دورِ حاضر کی دنیا ایک آئینہ ہے، جس میں ماضی کی پرچھائیاں اور مستقبل کی امیدیں جھلکتی ہیں۔ یہ زمانہ ترقی کے عروج پر ہے، مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ انسانیت کے ماتھے سے اخلاص اور محبت کا رنگ دھندلا ہوتا جا رہا ہے۔ حالاتِ حاضرہ پر غور کریں تو دل ایک عجیب کرب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔
دھوپ چھاؤں کی مانند ہماری دنیا میں واقعات کا تسلسل چل رہا ہے۔ ایک طرف، سائنس اور ٹیکنالوجی کی بدولت انسان چاند سے آگے جانے کی تیاری کر رہا ہے، تو دوسری طرف، یہی انسانیت زمینی حقائق کو فراموش کرتے ہوئے خون کی ہولی کھیل رہی ہے۔ فلسطین، کشمیر، اور دنیا کے دیگر خطے مظلومیت کی تصویر بنے ہوئے ہیں، جہاں ہر روز معصوم جانیں تہ تیغ ہو رہی ہیں۔ دوسری جانب، ہمارے معاشروں میں سیاسی بے حسی اور اخلاقی زوال کی جڑیں مضبوط ہو رہی ہیں۔ حکمرانوں کی بےتوجہی، عوام کی لاتعلقی، اور عدل و انصاف کا فقدان ایسے عوامل ہیں جو معاشرتی بگاڑ کو بڑھاوا دے رہے ہیں۔ معاشی عدم توازن نے غریب کو مزید غریب اور امیر کو مزید امیر بنا دیا ہے۔
مگر ان اندھیروں میں امید کی کرنیں بھی موجود ہیں۔ وہ نوجوان جو اپنے قلم اور علم کے ذریعے حق کی آواز بلند کر رہے ہیں، وہ استاد جو اخلاقیات کا درس دے رہے ہیں، اور وہ والدین جو اپنی اولاد کو انسانیت کا سبق سکھا رہے ہیں، یہ سب ہمارے معاشرے کی بقاء کے لیے روشنی کے مینار ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم ایک بار پھر اپنے اعمال کا جائزہ لیں، اور انسانیت کے اصل مقصد کو پہچانیں۔ ہمیں علم و عمل کی بنیاد پر اپنے اندر وہ اخلاقی انقلاب لانا ہوگا جو ہمارے اجداد کی میراث تھا۔ ورنہ یہ ترقی کے مینار اور طاقت کے خواب ہمیں مزید اندھیروں کی طرف لے جائیں گے۔
حالاتِ حاضرہ کے آئینے میں ہمیں اپنی کمزوریاں اور خامیاں صاف نظر آتی ہیں۔ اگر ہم نے ان پر قابو نہ پایا، تو یہ روشن دنیا اندھیروں کی نذر ہو جائے گی۔ انسانیت کے بقاء کے لیے محبت، عدل، اور اخلاقیات کو فروغ دینا ہوگا۔ یہی ہماری اصل کامیابی ہوگی، اور یہی روشنی کے میناروں کو دوبارہ روشن کرے گا۔
تبصرہ لکھیے