گزشتہ کئی سالوں سے سندھ کے اندر امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا ہے. جنوبی پنجاب سے ملحقہ علاقے راجن پور سے انڈس ہائی وے پر کشمور شکارپور تک دن میں بھی سفر کرنا محال ہو چکا ہے. شکار پور کے علاقے خان پور میں سابق ممبر سندھ اسمبلی غالب ڈومکی پر ڈاکوؤں کا حملہ ہوا جس میں اس کے گارڈ شہید ہوئے جبکہ چار ڈاکو ہلاک ہوئے. ان کا تعلق جتوئی قبیبلے کے کمالانی گینگ سے تھا ، اس واقعہ کی ایف آئی آر درج ہو چکی ہے.
ٹھل کی فضیلا سرکی کا اغوا ہو یا سنگرار کی پریا کماری کا مغوی بننا، کشمور سے ساگر کمار ہو یا خیر پور کی فاطمہ پھرور کے قتل کا معمہ، ان سب واقعات میں سندھ پولیس کا کردار بہت مشکوک نظر آتا ہے. لاڑکانہ ڈویژن میں کشمور، شکار پور، جیک آباد میں سیکڑوں مغوی انتہائی مشکوک اندازمیں بازیاب ہوتے ہیں. شہروں سے اسلحہ کے زور پر اغوا کیے جانے والے مغوی تاوان کی بھاری رقم دینے کے بعد ایس ایس پی آفس تک پہنچ کر روٹا کے حوالے کیے جاتے ہیں.
جب صحافی ایسے واقعات رپورٹ کرتے ہیں تو صحافیوں کو دن دہاڑے قتل کر دیا جاتا ہے. حالیہ دنوں میں ضلع گھوٹکی کے صحافی نصر اللہ گڈانی کی مثال ہم سب کے سامنے ہے جنہیں انتہائی بے دردی سے قتل کیا گیا . اسی طرح صحافی جان محمد مہر اور عزیز میمن جی مثالیں بھی موجود ہیں. یہ سب واقعات کوئی زیادہ پرانے نہیں ہیں .
سونے پر سہاگہ ڈاکوؤں کا سوشل میڈیا کا آزادانہ استعمال ٹھہرا جس کے ذریعے ملٹری گریڈ اسلحہ کی نمائش کے ساتھ ساتھ مغویوں کی پر تشدد ویڈیوز بنا کر انہیں وائرل کر کے اپنے مقاصد حاصل کیے جاتے ہیں. سندھ پولیس ان جرائم کا سد باب کرنے مکمل طور پر ناکام نظر آتی ہے. عام تاثر یہی ہے کہ سیاسی مداخلت کی وجہ سے ادارے کی کارکردگی کے ساتھ اس کی ساکھ بھی ختم ہو چکی ہے .
سیاسی اقتدار کا حامل وڈیرہ اور جاگیردار اپنے علاقے میں اپنے من پسند ایس ایس پی کی پوسٹنگ چاہتا ہے. اگر ایسا نہ ہو تو ایک دم ضلع بھر میں اغوا برائے تاوان کے سنگین جرائم میں ایک دم اضافہ ہو جاتا ہے. بعض اوقات تو معصوم بچوں تک کو اغوا کیا جاتا ہے. کشمور کے علاقے بڈانی سے جئدیپ کمار ، گڈو شہر سے سرفراز پٹھان، تنگوانی سے جنید بھکرانی، راجیش کمار کیسوانی، علی حسن کھوسہ اس کی مثالیں ہیں. یہ ایک لمبی فہرست ہے جس کا ڈیٹا مرتب کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے لازمی ہے تاکہ بدامنی کو بطور صنعت پھیلنے سے روکا جا سکے.
صوبائی حکومت کی طرف سے امن و امان کی بحالی کے لیے اربوں کا بجٹ آخر کہاں خرچ کیا جاتا ہے ؟ پولیس کے لیے خریدی گئیں بکتر بند گاڑیوں سے ڈاکوؤں کی گولیاں کیسے آر پار ہو جاتی ہیں؟ ایسے کئی سوالات ہیں جو عوامی حلقوں میں زیر گردش ہیں. ان سب سوالات کو مدنظر رکھتے ہوئے ان بنیادی مسائل کا حل ہونا لازمی ہے ورنہ آنے والے دنوں میں بدامنی، لاقانونیت اور اغوا انڈسٹری سے کوئی بھی محفوظ نہیں رہ سکے گا.
تبصرہ لکھیے