اس بات میں کوئی شک نہیں کہ وجودزن سے ہے کائنات میں رنگ۔فرمان مصطفیﷺ ہے کہ ’’دنیا ساری کی ساری سامان ہے اور دنیا کا بہترین سامان نیک بیوی ہے‘‘۔آج ہماری فرسودہ سوچ اور عورت کا بلند مقام :آج جو شخص اپنی بیوی کے لیے گاڑی کا دروازہ کھولے ،وہ بے غیرت سمجھا جاتا ہے ۔
جو اپنی بیوی کے لیے کرسی رکھے ،وہ کمزور شخصیت کا مالک کہلاتا ہے۔جو بیوی کی سہولت کے خاطر بچے سنبھال لے ،وہ بیوی کا غلام سمجھا جاتا ہے۔جب کہ رسول کریمﷺ کا طرز عمل :رسول کریم ﷺ اپنی اہلیہ محترمہ ام المومنین حضرت صفیہ ؓ کے لیے اونٹ کے قریب بیٹھ گئے اور گھٹنہ مبارک کھڑا فرمادیا ،ام المومنین نے اپنا قدم مبارک زینے (رسول اللہ ؐ کے گھٹنے مبارک)پر رکھا اور بآسانی سوار ہو گئیں ۔(صحیح بخاری 4211غزوہ خیبر)
حقوق نسواں پر بحث و تمحیص صدیوں سے جاری ہے ۔غیر مسلم دنیا میں عورتوں کے متعلق دو نظریے ملتے ہیں ،اور دونوں ہی افراط وتفریط کا شکار ہیں ۔
پہلا نظریہ کہ عورت اوصاف حمیدہ کا ایک حسین مرقع ،فرشتہ ،پیکر حیاء ،ایثار ووفا کی مورت ،عقیدت کا مجموعہ ،سراپا شفقت اور زندگی کے تمام تر مسائل کا حل ہے لیکن اس نظریے کا وجود درحقیقت شاعرانہ تخیل تک ہی محدود ہے۔دوسرانظریہ اس کے برعکس ہے کہ عورت ایک ناپاک وجود سے عبارت ہے اور دنیا میں پائی جانے والی تمام برائیوں اور مصیبتوں کا اصل سبب اور بنیاد عورت کا وجود ہے چنانچہ اس ضمن میں ایک یورپین مفکر کا قول ہے کہ :’’میں مرد کو اس وجہ سے پسند نہیں کرتا کہ وہ مرد ہے بلکہ اس لیے پسند کرتا ہوں کہ عورت نہیں ہے۔‘‘
اسی طرح مشہور یونانی فلاسفر سقراط کے خیال میں :
’’عورت سے زیادہ فتنہ وفسادکی کوئی اور چیز نہیں ۔‘‘
ایک اور شہرت یافتہ یونانی فلاسفر افلاطون کے بقول :’’سانپ کے ڈسنے کا تو دنیا میں علاج موجود ہے ،لیکن عورت کے شرکا کوئی علاج ممکن نہیں ،اس لیے اگر ممکن ہو تو اس مجسمہ شر کو ذلت کے آخری غار میں پھینک دو۔‘‘یونان کے ان قدیم فلاسفروں کے افکار اور نظریات کا نتیجہ یہ نکلا کہ وہاں عورت کو باعث ذلت گردانا گیا اور یونانی لوگ عورتوں کو بھیڑ بکریوں کی طرح بیچنے اور اسے ذاتی ملکیت کی طرح استعمال کرنے لگے۔یہی نہیں بلکہ روم ،مصر ،عراق ،چین ،عرب ،ہندوستان ،ایران تمام ممالک کے اندر صنف نازک کے ساتھ ہر طرح کا ظلم روارکھا گیا ،بازاروں اور میلوں میںاس کی خرید وفروخت کی جاتی رہی ،ان سے حیوانوں سے بدتر سلوک کیا جاتا رہا ،یونان میں تو ایک عرصے تک یہ بحث کی جاتی رہی کہ آیا عورت کے اندر روح موجود بھی ہے یا نہیں ۔
اہل عرب اس کے وجود کو ہی موجب عار سمجھتے تھے،بعض شقی القلب اپنی لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے ،ہندوستان کے بعض علاقوں میں آج بھی یہ حال ہے کہ شوہر کی میت کے ساتھ عورتوں کو زندہ جلادیا جاتا ہے ،راہبانہ مذاہب اسے معصیت کا سرچشمہ ،گناہ کادروازہ سمجھتے تھے اور اس کے ساتھ تعلق رکھنے کو روحانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کیا جاتا تھا ،الغرض یہ کہ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں اس عورت کی کوئی سماجی حیثیت نہیں تھی ،وہ حقیر اور ذلیل سمجھی جاتی تھی ،اس کے معاشی اور سیاسی کوئی حقوق نہیں تھے ،وہ اپنی مرضی سے کسی قسم کا کوئی تصرف نہیں کرسکتی تھی.
وہ ابتداء میں باپ کی پھرشوہر کی اور اس کے بعد اپنی اولاد کے تابع ومحکوم تھی ،ان کے اقتدار کو چیلنج کرنے کی اسے اجازت نہیں تھی ،اس پر ہونے والے ظلم وستم کی داد رسی کرنے والا کوئی نہیں تھا اور نہ ہی اسے یہ حق اور آزادی حاصل تھی کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر داد رسی کی طلبگار بنے ۔یہ تو قدیم تہذیبوں کا حال تھا جن میں عورت کو نہ تو کوئی مقام حاصل تھا اور نہ ہی اس کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ اپنے اوپر ہونے والے مظالم پر صدائے احتجاج بلند کرسکے اسلام سے قبل خواتین خصوصاً بیویوںکی حالت سب سے زیادہ ناگفتہ بہ تھی۔ابتدائی رومی قانون میں بھی عورت کو مرد سے کمتر قرار دیا گیا تھا ۔ابتدائی عیسائی روایت بھی اسی طرح کے افکار کی حامل تھی ۔
سینٹ جیروم نے کہا :’’عورت شیطان کا دروازہ ہے ،گناہ کا راستہ ہے ،سانپ کا ڈنک ہے ،بہ الفاظ مختصر عورت ایک خطرناک شے ہے۔‘‘آج سے چودہ سو برس پہلے عہد جاہلیت میں اسلام کی انقلابی تعلیمات نے عورت کو اس کے حقیقی حقوق اور مرتبہ عزت عطا کیا ،اسلام کا مقصد ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ خواتین کے حوالے سے معاشرے کی سوچ ،خیالات ،احساسات اور طرز زندگی میں بہتری لائی جائے ،معاشرے میں عورت کا مقام بلند سے بلند تر کیا جائے ۔اسلام مرد اور عورتوں کو مساوی حقوق دیتاہے ۔اسلام نے عورت بالخصوص بیوی کو وہ تمام حقوق عطا کیے ہیں جو اس کا بنیادی حق ہیں ۔
تبصرہ لکھیے