سرکلر روڈ کے نام کی وجہ تسمیہ چھ دروازوں لوہاری گیٹ ، بوہڑگیٹ ، حرم گیٹ ، پاک گیٹ ، دہلی گیٹ ، اور دولت گیٹ کے گرد گھومنا ہے.
یہ وہ سرکل ہے جس کے اندر صرف یہ دروازے ہی نہیں، بلکہ میری زندگی کا ماضی حال اور مستقبل بھی مقید ہے۔
یہ سرکلر روڈ عام راہ گزر نہیں، اس پہ چلتے ہوئے قدیمی دروازوں پہ بیرونی حملہ آوروں کے گھوڑوں کے ٹاپوں کی دھمک اب بھی محسوس ہوتی ہے۔
اسی سرکلر پہ موجود خونی برج چوک پہ کھڑا ہو کے میں آج بھی تصور میں ہزاروں سال پہلے ہونے والی اس خون ریز جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کے تلواروں کی جھنکار محسوس کرتا ہوں جس میں سکندر اعظم گھائل ہوا تھا۔
اسی دائرے پہ موجود دہلی گیٹ پہ کھڑا ہو کے میں دہلی سے آنے والی ہوا میں خود کو معطر پاتا ہوں اور دہلی ملتان روڈ پہ سفر کرتے قافلوں کے قدموں کی چاپ سے میرے کان سرسراتے ہیں
آپ اس پہ گھومیں، اور ہو نہیں سکتا کہ دال مونگ ، ڈولی روٹی ، مسی روٹی ، کچی لسی ، تلی ہوئی مچھلی ، آلو بھی چھولے ، فالودے اور سری پائے وغیرہ کی مہک آپ کو محسوس نہ ہو۔
تانگے پہ بیٹھ کے اس راہ پہ سفر کرنا میرے لیے کسی سفاری ٹوور سے کم نہیں ہوتا تھا۔
اس راہگزر پہ موجود سینماؤں تاج محل ، کرن ، ڈان ، رادھو ،کراؤن ، اور محفل کی پیشانی پہ لگے قدآدم فلمی پوسٹرز کی رنگینیوں سے میری آنکھیں آج بھی خیرہ ہیں۔
س راہگزر سے پرانے شہر کے گرد فصیل پر چڑھتی درجنوں سیڑھیاں پھلانگ کے چڑھنا میرا دل پسند مشغلہ ہوتا تھا۔
الغرض
اس سرکلر روڈ ۔۔ پہ اتنی یادیں اور یادگاریں بکھری ہیں کہ میں ہمیشہ اس دائرے میں مقید رہنا چاہوں گا اور آپ سب کو اس قید کا وقتافوقتا احوال سنانا چاہوں گا.
تبصرہ لکھیے