ہوم << وقت پر بیج بونا سیکھیں۔ ڈاکٹر عثمان عابد

وقت پر بیج بونا سیکھیں۔ ڈاکٹر عثمان عابد

آوارہ گرد بیج ہوا کے محتاج ہوتے ہیں۔ہوا کے دوش کے ساتھ اڑتے بے مقصد اور بے سمت بیج سمت متعین نہ ہونے کی وجہ سے عموماً ضائع ہو جاتے ہیں جبکہ چند خوش قسمت بیجوں کو سازگار ماحول میسر آ جاتا ہے اور وہ درخت کی صورت اختیار کر لیتے ہیں۔ہم میں سے زیادہ تر لوگ بھی انھی آوارہ گرد بیجوں کی طرح زندگی گزارتے ہیں۔اتفاقاً سازگار ماحول میسر آ گیا تو ٹھیک ورنہ ساری زندگی ادھر ادھر بھٹک کر گزارنے کے بعد اس جہان فانی سے کوچ کر جاتے ہیں۔ہم لوگوں نے قسمت اور محنت کے تصور کو بھی صحیح طور پر نہیں سمجھا۔

فرض کریں کہ قسمت ایک دائرہ ہے اور اس دائرے کے اندر موجود تمام نعمتیں آپ کی قسمت میں لکھ دی گئیں ہیں۔لیکن لکھ دینے کا یہ ہرگز مطلب نہیں ہے کہ یہ تمام نعمتیں خود بخود آپ کو مل جائیں گی۔ان نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیئے بھی آپ کو محنت کرنا ہو گی۔لوگ اکثر میرے سے سوال کرتے ہیں کہ ہم اپنا مقصد کیسے دریافت کر سکتے ہیں؟ یہ سوال سن کر میں بڑا حیران ہوتا ہوں۔مقصد کوئی گمشدہ خزانہ تھوڑی ہے جسے آپ دریافت کرنے چلے ہیں۔مقصد تو وہ پھلدار درخت ہے جس کا بیج زمین میں بویا جاتا ہے اور پھر مسلسل آبیاری (پریکٹس) کے بعد آخر کار ایک دن آپ کا بویا ہوا بیج تناور اور پھلدار درخت کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔

آپ نے زندگی میں کچھ بھی حاصل کرنا ہے تو سب سے پہلے آپ کو زمین میں مقصد کا بیج بونا ہو گا۔سب سے پہلا مرحلہ بیج کے انتخاب کا ہے۔ہم خواب آم کے درخت کا دیکھ رہے ہوتے ہیں جبکہ بیج امرود کے درخت کا بوتے ہیں۔امرود کا بیج بونے سے امرود کا درخت ہی اگے گا۔لہٰذا بیج (مقصد) کا انتخاب سوچ سمجھ کر ہی کریں۔آپ بالکل کلیئر ہوں کہ آپ کون سا پھل کھانا چاہتے ہیں۔آپ کے اندر اس پھل کو کھانے کی شدید خواہش موجود ہو۔طلب جتنی شدید ہو گی منزل تک پہنچنا اتنا آسان ہو گا۔پھل صرف درخت کو ہی نہیں نیت کو بھی لگتا ہے۔اللہ حیثیت دیکھ کر نہیں بلکہ نیت دیکھ کر نوازتا ہے۔بیج (مقصد) کے انتخاب کے وقت محض اپنی ذات کے فائدے کے بارے میں ہی نہ سوچیں بلکہ اپنے اردگرد موجود افراد کو بھی ضرور شامل کریں۔آم کا بیج بو رہے ہیں تو یہ ہرگز نہ سوچیں کہ اس کا پھل آپ اکیلے ہی کھائیں گے۔بلکہ نیت یہ ہونی چاہیے کہ ساری دنیا اس سے استفادہ کرے گی۔دن کے اختتام پر آپ کو اسی معیار کا ملے گا جس معیار کا آپ کائنات کو لٹا رہے ہیں۔خود غرضی کا بیج بو کر شاید آم کا درخت تو اگ جائے گا لیکن رزق میں فراغی نصیب نہیں ہو گی۔یہ اللہ کا قانون ہے جسے قانون تبادل کہتے ہیں۔اگر آپ دنیا میں بسنے والے لوگوں کے لیئے مفید ہیں تو آپ بھوکے نہیں مریں گے۔

جس طرح آم کا درخت ایک بیج میں چھپا ہوتا ہے بالکل اسی طرح ہماری منزل بھی خیال میں چھپی ہوتی ہے۔ہم اپنے مقصد کو دو مرتبہ حاصل کرتے ہیں۔پہلی مرتبہ دماغ میں اس کی تصویر تشکیل پاتی ہے اور دوسری مرتبہ جب ہم اسے حقیقی طور پر حاصل کرتے ہیں۔دماغ میں تشکیل پانے والی تصویر شروعات میں دھندلی ہوتی ہے لیکن جیسے جیسے ہم ایکشنز لیتے ہیں تصویر واضح ہوتی چلی جاتی ہے۔جیسے جیسے یہ واضح ہوتی ہے ہمارا یقین کا نظام حرکت میں آتا ہے اور یہ دماغی تصوہر ہمارے تشخص کا حصہ بنتی چلی جاتی ہے۔ جس طرح تمام بیجوں کو برابر نہیں بنایا گیا بالکل اسی طرح سارے خیالات تعقب کے لائق نہیں ہوتے۔جس طرح پھلتے پھولتے آم کے درخت کو کاشت کرنے کے لیئے صحیح بیج کے انتخاب میں احتیاط کی ضرورت ہے بالکل اسی طرح ہدف کو حاصل کرنے کے لیئے ہمیں صحیح اہداف کے انتخاب میں بھی احتیاط برتنی پڑتی ہے۔

آم کے بیج کے انتخاب کے وقت ہماری کوشش ہوتی ہے کہ بیج تازہ ہو،اگنے کی طاقت رکھتا ہو اور بیماری کے خلاف مزاحمت دکھانے والا ہو کیونکہ وہی بیج قد آور اور مضبوط درخت بنتا ہے جو خراب موسم کو سہ لیتا ہے۔ بالکل اسی طرح مقاصد کا تعین کرتے وقت ہمیں مندرجہ ذیل خصوصیات پر غور کرنا چاہیئے۔کیا فلاں مقصد میری اقدار اور ترجیحات سے مطابقت رکھتا ہے؟ موجودہ وسائل اور رکاوٹوں کے ساتھ کیا میں اپنے مقصد کو حاصل کر پاؤں گا؟کیا یہ مقصد اچھی طرح سے متعین اور سمجھنے میں آسان ہے؟آم کے بیج کو اگنے اور بڑھنے کے لیئے صحیح مٹی،آب و ہوا اور سازگار ماحول کی ضرورت ہوتی ہے۔اسی طرح ہمارے مقاصد کو کامیاب ہونے کے لیئے صحیح سیاق و سباق اور تعاون کی ضرورت ہوتی ہے۔سیاق و سباق سے مراد مطلوبہ مقصد کے اردگرد کس قسم کے حالات اور رکاوٹیں موجود ہیں؟ تعاون کا مطلب ہے کہ کون سے وسائل،افراد اور نظام میرے مقصد کو حاصل کرنے میں میری مدد کر سکتے ہیں۔

کسی بھی مقصد کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ آپ اس مقصد کا سبب جانیں۔ "آپ یہ کیوں کرنا چاہتے ہیں؟" یہ سوال نہایت اہم ہے، کیونکہ یہی "کیوں" آپ کے حوصلے کا ذریعہ بنے گا۔ مثال کے طور پر، اگر آپ وزن کم کرنا چاہتے ہیں تو اس کے پیچھے مقصد صرف وزن کم کرنا نہیں ہونا چاہیے بلکہ ایک صحت مند اور فعال زندگی گزارنے کا خواب ہونا چاہیے۔ جب آپ کا "کیوں" واضح ہوگا تو آپ اپنے مقصد کے لیے زیادہ پرعزم ہوں گے۔

اپنے مقاصد کو سمارٹ فریم ورک کے تحت بنائیں- آپ کا مقصد واضح اور ٹائم باؤنڈ ہونا چاہیے۔ آپ کو معلوم ہو کہ آپ نے کتنی ترقی کی ہے۔ آپ کا مقصد ایسا ہو جو آپ کی صلاحیتوں کے دائرے میں ہو۔ آپ کے مقصد کا آپ کی زندگی سے تعلق ہونا چاہیے۔ یہ طریقہ آپ کے اہداف کو حقیقت کے قریب لے آتا ہے اور آپ کو اپنے سفر میں رہنمائی فراہم کرتا ہے۔اپنے مقصد کو ایک مختصر، واضح اور پرعزم جملے میں لکھیں۔ یہ جملہ آپ کی کامیابی کے عہد کو ظاہر کرے گا۔ مثلاً، "میں ایک سال میں اپنی کتاب مکمل کروں گا۔" یہ جملہ نہ صرف آپ کی سمت کا تعین کرے گا بلکہ آپ کو اپنے مقصد سے جوڑے رکھے گا۔

اپنے مقصد کو چھوٹے چھوٹے سنگ میل میں تقسیم کریں۔ یہ سنگ میل آپ کو مسلسل حوصلہ دیں گے اور آپ کی کامیابی کا جشن منانے کا موقع فراہم کریں گے۔ مثال کے طور پر، اگر آپ کسی نئی زبان کو سیکھنا چاہتے ہیں تو ہر مہینے ایک مخصوص سطح تک پہنچنے کا ہدف مقرر کریں۔ یہ طریقہ آپ کو اپنی منزل کے قریب لے آئے گا۔

وقت پر بیج بونا سیکھیں۔اگر آپ ایسا نہیں کر رہے تو فصل (مقصد) حاصل کرنے کا خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہو گا۔موسم کسی کا انتظار نہیں کرتا۔وہ مقررہ وقت پر آتا ہے اور وقت ختم ہوتے ہی چلا جاتا ہے۔آج بیج نہ بویا تو کاشت کے موسم میں آپ بھی ابھی اسی فیصد لوگوں کی صف میں موجود ہوں گے جن کی زندگی کاشت کرنے والے بیس فیصد لوگوں کے بارے میں چہ مگوئیاں کرتے گزر جاتی ہے۔

ایک بار آم کے بیج (مقصد) کو منتخب اور زمین میں بونے کے بعد اس کی احتیاط اور توجہ کیساتھ آبیاری کی جاتی ہے۔اسی طرح اہداف کو حاصل کرنے کے لیئے مسلسل کوشش،عزم اور مطابقت کی ضرورت ہوتی ہے۔عزم سے مراد یہ ہے کہ کیا میں اپنے مقصد کو حاصل کرنے کے لیئے وقت،توانائی اور وسائل وقف کرنے کے لیئے تیار ہوں؟ کیا میں حالات کے بدلنے کے ساتھ اپنے مقاصد کو ایڈجسٹ کرنے کے لیئے تیار ہوں؟ آم کے بیج کی طرح اپنے اہداف کو احتیاط سے منتخب کرنے اور منصوبہ بندی سے ہم اپنی کامیابی کے امکانات کو بڑھا سکتے ہیں اور حصول مقصد کے لیئے درکار مائنڈ سیٹ کو اپنا کر انھیں حاصل کر سکتے ہیں۔

Comments

ڈاکٹر عثمان عابد

ڈاکٹر عثمان عابد لائف کوچ، رائٹر اور ایوارڈ یافتہ محقق ہیں۔ پچاس سے زائد قومی اور بین الاقوامی سائنسی اشاعتیں شائع ہو چکی ہیں۔ اسلام آباد کے وزیراعظم نیشنل ہیلتھ کمپلیکس میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر اور پالیسی کنسلٹنٹ خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ان کی تحریریں شوق سے پڑھی جاتی ہیں

Click here to post a comment