ہوم << مقبول بٹ شہید: ایک عہد، ایک تحریک - علی حسنین نقوی

مقبول بٹ شہید: ایک عہد، ایک تحریک - علی حسنین نقوی

تاریخ انسانی قربانیوں کے خدوخال سے تشکیل پاتی ہے،تاریخ وہ آئینہ ہے جس میں قربانیوں کے نقوش ہمیشہ کے لیے ثبت ہو جاتے ہیں۔

انقلاب اور جدوجہد کے راستے ہمیشہ لہو مانگتے ہیں، مگر کچھ لہو ایسا ہوتا ہے جو تاریخ کے صفحات میں انمٹ نقوش چھوڑ جاتا ہے، کچھ لہو بغاوت کا استعارہ بن کر نسل در نسل تحریکوں کو جِلا بخشتا ہے، کچھ لہو مٹی میں جذب ہو کر زمین کے سینے میں ارتعاش پیدا کرتا ہے، کچھ لہو سورج کی کرن بن کر ظلمتوں کو چیر دیتا ہے، اور کچھ لہو ایسا بھی ہوتا ہے جو کسی قوم کی تاریخ میں ابدی چراغ بن کر جلتا رہتا ہے— مقبول بٹ کا لہو بھی ایسا ہی ایک چراغ ہے، جس کی روشنی کبھی مدھم نہیں ہوئی۔
مقبول بٹ ایک ایسا استعارہ جس نے جبر کے اندھیروں میں مزاحمت کا دیا روشن کیا، ایک ایسا نظریہ جو تختہ دار پر جھول کر بھی کبھی شکست خوردہ نہ ہوا، بلکہ ہر گزرنے والے لمحے کے ساتھ پہلے سے زیادہ گونجنے لگا۔

یہ کہانی محض ایک انسان کی نہیں، بلکہ ایک عہد کی ہے،وہ عہد جس میں آزادی کی آرزو رکھنے والوں کو بغاوت کی سزا دی جاتی تھی، وہ عہد جس میں محکوموں کی جدوجہد کو جرم سمجھا جاتا تھا، وہ عہد جس میں غلامی کے خلاف اٹھنے والی ہر آواز کو خاموش کر دینے کی کوشش کی جاتی تھی۔یہ صرف ایک فرد کی داستانِ حیات نہیں، بلکہ ایک تحریک کی تاریخ ہے، وہ داستان جس کا آغاز استحصال سے ہوتا ہے، جو مزاحمت کی راہوں سے گزرتی ہے، اور جس کا انجام ایک تختہ دار پر ہوتا ہے—مگر ایسی سزائیں انقلاب کے سفر کو ختم نہیں کرتیں، بلکہ اسے اور زیادہ جِلا بخشتی ہیں۔

یہ 18 فروری 1938 کا دن تھا جب مقبول بٹ کپواڑہ کے ایک غریب کسان کے گھر پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش محض مٹی سے بندھے ایک عام انسان کی پیدائش نہیں تھی، بلکہ وہ ایک ایسی چنگاری تھے جو آنے والے وقت میں شعلہ بن کر بھڑکنے والی تھی۔ بعض شخصیات پر فطرت خود اپنی مہر ثبت کرتی ہے۔ مقبول بٹ انہی میں سے ایک تھے۔ بچپن میں ہی انہوں نے اپنے گرد ظلم، ناانصافی، اور طبقاتی تفریق کو محسوس کیا۔ وہ جان چکے تھے کہ یہ دنیا طاقتوروں کے لیے ایک جنت اور کمزوروں کے لیے ایک قیدخانہ ہے۔ سکول کے دور میں جب اساتذہ نے امیر طلبہ کو زیادہ اہمیت دی اور غریبوں کو پسِ پشت ڈالا، تو مقبول بٹ نے احتجاجاً انعام لینے سے انکار کر دیا۔ یہ وہ پہلا لمحہ تھا جب انہوں نے مصلحت کے بجائے مزاحمت کا راستہ چنا۔

سیاسی شعور کی بات کریں تو ان کے نظریات کی پرورش اس وقت ہوئی جب وہ پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں کے سیاسی و سماجی حالات کا مشاہدہ کیا۔ 1965 میں جب حالات کشیدہ ہو رہے تھے، تو انہوں نے نیشنل لبریشن فرنٹ (NLF) کی بنیاد رکھی، جس کا مقصد واضح تھا: کشمیر کو ہر طرح کے استعماری شکنجے سے نکالنا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب مقبول بٹ نے قلم سے تلوار کی طرف قدم بڑھایا، کیونکہ وہ جان چکے تھے کہ الفاظ کی طاقت محدود ہے اور ظالم کانوں سے بہرا ہے۔مقبول بٹ یہ جان چکے تھے کہ اب وقت صرف باتوں کا نہیں، بلکہ عمل کا ہے۔

آزادی کبھی خیرات میں نہیں ملتی، بلکہ اسے چھیننا پڑتا ہے۔ صرف تقریریں، نعرے اور قراردادیں غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ سکتیں، اس کے لیے میدانِ عمل میں اترنا پڑتا ہے، اس کے لیے قربانی دینی پڑتی ہے، اس کے لیے اپنے خون کو سیاہی بنانا پڑتا ہے۔ انہوں نے اسی فلسفے کے تحت وہ راستہ چنا جس کا انجام پہلے سے واضح تھا—یہ راستہ تہاڑ جیل کی کال کوٹھریوں سے گزرتا تھا، یہ راستہ تختہ دار کی بلندیوں تک پہنچتا تھا، مگر وہ اس انجام سے خوفزدہ نہیں تھے، کیونکہ وہ جانتے تھے کہ ہر انقلاب کا ایندھن قربانیاں ہی ہوتی ہیں۔

11 فروری 1984 کا وہ دن جب مقبول بٹ کو تہاڑ جیل میں تختہ دار پر لٹکایا گیا، تاریخ میں ہمیشہ کے لیے امر ہو گیا۔ بھارت نے سمجھا تھا کہ ایک شخص کو مار کر ایک نظریے کو ختم کیا جا سکتا ہے، مگر وہ یہ بھول گئے کہ نظریے جسموں کے محتاج نہیں ہوتے۔ نظریے قبروں میں دفن نہیں ہوتے، بلکہ ان کی جڑیں زمین کے اندر مزید پھیلتی جاتی ہیں، اور ایک دن وہ پورے نظام کو جڑ سے اکھاڑنے کے لیے کافی ہو جاتی ہیں۔

مگر یہ سوال آج بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ مقبول بٹ کا خواب کیوں نامکمل رہا؟ کیوں آج بھی کشمیر کی زمین محکوم ہے؟ کیوں اقوامِ متحدہ کی قراردادیں محض کتابی الفاظ بن کر رہ گئی ہیں؟ کیوں عالمی طاقتوں کے ضمیر پر اس غلامی کا کوئی بوجھ نہیں؟ اس سوال کا جواب شاید ہمیں خود اپنے اندر تلاش کرنا ہوگا۔ پاکستان ہمیشہ کشمیر کو ایک سیاسی نعرے کی طرح استعمال کرتا رہا، مگر جب عملی اقدامات کی باری آئی تو ہم نے صرف مذمتی بیانات پر اکتفا کر لیا۔ 1965 کی جنگ کے بعد تاشقند معاہدہ کشمیری عوام کے لیے ایک اور مایوسی ثابت ہوا۔ 1971 میں پاکستان دو لخت ہوا تو مسئلہ کشمیر مزید کمزور پڑ گیا، اور 5 اگست 2019 کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی، تب بھی ہمارا ردعمل محض الفاظ تک محدود رہا۔

اور اگر کوئی سب سے زیادہ مایوس کن پہلو ہے تو وہ آزاد کشمیر کی صورتحال ہے۔ مقبول بٹ کے خواب میں آزادکشمیر تحریکِ آزادی کا عملی اور نظریاتی مرکز بن سکتا تھا، وہ محض ایک مراعات یافتہ اشرافیہ کی چراگاہ بن چکا ہے۔ یہاں کے سیاستدانوں کے لیے کشمیر ایک تحریک نہیں، بلکہ ایک سیاسی کارڈ ہے، جسے وہ صرف انتخابی مہم کے دوران استعمال کرتے ہیں۔ مقبول بٹ ہمیشہ کہتے تھے کہ "آزاد کشمیر کو ایک عملی انقلابی مرکز ہونا چاہیے، جہاں سے حقیقی قیادت ابھرے، جہاں نوجوانوں کی فکری تربیت ہو، جہاں سیاسی، سفارتی، اور مزاحمتی حکمت عملی ترتیب دی جائے، مگر افسوس کہ آج یہ خطہ ایک نیم خودمختار سیاسی تماشہ بن چکا ہے۔"

یہاں کے بیشتر سیاستدان، جو خود کو کشمیریوں کا نمائندہ کہتے نہیں تھکتے، اصل میں مراعات یافتہ طبقے کے محافظ بن چکے ہیں۔ یہاں کی حکومت، جو کسی وقت تحریکِ آزادی کے لیے ایک سفارتی ہتھیار بن سکتی تھی، آج بیانات اور قراردادوں سے آگے نہیں بڑھتی۔ 5 اگست 2019 کو جب بھارت نے کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کی، تو دنیا توقع کر رہی تھی کہ آزاد کشمیر کی حکومت ایک مضبوط ردعمل دے گی، کہ یہاں ایک بڑی تحریک اٹھے گی، کہ دنیا میں سفارتی مہمات چلائی جائیں گی، مگر یہ سب توقعات محض خام خیالی ثابت ہوئیں۔

یہ سب سے بڑا المیہ ہے کہ آزاد کشمیر میں آج تک کوئی ایسا تھنک ٹینک قائم نہیں ہو سکا جو دنیا کو کشمیر کے مسئلے پر ایک مؤثر بیانیہ دے سکے۔ کوئی ایسا تحقیقی ادارہ موجود نہیں جو عالمی طاقتوں کو یہ باور کرا سکے کہ کشمیری اپنی جدوجہد میں حق بجانب ہیں۔ مقبول بٹ ہمیشہ کہتے تھے کہ "اگر آزاد کشمیر واقعی آزاد ہے، تو اسے اپنی ذمہ داری نبھانی چاہیے۔" مگر آج یہ خطہ محض ایک سیاسی کھیل کا میدان بن چکا ہے، جہاں عوام کو سبز باغ دکھائے جاتے ہیں، مگر آزادی کی تحریک کے لیے عملی اقدامات کا کہیں کوئی سراغ نہیں ملتا۔ یہاں کا تعلیمی نظام بھی ایسے نصاب سے محروم ہے جو نوجوانوں میں انقلابی شعور بیدار کر سکے۔ طلبہ کی اکثریت آزادی کی نظریاتی بنیادوں سے بھی نابلد ہے کیونکہ تعلیمی ادارے محض سرکاری نوکریوں کے کارخانوں میں تبدیل ہو چکے ہیں۔

آزاد کشمیر کی سول سوسائٹی بھی زوال پذیر ہو چکی ہے۔ یہاں کے دانشور وہی بولتے ہیں جو انہیں بولنے کا اشارہ دیا جاتا ہے۔ یہاں کی صحافت بھی مصلحتوں کا شکار ہو چکی ہے، جہاں آزادی کی حقیقی آواز کو ابھارنے کے بجائے مفادات کے کھیل کھیلے جاتے ہیں۔ الغرض، آزاد کشمیر آج ایک ایسا خطہ بن چکا ہے جہاں آزادی کی جدوجہد محض ایک روایتی نعرہ بن گئی ہے، اور عملی اقدام کا کوئی نام و نشان نہیں لیکن اب بھی وقت ہے کہ ہم فیصلہ کریں کہ ہم مقبول بٹ کے خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے عملی اقدام اٹھائیں گے یا محض تقریریں کرتے رہیں گے۔ تاریخ کے اس موڑ پر ہمیں ایک واضح راستہ چننا ہوگا—یا ہم آزادی کے لیے ایک فیصلہ کن قدم اٹھائیں گے، یا پھر ہمیشہ کے لیے تاریخ کے مردہ صفحات میں دفن ہو جائیں گے۔ مقبول بٹ کا خون آج بھی ہم سے سوال کر رہا ہے—کیا ہم اس خواب کو حقیقت میں بدلنے کے لیے تیار ہیں؟ یا ہم بھی صرف تماشائی بن کر رہ جائیں گے؟

یہ وقت فیصلہ کرنے کا ہے، اور اس فیصلے کا بوجھ ہماری آنے والی نسلوں کی تقدیر کا تعین کرے گا۔ اگر آزاد کشمیر واقعی آزاد ہے، تو اسے اپنے عملی وجود کا ثبوت دینا ہوگا، ورنہ تاریخ میں اس خطے کا ذکر ایک ناکام تجربے کے طور پر کیا جائے گا۔ مقبول بٹ نے جو چراغ جلایا تھا، کیا ہم اس کی روشنی میں اپنا راستہ تلاش کریں گے؟ یا ہم بھی اپنے ضمیر کا سودا کر کے غلامی کے اندھیروں میں کھو جائیں گے؟

یہ فیصلہ ہمیں آج کرنا ہوگا—ورنہ کل شاید ہمارے پاس کچھ بھی فیصلہ کرنے کے لیے باقی نہ بچے۔

Comments

Click here to post a comment