ہندوستان سے پہلے تین جماعتیں پڑھی تھی جو انڈیا پنجاب کے ضلع امرتسر کے ایک گاؤں رنگڑنگر سرداراں سے ہجرت کرکے پاکستانی پنجاب کے ضلع گوجرانوالہ کے ایک قصبہ حافظ آباد آئے تھے، ان کے بعد میں پہلا بچہ جسے سکول داخل کروایا گیا تھا، ہر سال پہلی پوزیشن لینے کے بعد جب میں میٹرک کے امتحانات میں ضلع بھر میں دوسری اور گوجرانوانہ بورڈ میں اچھی پوزیشن لی تھی تب صدائے شوکت اسلام کالج کے پرنسپل جناب افتخار احمد سالار نے خصوصی مبارک دینے کے علاوہ اشتہارات چھپوا کر ایڈورٹائزمنٹ کیلئے پورے حافظ آباد شہر کی دیواروں پر چسپاں کئے تھے، دوسری مرتبہ جب انٹرمیڈیٹ میں پھر سے ضلع بھر میں دوسری اور گوجرانوالہ بورڈ میں آٹھویں پوزیشن لی تھی تب ہمارے انگریزی کے استاد سید سبطین مظہر شاہ صاحب نے بھی پورے حافظ آباد شہر کی دیواروں پر اشتہارات چسپاں کروائے تھے، بہت نام اور عزت ملی، گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ میرا خواب تھا، میٹرک میں میرٹ پر پورا اترتا تھا لیکن بوجوہ لاہور نہ جا سکا، سال 1997 گورنمنٹ کالج لاہور میں تھرڈ ایئر کا سٹوڈنٹ تھا، پہلی میرٹ لسٹ میں میرا نام 32 ویں نمبر پر تھا، کالج کی مین بلڈنگ کے دوسرے فلور پرپہلا لیکچر انگریزی کے پروفیسر صاحبزادہ فیصل خورشید گیلانی کا ہوتا تھا جو ہوسٹل وارڈن بھی تھے، ان سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، میں انگریزی پڑھ سکتا تھا لیکن بولنے کی پریکٹس نہیں تھی، تب استاد محترم نے بہت زیادہ رہنمائی کی، پہلی مرتبہ انگریزی میں تقریر تیار کی، کلاس کے سامنے تھوڑا بہت نروس بھی ہوا، تقریر ٹھیک ہی رہی، آخر میں ایک دو لفظ اردو کے بول دئیے، میں نیا نیا گاؤں سے آیا تھا، اپنے ارد گرد پاکستانی طلباء کی کریم دیکھ کر ایک فخر سا محسوس ہوتا تھا کہ میں بھی انہی میں سے ایک ہوں، البتہ تھوڑا نروس بھی تھا.
اکنامکس ڈیپارٹمنٹ جسے پطرس بخاری کے نام پر بخاری آدیٹوریم بھی بولا جاتا، کے سامنے واقع لان میں ہم دوستوں کا گروپ فری پیریڈ میں جمع ہوتا تھا، گروپ میں سینیئر و جونیئر سبھی اقسام کے سٹوڈنٹ تھے، لاہور میں ایک طرح نووارد ہی تھا، بچپن میں خالاؤں و پھوپھیوں کے ہاں جانا ہوتا تھا اور لاہور کی رونقیں دیکھنے لائق ہوتی تھیں، اکثر سڑکوں کا معلوم نہ ہوتا تھا، کسی دوست سے ملنے جانا ہوتا تو راستے میں کئی افراد سے پوچھ پوچھ کر جاتا اور کئی مرتبہ راستہ بھول جاتا، ماہ نومبر کے ایک سہانے چمکتے دن اکنامکس ڈیپارٹمنٹ کے سر اشتیاق صاحب کا لیکچر سن کر باہر نکلے، اگلا پیریڈ فری تھا، دوستوں کو تلاش کرتا اوول گراؤنڈ جا پہنچا، ٹکڑی بنا کر مشترکہ ایک ناول پڑھ رہے تھے، ٹائٹل دیکھا، استاد محترم مستنصر حسین تارڑ کا ناول " نکلے تیری تلاش میں " ، اگلے پیریڈ کا وقت ہونے تک میں بھی انکے ساتھ رہا، کچھ دن بعد اقبال ہوسٹل میں ایک کلاس فیلو کے کمرے میں وہ ناول نظر آیا، اس سے پڑھنے کیلئے مستعار لیا، ناول ایک مرتبہ پڑھا پھر سب کچھ سائیڈ پر رکھ کر دو مرتبہ پڑھا، وہ تو ایک مختلف دنیا تھی جس کے بارے نہ کبھی سُنا اور نہ سوچا، اس وقت سوشل میڈیا جیسے ذرائع ابلاغ کی سہولت ناپید تھی، جو کچھ بھی تھا وہ فقط اخبارات، کتاب یا ٹی وی پر میسر تھا.
کالج میں اکثر بیرون ممالک سے یونیورسٹیوں کے وفود نظر آتے تھے، ان کو دیکھ دیکھ کر دل میں ٹھان لی کہ جو بھی ہو جیسے بھی ہو ایک مرتبہ بیرون ملک تعلیم کیلئے ضرور جانا ہے اور ناول میں لکھی گئی چیزوں بارے خود سے مشاہدہ کرنا ہے، معلوم ہوا کہ خرچہ بہت زیادہ ہے، حساب کتاب لگایا، ابا جی یہ افورڈ کر سکتے تھے لیکن ان سے بات کرنا یا بات منوانا جوئے شیر لانے مترادف تھا۔ تب بابر علی اور ریما کی فلم مس استنبول ریلیز ہوئی جو ہم کچھ دوستوں نے پرنس سینما مدھریانوالہ روڈ حافظ آباد پر آخری شو دیکھا، فلم میں دکھائے جانے والے مناظر میں ایک عجیب ہی کشش تھی، فلم دیکھ کر باہر نکلے بارش برس رہی تھی ، تب عوامی سواری تانگہ جو اس وقت میسر نہ تھا لہذا پیدل ہی ہو لئے، سارے راستے فلم کے گانے گاتے رہے، تب بابر علی سے متاثر ہو کر میں لمبے بال رکھ لئے تھے.
موسم گرما کی ایک رات میرے آبائی گھر کی بیٹھک میں سید زیشان شاہ کاظمی میرا بہت اچھا دوست اور میں، ایک نئی فلم " ہم دل دے چکے صنم " دیکھ رہے تھے، فلم کے ایک سین میں جب اجے دیو گن اور ایشوریہ رائے کو یورپ میں لٹیرے لوٹ لیتے ہیں، تب شانی شاہ بولا " غور سے دیکھ لو، یورپ میں ایسا بھی ہوتا ہے، نہ کوئی مددگار، نہ آگے اور نہ پیچھے "، میں کہا تھا " اللہ مالک ہے " ، خیر اسی ادھیڑ بُن میں دو سال گذرے، سال 1999 بی اے کا امتحان سر پر تھا، گھر والوں سے کچھ جھوٹ و سچ بولے، مگر وہ راضی نہ تھے، اکلوتے بیٹے کو جُدا نہیں کرنا چاہتے تھے، میں کھانا پینا چھوڑ دیا تب خود ہی راضی ہوگئے، جیسے تیسے معاملات حل کئے، اب اگلا مرحلہ پاسپورٹ بنوانے کا تھا جس کیلئے پولیس کریکٹر سرٹیفکیٹ ضروری تھا، ان دنوں حافظ آباد سے کوریج اخبار شائع ہوتا تھا جس کے سٹاف کے ساتھ میری بہت اچھی دوستی، ایڈیٹر یاسر عظیم چوہان نے گائیڈ کیا اورسمجھایا " کسی کو ایک پیسہ مت دینا، خود ہی پولیس تھانے جا کر جمع کرواؤ " ، ضروری کاغذات و بیان حلفی اکٹھے کرکے جمع کروا دیا، دو مرتبہ پتہ کرنے گیا ، معلوم ہوا کہ ابھی تحت کاروائی ہے، تین دن بعد گیا تو پولیس کلیرنس سرٹیفکیٹ بغیر کوئی پیسہ دیئے تیار تھا، سکون کا سانس لیا کہ اب منزل کی طرف پہلا عملی قدم اٹھا لیا ہے.
میرا پہلا شناختی کارڈ تحصیل حافظ آباد ضلع گوجرانوالہ کا اجراء تھا، ایک دوست سے ملنے فیصل آباد گیا تھا، وہاں اس کے مشورے پر مقامی فیصل آباد پاسپورٹ آفس گئے لیکن وہاں سے جواب ملا " لاہور جاؤ " ، چونکہ بسلسلہ تعلیم لاہور میں مقیم تھا، رکشہ میں بیٹھ کر پاسپورٹ آفس قلعہ واقع قلعہ گوجر سنگھ جا پہنچا، خلاف معمول موسم سرد لیکن خوشگوار دھوپ ، دروازے کے باہر ہی بہت سارے ٹاؤٹ حضرات موجود، باری باری سب نے پوچھا، " آؤ باؤ جی پاسپورٹ بنوانا ہے " ، " پاسپورٹ بنوا دیتے ہیں " ، پاسپورٹ ارجنٹ بن جائے گا "، ان سب کو سائیڈ پر کرکے فارم لیا، لمبی لائن تھی، وہیں سائیڈ پر بیٹھ کر پُر کیا اور جمع کروانے کیلئے لمبی لائن میں لگ گیا، دوسری طرف ایک لائن غیر ملکی دوشیزاؤں کی ، سب کی نظریں انہی پر گامزن ، گوری و بے داغ رنگت جو ہم برصغیر والوں کو کچھ زیادہ ہی متوجہ کرتی ہے، کھڑکی پر متعین بابو جب ایک امیدوار کا فارم جمع کرلیتا تو اسے آواز دیکر اگلے امیدوار کو اپنی جانب بلانا پڑتا تھا. " جناب آگے تشریف لے آؤ " ، " جناب تہاڈی واری آ گئی اے " ، " جناب فارم جمع کروا لو". میری باری آئی تو ارجنٹ فیس کے ساتھ فارم جمع کروایا، دو بجے کا وقت ملا، وہیں گھوم پھر کر انتظار کیا، ریڑھی والے سے چاول چنے کھائے، دو بجے پاسپورٹ لینے گیا تو کھڑکی والے بابو نے فرمایا " آپ دوسرے کمرے میں بڑے صاحب کے پاس تشریف لے جائیں "، وہاں گیا، کمرے میں تین عدد میز ، اپنا تعارف کروایا، ایک صاحب کو معاملہ گوش گذار کیا، اس نے معاملہ سن کر دوسری میز کی طرف بھیج دیا.
وہاں ایک مولوی ٹائپ لمبی داڑھی والے صاحب، ہاتھ میں موٹے منکے والی تسبیح تھامے براجمان تھے، معاملہ سن کر اس نے دراز کھولی ، کچھ فارم نکالے، پھر غور سے ایک فارم پر دیکھ کر بآواز بلند میرا نام پڑھا اور بولا " اپنا پہلا پاسپورٹ لاؤ "، میں عرض کیا ، " پہلی مرتبہ پاسپورٹ اپلائی کیا ہے " ، اس نے میری بات رد کر دی " برخوردار اپنا پہلا پاسپورٹ لاؤ "، عرض کیا " میں گورنمنٹ کالج لاہور کا سٹوڈنٹ ہوں ، آج تک پاکستان سے باہر نہیں گیا، پہلی مرتبہ پاسپورٹ کیلئے اپلائی کیا ہے " ، اس میری بات سن کر فائل بند کردی ، میں دوبارہ سے وہی عرضداشت پیش کی " میرا کوئی پولیس ریکارڈ نہ ہے ، ہمیشہ سے سکول و کالج کا ٹاپ سٹوڈنٹ ہوں " ، کہنے لگا " اپنا شناختی کارڈ دکھاؤ " ، دیکھ کر بولا " یہ شناختی کارڈ دوسرے ضلع کا بنا ہے " ، عرض کیا " آئین پاکستان کی رُو سے اگر آپ کسی ضلع میں چھ ماہ سے زیادہ قیام پذیر ہیں تو آپ اسی ضلع سے اپنا شناختی کارڈ و پاسپورٹ اجراء کروا سکتے ہیں اور اگر کوئی قانونی معاملہ ہو تو اسی ضلع کی کسی بھی آئینی عدالت سے رجوع کر سکتے ہیں " ،
وہ ہنس کر بولا " یہ قانون کتابوں میں لکھا ہے، اگر کوئی ریلیف چاہیئے تو عدالت چلے جاؤ " ، عرض کیا " میرے امتحانات سر پر ہیں، کل پہلا پیپر ہے ، گوجرانوالہ جانے اور آنے میں وقت کا ضیاع ہوگا " نرم ہو کر پوچھتا " پاسپورٹ پر پروفیشن کیا لکھا ہے؟ " عرض کیا " طالب علم ہوں اور کالج کا اصل سرٹیفکیٹ بھی ہمراہ لف کر دیا ہے "، اب اس نے میرا فارم غور سے دیکھا " بی اے ، رول نمبر 220 " ، اتنا پڑھ کر پوچھتا " چائے پیئو گے؟ " ، " عرض کیا " تکلف کی ضرورت نہیں ، آپ فارم کلیئر کردیں یہی نوازش ہوگی " ، کرسی پر سیدھا ہو کر بولا " آپ پاسپورٹ کیوں بنوانا چاہتے ہیں " ، عرض کیا " پاسپورٹ بنوانا ہر شہری کا حق ہے جو گورنمنٹ فیس ادا کرکے مل جاتا ہے " ، مجھے غور سے دیکھ کر بولا" آپ جینوئن سٹوڈنٹ لگتے ہو " ، جواب دیا " میں جینوئن سٹوڈنٹ ہی ہوں ، ہمیشہ ٹاپ کیا ہے، اخبارات میں نام چھپتا رہا ہے، اخبارات کے تراشے میرے پاس موجود ہیں " ، اور ساتھ ہی گوجرانوالہ بورڈ آف انٹرمیڈیٹ کا رزلٹ کارڈ اور جنگ اخبار میں شائع ہونے والا رزلٹ دکھایا جس میں میرا آٹھواں نمبر تھا، کچھ لمحات خاموشی طاری رہی پھر بولا " ٹھیک ہے مان لیتا ہوں کہ آپ جینوئن سٹوڈنٹ ہو لیکن آپ کا پہلا پاسپورٹ کہاں ہے " ، اب میں زچ ہو چکا تھا ، کہنا پڑا " اب کیا بیان حلفی جمع کرواؤں " .
وہ بولا " بیان حلفی وغیرہ سے کچھ نہیں ہوگا آپ کو پہلا پاسپورٹ دکھانا ہی پڑے گا " ، پوچھا " تو اس مسئلے کا کیا حل ہے؟ "وہ بولا " آپ سٹوڈنٹ بندے ہو اور سٹوڈنٹ بھی جینوئن ہو، گورنمنٹ کالج لاہور میں داخلہ لینا ہی بہت مشکل ہے، پاکستان کا سب سے ہائی میرٹ ہوتا ہے، اس کالج میں قدم رکھنا میری اور میرے بچوں کی حسرت ہی رہ گئی، کالج بھی مہنگا ہے، آپ کیلئے سپیشل ڈسکاؤنٹ " ، یہاں پہنچ کر وہ خاموش ہو گیا اور میں بھی خاموش ہو گیا " پھر بولا " دس ہزار زیادہ لوں گا " ، پوچھا " کس بات کا؟ ، پیدائشی ضلع گوجرانوالہ سے ہوں، برما کا بارڈر پار کرکے نہیں آیا ہوں " ، بولا " آپ کا شناختی کارڈ دوسرے ضلع سے ہے ، آپ نے پہلے بھی پاسپورٹ بنوایا ہے " ، وغیرہ وغیرہ.
اب میں تنگ ہو کر اٹھا اور دروازے سے باہر نکل گیا، ایک دکان سے لنگوٹیئے یارِغار مرزا اجمل جرال ( اب سینیئر ایڈووکیٹ ) کے والد کے رائس ڈیلر آفس فون گھمایا ، اتفاق سے وہ موجود تھا، معاملہ گوش گذار کیا، اگلے دن امتحانات کی وجہ سے گوجرانوالہ جانے اور آنے کیلئے وقت کی دقت تھی، بیرون ملک یونیورسٹی اپلائی کرنا، ویزہ کے معاملات ان سب کیلئے وقت درکار تھا، پاسپورٹ تاخیر سے ملتا تو پورا سال ضائع ہونے کا اندیشہ تھا، طے پایا کہ کچھ دے دلا کر پاسپورٹ بنواؤ".
واپس اسی مولوی کے پاس گیا، مجھے اندر داخل ہوتا دیکھ کر وہ احترام سے کھڑا ہو گیا " جی جناب ہمارے راوین صاحب " ، میں بھی چہرے پر زبردستی مسکراہٹ سجا کر کرسی پر بیٹھ گیا ، معاملہ دس ہزار کی بجائے پانچ ہزار میں طے ہوا، تب اس نے یک بیک دایاں ہاتھ ہوا میں بلند کیا اور مجھے بھی ہاتھ اٹھا کر حلف دینے کو کہا، " میں اپنی مرضی سے پانچ ہزار دے رہا ہوں، مجھ پر کوئی دباؤ نہیں ہے اور نہ مجھ سے کسی نے زور زبردستی کی ہے اور نہ مجھ سے کسی نے مانگے ہیں ، کسی کو نہیں بتاؤں گا اور نہ کسی عدالت میں رِٹ دائر کروں گا " وغیرہ وغیرہ ، میں پوچھا " آپ کیا سوچ کر یہ حلف لے رہے ہیں؟ " ، بولا " دیکھیں جی ہم سب مسلمان ہیں، حق حلال کی روٹی کھاتے ہیں، آپ ہمارے بچوں جیسے ہو، اگر کل کو آپ بیوروکریٹ بن گئے تو ہمارا جینا حرام کر دو گے لیکن امید ہے کہ حلف کی رُوگردانی نہیں کرو گے "، میں مسکرایا تو وہ بولا " دیکھیں مائی ڈیئر راوین ایک دن سب کو مرنا ہے میں کوئی گناہ اپنے ساتھ لیکر نہیں جانا چاہتا، آپ کا پاسپورٹ ارجنٹ بنوا دیتا ہوں، ایک گھنٹے بعد آپ کھڑکی سے وصول کر لینا ".
امتحانات سے فراغت کے بعد یاسر عظیم چوہان کے کوریج اخبار والے آفس بواقع ڈاکخانہ روڈ میں دوستوں کے ہمراہ بیٹھا تھا کہ ویزہ سٹامپ ہونے کی کال آئی، عجیب سی پریشانی و خوشی تھی، خوشی اس بات کی کہ اب ان دیکھے خواب پورے ہونے کا وقت آ گیا ہے اور پریشانی یہ کہ ساری زندگی ضلع گوجرانوالہ، لاہور و مری کے علاوہ کچھ دیکھا نہ تھا، آگے ایک ان دیکھی دنیا، نامعلوم کہ آگے کیا ہوگا، اچھا ہوگا یا بُرا، شام کو میں اور قیصر منیر کھوکھر، مرزا اجمل جرال سے ملنے گئے، حویلی میں بیٹھے، مستقبل کے تانے بانے بُنے ، تب ہماری میٹنگ مرزا اجمل کی حویلی یا میرے آبائی گھر کی بیٹھک ہوتی تھی، اجمل کی والدہ کے ہاتھ سے بنے دہی بھلے کھائے، اجمل نے والدہ کو بتایا " یہ پڑھنے کیلئے باہر جا رہا ہے، اس کیلئے دعا کر دیں " ، والدہ محترمہ خوشی اور متفکری کے ملے جُلے جذبات سے میرا چہرہ تھام کر پیار کیا اور بولی " والدین کے اکلوتے ہو، یہیں کوئی کاروبار کر لیو، غلہ منڈی میں اپنے ننھیال کے ساتھ آڑھت شروع کرلو، میرا جمیل جرمنی گیا تھا، پورے سترہ سال بعد واپس آیا ، دیکھنے کو آنکھیں ترس جاتی تھیں، فون پر ہی بات ہوتی تھی " ، عرض کیا " میں فقط ایک سال کیلئے جا رہا ہوں، واپس لوٹ آؤں گا " ، مزید متفکر ہو کر بولی " پتر میرا تجربہ ہے جو پرندہ ایک مرتبہ گھونسلے سے اُڑا وہ واپس نہیں آتا، بس پُتر اللہ تجھ کو اپنی حفظ و امان میں رکھے، اس ماں کی دعا تیرے ساتھ ہے "، سال 2006 میں جب اجمل جرال ایڈووکیٹ کے والدین حج اکبر کی سعادت حاصل کرنے سعودی عرب تشریف لائے، تب مجھے ان کے ہمراہ حج کرنے اور ان کی خدمت کا شرف بھی حاصل ہوا۔
تبصرہ لکھیے