حیدرآباد میں پولیس کی جانب سے ایک وکیل کی گاڑی پر کالے شیشے، فینسی نمبر پلیٹ اور پولیس سائرن کے غیر قانونی استعمال پر درج مقدمہ ختم کیے جانے کے باوجود نہ صرف حیدرآباد بلکہ کراچی میں بھی وکلا نے احتجاج شروع کر دیا ہے۔
یہ واقعہ 3 فروری کو پیش آیا جب بھٹائی نگر پولیس کی ایک ٹیم مین جامشورو روڈ پر گلستانِ سجاد کے قریب غیر قانونی طور پر سرکاری گرین نمبر پلیٹ، کالے شیشے، پولیس لائٹس اور سائرن استعمال کرنے والی گاڑیوں کی چیکنگ کر رہی تھی۔ اس دوران ایک مہران گاڑی پولیس سائرن بجاتے ہوئے نظر آئی، جس پر "ایڈوکیٹ" لکھا تھا اور اس کے تمام شیشے کالے تھے۔ پولیس کے مطابق گاڑی کا ڈرائیور فرار ہوگیا، جس پر پولیس نے گاڑی تحویل میں لے کر مقدمہ درج کر دیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ گاڑی ایک وکیل کی ملکیت ہے۔
مقدمہ درج ہونے کے بعد 1500 سے زائد وکلا نے سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) حیدرآباد کے دفتر پر دھاوا بول دیا۔ کینٹ تھانے کے ایس ایچ او عبدالرزاق کمانڈو کے مطابق وکلا نے پولیس اہلکاروں کی وردیاں پھاڑ دیں اور انہیں برا بھلا کہا۔ وکلا کے احتجاج کے نتیجے میں ایس ایس پی دفتر 15 گھنٹے تک محاصرے میں رہا، جس سے پولیس کا مورال شدید متاثر ہوا۔ اس واقعے کے خلاف پولیس افسران نے احتجاجاً چھٹی کی درخواستیں دے دیں۔
وکلا کے دباؤ پر مقدمہ واپس لے لیا گیا اور گاڑی بھی واپس کر دی گئی، لیکن اس کے باوجود وکلا نے ایس ایس پی حیدرآباد کی معطلی کا مطالبہ کرتے ہوئے جمعرات کو عدالتی کارروائی کا بائیکاٹ کر دیا۔ بعد ازاں، کراچی بار کونسل کی اپیل پر کراچی کے وکلا نے بھی احتجاج میں شمولیت اختیار کر لی، جو جمعہ تک جاری رہا۔ حیدرآباد میں وکلا نے قومی شاہراہ پر دھرنا بھی دے دیا، جس سے ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی۔
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ملک میں قانون کے رکھوالے—وکلا اور پولیس—اپنے باہمی تنازعے کو عدالتوں میں حل کرنے کے بجائے سڑکوں پر آ کر دھرنوں اور احتجاج کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ایک طرف پولیس اہلکار وکلا کے دباؤ کے خلاف چھٹیوں پر جا رہے ہیں، تو دوسری طرف وکلا عدالتوں میں قانونی چارہ جوئی کرنے کے بجائے سڑکوں پر نکل کر حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں۔
یہ صورتحال ہمارے عدالتی اور قانونی نظام کے لیے ایک بڑا المیہ ہے۔ اگر انصاف فراہم کرنے والے ادارے خود انصاف کے لیے احتجاج پر مجبور ہوں، تو عام شہریوں کو انصاف کیسے ملے گا؟ قانون کی پاسداری اور انصاف کا حصول صرف عدالتوں کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ وکلا اور پولیس کو چاہیے کہ وہ عدالتوں پر اعتماد کرتے ہوئے قانونی طریقے سے مسائل حل کریں، بجائے اس کے کہ عوام کو مشکلات میں مبتلا کریں اور نظامِ انصاف کو کمزور کریں۔
تبصرہ لکھیے