ہوم << اسلامی معاشرتی اقدار اور جدیدیت کے درمیان تطبیق کیسے ہو - عارف علی شاہ

اسلامی معاشرتی اقدار اور جدیدیت کے درمیان تطبیق کیسے ہو - عارف علی شاہ

کیا ترقی کے لیے اپنی اقدار سے دستبردار ہونا ضروری ہے؟
ذرا تصور کریں کہ آپ کسی بین الاقوامی کانفرنس میں شریک ہیں جہاں دنیا بھر کے دانشورجدیدیت، ترقی اور سماجی تبدیلی پر بات کر رہے ہیں۔ ایک مقرر کہتا ہے: "مسلمان ممالک اس لیے پیچھے ہیں کیونکہ وہ اپنی قدیم روایات سے چمٹے ہوئے ہیں۔ جب تک وہ مغربی طرزِ زندگی اور نظریات کو نہیں اپناتے، وہ ترقی نہیں کر سکتے۔"
یہ جملہ سن کر آپ کے ذہن میں سوال اٹھتا ہے: کیا واقعی ترقی اور جدیدیت کا مطلب اپنی اسلامی معاشرتی اقدار کو ترک کرنا ہے؟ کیا کوئی ایسی مثال نہیں جہاں اسلامی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے جدید دنیا میں کامیابی حاصل کی گئی ہو؟ اسلامی معاشرتی اقدار کو برقرار رکھتے ہوئے جدیدیت کے تقاضوں سے کیسے ہم آہنگ ہوا جا سکتا ہے، اور کیا واقعی ترقی کے لیے اپنی روایات سے دستبرداری لازمی ہے؟ تاریخ، معاصر چیلنجز اور عملی تجاویز کی روشنی میں اس مسئلے کو سمجھنے کی کوشش کریں گے۔

آج کی دنیا میں، جہاں جدیدیت اور سیکولر اقدار کا غلبہ بڑھ رہا ہے، اسلامی معاشرتی اقدار کو درپیش چیلنجز شدت اختیار کر رہے ہیں۔ کچھ لوگ جدیدیت کو ترقی کا زینہ سمجھتے ہیں جبکہ بعض اسے اسلامی اقدار کے لیے خطرہ گردانتے ہیں۔ اس مضمون میں ہم ایک متوازن تجزیہ کریں گے کہ اسلامی معاشرتی اقدار اور جدیدیت کے درمیان کیسے تطبیق پیدا کی جا سکتی ہے، اور اس حوالے سے چند مثالیں اور قابل عمل سفارشات پیش کریں گے۔

اسلامی معاشرتی اقدار اور جدیدیت کے درمیان کشمکش
1. جدیدیت کے تقاضے اور اسلامی روایات
جدیدیت کا مطلب صرف ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی نہیں بلکہ اس میں اخلاقی و سماجی تصورات بھی شامل ہیں۔ مغربی معاشرت میں آزادیٔ اظہار، صنفی مساوات، اور فرد کی خودمختاری جیسے تصورات مضبوط ہیں، جبکہ اسلامی اقدار میں خاندانی نظام، احترامِ بزرگ، اور اخلاقی حدود کو فوقیت حاصل ہے۔ اندلس کے مشہور مسلم فقیہ امام ابن حزم (رحمۃ اللہ علیہ) کا ایک قول ہے کہ "زمانے کے ساتھ بدلنے والی چیزوں کو اپنانا جائز ہے جب تک وہ دین کے بنیادی اصولوں سے متصادم نہ ہوں۔" اندلس میں جب مسلم حکومت کا زوال آیا، تو وہاں کے علما نے جدید سیاسی و سماجی چیلنجز کو نظر انداز کرنے کی غلطی کی، جس کے نتیجے میں مسلم ثقافت کا زوال تیز ہوگیا۔ یہ اس پر شاہد ہے کہ جدیدیت کو مکمل رد کرنا درست نہیں، بلکہ ہمیں دیکھنا ہوگا کہ کون سی چیزیں اسلامی اقدار کے مطابق اپنائی جا سکتی ہیں اور کن کا سد باب ضروری ہے۔

ثقافتی تسلط اور مسلمانوں کی شناخت
ثقافتی تسلط (Cultural Hegemony) کی اصطلاح اطالوی مفکر انتونیو گرامشی نے دی تھی، جس کے مطابق حکمران طبقہ اپنی اقدار اور نظریات کو اتنا عام کر دیتا ہے کہ وہ پورے معاشرے کی عمومی سوچ بن جاتی ہیں۔مغربی ثقافت نے اپنے ذرائع ابلاغ، تعلیمی نظام اور معاشرتی رویوں کے ذریعے پوری دنیا میں اپنی اقدار کو غالب کر دیا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ مسلم نوجوان اپنی ثقافتی شناخت کو کمزور سمجھنے لگے ہیں اور مغربی رویوں کو ہی ترقی کا معیار تصور کرنے لگے ہیں۔ سلطان صلاح الدین ایوبی کے دور میں بھی صلیبیوں نے ثقافتی تسلط کے ذریعے مسلم معاشرے کو کمزور کرنے کی کوشش کی تھی۔ وہ مسلمانوں میں عیش پرستی اور اخلاقی بے راہ روی کو فروغ دینا چاہتے تھے، لیکن صلاح الدین نے علمی، اخلاقی اور عسکری میدانوں میں مضبوط حکمت عملی سے اسلامی تشخص کو بحال رکھا۔ یہی حکمت عملی آج کے دور میں بھی درکار ہے کہ ہم تعلیمی، ثقافتی اور سماجی میدانوں میں اسلامی شناخت کو بحال رکھیں۔

کیا اسلامی اقدار کی تطبیق ممکن ہے یا ناممکن؟
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ اسلامی اقدار کو جدید دنیا کے ساتھ ہم آہنگ کرنا ممکن نہیں، لیکن تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ ہر دور کے مسلم اسکالرز نے بدلتے حالات کے مطابق اسلام کے موقف کی صحیح تعبیر کی ہے، جبکہ دین کے بنیادی اصولوں کو برقرار رکھا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ کے دور میں جب اسلامی سلطنت میں نئے معاشرتی مسائل پیدا ہوئے تو انہوں نے اجتہاد کو فروغ دیا، جس سے اسلامی قوانین کو عملی زندگی میں نافذ کرنے کے نئے طریقے دریافت ہوئے۔ اسی طرح، آج بھی ہمیں دینی اصولوں کی روشنی میں اور حکمتِ عملی کے ذریعے اسلامی اقدار کو جدید حالات میں بھی قابلِ عمل بنانا ہوگا۔کیونکہ اسلامی اقدار میں یہ خوبی موجود ہے کہ ہر زمانے ہر جگہ میں قابلِ عمل اور باعث ِسکون و نجات ہے.

اسلامی اقدار کے لیے تحفظ اور جدیدیت کے ساتھ تطبیق درج ذیل اقدامات ہونے چاہییں.
1. اسلامی تشخص کے تحفظ کے لیے تعلیمی اصلاحات
نصاب میں اسلامی تاریخ، تہذیب اور اخلاقی اقدار کو شامل کرنا ضروری ہے۔ سوشل میڈیا اور جدید ذرائع ابلاغ میں اسلامی اصولوں کی روشنی میں مثبت بیانیہ قائم کیا جائے۔

2. جدیدیت کے مثبت پہلوؤں کو اپنانا
سائنسی ترقی، ٹیکنالوجی، اور تعلیمی بہتری کو اسلامی اصولوں کے مطابق اختیار کرنا۔ اسلامی مالیاتی نظام (Islamic Finance) کو جدید معیشت کے مطابق ڈھالنا تاکہ سود سے بچا جا سکے۔

3. ثقافتی خود اعتمادی کا فروغ
مسلم نوجوانوں کو اسلامی ثقافت اور تہذیب پر فخر کرنے کی ترغیب دی جائے۔ اسلامی تہذیب کے روشن پہلوؤں کو عام کیا جائے، جیسے کہ مسلم سائنسی کارنامے، عدل و انصاف کی اسلامی روایات وغیرہ۔

4. جدید مسائل کا حل
جدید چیلنجز کے حل کے لیے علماء اور دانشوروں کے درمیان مکالمے کو فروغ یاجائے. اسلامی شریعت کے اندر رہتے ہوئے نئی تحقیق کے دروازے کھولے جائیں۔

اسلامی معاشرتی اقدار کا تحفظ اور جدیدیت کے ساتھ تطبیق ایک متوازن حکمت عملی کا تقاضا کرتا ہے۔ مکمل انکار یا مکمل قبولیت کے بجائے، ایک درمیانی راہ اختیار کرنی ہوگی جہاں اسلامی اصولوں کو برقرار رکھتے ہوئے جدید تقاضوں کے مطابق حل تلاش کیے جائیں۔ تاریخ ہمیں سکھاتی ہے کہ جو قومیں اپنی ثقافتی شناخت کو برقرار رکھتی ہیں، وہی ترقی کرتی ہیں۔ ہمیں جدید دنیا میں اسلامی تشخص کو ایک زندہ حقیقت بنانے کے لیے علمی، فکری اور عملی جدوجہد کرنی ہوگی۔

Comments

عارف علی شاہ

عارف علی شاہ بنوں فاضل درس نظامی ہیں، بنوں یونیورسٹی میں ایم فل اسکالر ہیں، اور کیڈٹ کالج میں بطور لیکچرر مطالعہ قرآن اپنی ذمہ داری نبھا رہے ہیں۔ ان کی تحریروں میں عصرحاضر کے چلینجز کا ادراک اور دینی لحاظ سے تجاویز و رہنمائی کا پہلو پایا جاتا ہے

Click here to post a comment