عام طور پر شمالی ہند کے مسلمان جب کسی مسجد کے تصور کو ذہن میں لاتے ہیں تو ان کے سامنے گنبد اور میناروں سے مزین ایک روایتی خاکہ آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ برصغیر میں مساجد کی شناخت کے لیے گنبد کو ایک بنیادی علامت سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہندوستان کا آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا بھی اسی بنیاد پر کسی عمارت کو مسجد یا مندر کے طور پر شناخت کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ لیکن یہ مفروضہ تاریخی و تہذیبی لحاظ سے ناقص اور یک طرفہ ہے۔ جنوبی ہند کے وہ مساجد جو سینکڑوں سال پرانی ہیں، گنبد سے محروم ہونے کے باوجود بھی اپنے وجود اور تاریخ میں خالصتاً اسلامی ہیں۔
یہی حقیقت سمجھنے کے لیے میں آج کیرلا کالی کٹ (Calicut) میں واقع مثقال مسجد دیکھنے گیا۔ کالی کٹ (Kozhikode) جو کبھی ہندوستان میں عرب تاجروں کا ایک اہم مستقر تھا، آج بھی تاریخ اور تہذیب کے کئی راز اپنے سینے میں سموئے ہوئے ہے۔ مسقال مسجد، جس کا وجود 14ویں صدی میں عرب تاجر ناخدا مسقال کے ہاتھوں عمل میں آیا، اس حقیقت کو بے نقاب کرتی ہے کہ ہندوستان میں اسلامی تعمیرات کا رنگ و آہنگ ہمیشہ یکساں نہیں رہا بلکہ ہر دور میں اس پر مقامی اثرات ثبت ہوئے۔
مثقال مسجد: تاریخ کے آئینے میں
یہ مسجد اس وقت کی یادگار ہے جب عرب تاجر کیرلا کے ساحلی علاقوں میں تجارت اور اسلام کی دعوت ساتھ لے کر آتے تھے۔ ناخدا مسقال، جو یمن سے تعلق رکھنے والے ایک متمول تاجر تھے، نے اسے کوزیکوٹ کے علاقے کٹچھیرا میں یہ مسجد تعمیر کرائ۔ یہ وہ زمانہ تھا جب یہاں کی بندرگاہ عرب، فارسی، اور ملائی تاجروں کے میل جول کا مرکز تھی۔ حیرت انگیز طور پر، مسجد کا طرزِ تعمیر کیرالا کے روایتی فنِ تعمیر سے ہم آہنگ ہے، اور یہی پہلو اسے دیگر ہندوستانی مساجد سے منفرد بناتا ہے۔
1510 میں جب پرتگیزی حملہ آوروں نے کوزیکوٹ کو تاراج کیا، تب یہ مسجد بھی ان کے غیظ و غضب سے محفوظ نہ رہ سکی۔ اس وقت پانچ منزلہ عمارت کا ایک حصہ تباہ کر دیا گیا تھا۔ لیکن، مقامی حکمران زامورین نے بعد میں اس کی مرمت کروائی اور یہ آج چار منزلوں پر مشتمل ہے۔ یوں، یہ مسجد نہ صرف مسلمانوں کے تہذیبی اثرات کی علامت ہے بلکہ اس میں نوآبادیاتی جبر کی کہانی بھی محفوظ ہے۔
فنِ تعمیر: ایک انوکھا امتزاج
یہاں پہنچ کر میں نے جو سب سے دلچسپ مشاہدہ کیا، وہ اس کا منفرد طرزِ تعمیر تھا۔مسقال مسجد میں نہ کوئی گنبد ہے اور نہ ہی مینار یہ حقیقت شمالی ہند کے عام ذہنوں کے لیے حیرت کا باعث ہو سکتی ہے، لیکن جنوبی ہند میں یہ ایک عام بات ہے۔ مسجد میں لکڑی کا کثرت سے استعمال کیا گیا ہے، جس میں 24 مضبوط ستون ہیں جو پورے ڈھانچے کو سنبھالے ہوئے ہیں۔
مسجد کی چھت سرخ مٹی کے ٹائلوں سے ڈھکی ہوئی ہے، اور اس کی 47 کھڑکیاں اور دروازے نقش و نگار سے مزین ہیں۔ یہ فنِ تعمیر زیادہ تر کیرالا کے روایتی طرزِ تعمیر سے متاثر ہے، جس میں ہندو مندروں اور دراوڑی فن کے اثرات بھی دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس امتزاج نے مجھے یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ جب بھی کوئی تہذیب کسی سرزمین پر قدم رکھتی ہے تو وہ یکایک اپنے اصل میں باقی نہیں رہتی بلکہ مقامی اثرات کو بھی جذب کر لیتی ہے۔
کیا مسجد کی شناخت صرف گنبد سے کی جا سکتی ہے؟
ہندوستان میں ایک خاص ذہنیت پروان چڑھی ہے جو عبادت گاہوں کی شناخت کو محض ان کے فنِ تعمیر سے جوڑتی ہے۔ حکومت کی دلیل ہو یا بعض مؤرخین کی، دونوں یہ تصور پیش کرتے ہیں کہ اگر کسی عمارت میں گنبد نہیں تو وہ مسجد نہیں ہو سکتی، یا اگر کسی کا فنِ تعمیر ہندو مندروں سے مشابہ ہو تو اسے مسجد تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ مسقال مسجد اس دلیل کو مکمل طور پر مسترد کر دیتی ہے۔
جنوبی ہند میں کئی مساجد ایسی ہیں جو گنبد اور میناروں سے عاری ہیں، لیکن ان کی دستاویزات، ان کے کتبے، اور ان کی تعمیر کی تاریخ صاف بتاتی ہے کہ وہ ہمیشہ سے مساجد رہی ہیں۔ یہ نکتہ ان جدید مباحث کے لیے نہایت اہم ہے جو حالیہ دنوں میں تاریخی عبادت گاہوں کی ملکیت کے حوالے سے اٹھ رہے ہیں۔ اگر صرف فنِ تعمیر کو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ کیا جائے کہ کوئی عمارت کس مذہب سے تعلق رکھتی ہے، تو یہ تاریخ کے ساتھ نہایت سنگین زیادتی ہوگی۔
تبصرہ لکھیے