ہوم << خدا را بچوں پر ترس کھائیے - طارق زمان

خدا را بچوں پر ترس کھائیے - طارق زمان

تقریباً تیس پینتیس برس قبل معاشرے کے مختلف طبقات سے تعلق رکھنے والے بیشتر بچوں کو حصول تعلیم کے لیے سرکاری ادارے ہی میسر تھے۔ پلے گروپ ، نرسری اور پریپ کلاسز نہیں تھیں بلکہ ادنٰی جماعت میں بچے کو داخل کیا جاتا۔ داخلے کے لیے عمر کی حد کم از کم 5 سال مقرر تھی اور 16 سال کی عمر میں طالب علم میٹرک پاس کر لیتا۔ دو دہائیاں گزرنے کے بعد نظام میں جدت آئی اور ابتدائی کلاس نرسری کا اضافہ ہو گیا۔ 5 سال کے بجائے 4 سال کی عمر میں بچے کو اسکول داخل کروانا عام ہوا۔ اس کے بعد پلے گروپ کے نام سے مزید ایک کلاس کا اضافہ کر دیا گیا۔

اب بچے کے ہوش سنبھالنے اور نشوونما کے ابتدائی مراحل میں ہی اس کو اسکول بھیجنا ضروری سمجھا جانے لگا ہے۔ شرارتیں کرنے اور صرف کھیلنے کودنے کے لیے مخصوص عمر میں ایک ذمہ داری سونپ کر سویرے سویرے گھر سے الوداع کر دیا جاتا ہے۔ حالانکہ زندگی کے اس حصے میں بچے ہر طرح کی آزادی اور والدین کی بے پناہ محبت و شفقت کے حق دار ہوتے ہیں۔ آدھے سے زیادہ دن اسکول میں، گھر واپس آتے ہی قاعدہ سپارہ اٹھایا اور مسجد کی راہ لی، پھر شام کو ٹیوشن یا ہوم ورک بھی تقریباً لازم ہو چکا ہے۔

ابتدائی جماعتوں کا نصاب ایسا ہے کہ بچوں سے زیادہ اساتذہ اور والدین کو رہنمائی کی ضرورت پیش آتی ہے۔ ملاوٹ شدہ خوراک پر نشوونما پانے والے ان معصوموں کے ناتواں کندھوں پر بھاری بھرکم بستوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جاتا ہے۔ ابتدائی کلاسوں میں پڑھائے جانے والے نصاب اور بچوں کے اذہان میں ہم آہنگی کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اوپر سے عملی و مشاہداتی طریقہ تدریس کے بجائے رٹا سسٹم نے طلبہ کی صلاحیتیں ضائع کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

ہمارے ہاں رائج تعلیمی نظام میں زائد نمبروں کے ساتھ پوزیشن لینے اور ڈگری حاصل کر لینے کو کامیابی تصور کیا جاتا ہے۔ اس کامیابی سے ہمکنار ہونے کے لیے آغاز ہی سے بچوں پر ان کی برداشت سے زیادہ بوجھ ڈال دیا جاتا ہے جس کے نتیجے میں ذہنی امراض و نفسیاتی مسائل سے دوچار ہونے کا خدشہ پیدا ہوتا ہے۔ جدید دور کے تقاضوں کے مطابق تعلیم حاصل کرنا از حد ضروری ہے لیکن اس کی خاطر بچوں کی صحت اور نشوونما پر سمجھوتا نہیں کرنا چاہیے۔ ذہنی و جسمانی طور پر تندرست بچے ہی مستقبل کے کارآمد شہری ثابت ہو سکتے ہیں۔

بچوں کو اسکول داخل کروانے کے لیے کم از کم عمر کی حد پانچ سال پر عمل کرکے چھوٹے بچوں کو نشوونما اور آزادانہ کھیل کود کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ اگر سرکاری و نجی پرائمری اسکولوں میں ناظرہ ، نماز اور دینی تعلیم دینے کا معقول بندوبست کیا جائے تو شام کو مسجد یا قاری صاحب کی کلاس لینے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔ اسکول میں اگر پوری توجہ کے ساتھ عملی و مشاہداتی طریقوں سے پڑھایا اور جائزہ لینے کو فروغ دیا جائے تو شاید ٹیوشن کے جھنجھٹ سے بھی چھٹکارا مل جائے۔ عملی مشقوں کے ذریعے بچوں کو سیکھانے کی کوشش کی جائے تو ہوم ورک کے بجائے بچے کو گھر والوں کے ساتھ بیٹھنے کا موقع دیا جا سکتا ہے۔ اگر چھٹی کے دن کے لیے والدین کو واٹس ایپ گروپ یا ڈائری کے ذریعے پیغام بھیجا جائے کہ بچے کو تفریحی مقام پر یا کسی ایسے عزیر رشتہ دار کے گھر لے جائیں جہاں دیگر بچوں کے ساتھ کھیلنے کا موقع مل سکے تو بہت اچھا ہوگا۔ نصاب سے غیر ضروری مضامین اور اسباق کو حذف کرکے کاپیوں کی تعداد بھی ممکن حد تک کم کر دی جائے تو بستوں کا بوجھ بھی برداشت کی حد تک لایا جا سکتا ہے۔

پورے ملک میں ایک تعلیمی نصاب رائج کر دیا جائے تو یہ عمل طبقاتی نظام کی جڑ کاٹنے کے مترادف ہوگا۔ نمبرز اور پوزیشن لینے کی دوڑ اور ہر قیمت پر ڈگری کے حصول کو ہی کامیابی قرار دینے کی جگہ تخلیقی اور تحقیقی صلاحیتوں کو پروان چڑھانے والے اقدامات کی حوصلہ افزائی کی جائے تو فرق صاف ظاہر ہو گا۔ تعلیمی پالیسیاں تشکیل دیتے وقت بچوں کو درپیش مسائل مد نظر رکھے جائیں۔ ایسے تعلیمی نظام کو رائج کیا جائے جو بچوں اور والدین کے لیے بوجھ ثابت نہ ہو۔ حصول تعلیم کو آسان اور سستا بنایا جائے تاکہ ہر طبقے سے تعلق رکھنے والا کوئی بھی بچہ اس حق سے محروم نہ رہے۔ خدا را بچوں پر برداشت سے زیادہ بوجھ نہ ڈالیں، انھیں بچپن کی خوشیوں سے لطف اندوز ہونے کے مواقع فراہم کریں۔ خدا را بچوں پر ترس کھائیے ۔ تعلیم کے نام پر ان سے بچپن کی خوشیاں مت چھینیں۔

Comments

Click here to post a comment