دو دن قبل کی بات ہے ،ہمارے شہر صادق آباد میں ایک اچھوتا اور انوکھا آپریشن کیا گیا، انکروچمنٹ کے نام پر ،جیسا کہ پورے پنجاب میں ہو رہا ہے. لیکن پورے پنجاب میں کہیں کرین ساتھ ہے کہیں ٹریکٹر ،لیکن صادق آباد شہر میں انتظامی اختیارات کے حامل ایک ،اسسٹنٹ کمشنر نے اپنی ایک ٹیم ساتھ کی اور سڑک پر موجود گاڑیاں جن میں کار ،رکشہ ،موٹرسائیکل ہمہ قسم کی سواریاں جو سڑک کنارے موجود تھیں ،جیسا کہ کوئی پرائیوٹ ڈاکٹر کے کلینک کے باہر ،کوئی بنک کے باہر ،کوئی کسی بیکری کے باہر ،کسی سرکاری غیر سرکاری دفتر کے باہر، میڈیکل سٹور ،سبزی کی دکان یا کسی بھی دکان کے سامنے گاڑی موجود کیوں تھی ؟ اگر تھی تو سڑک پر کیوں تھی، چاہے گاڑی میں ڈرائیور بھی موجود ہو، تب بھی گاڑی سڑک پر کیوں؟ صاحب موصوف جو موجود تھے اپنی نگرانی میں ایک ٹولی کو ساتھ لیے تھے اور اس میں سے دو صاحبان کے پاس سوئے ہاتھوں میں تھے، آؤ دیکھا نہ تاؤ اور نہ بھاؤ، بس دے دھنادھن گاڑیوں کے تمام ٹائرز میں بلا تفریق سوئے چبھوتے گئے اور عوام کا نقصان کرتے گئے.
اس سارے آپریشن کی نگرانی ایک سی ایس ایس کا امتحان پاس کردہ اے سی کر رہا تھا ،صاحب حکم دیتے گئے اہلکار بھاگ بھاگ کر تعمیل حکم کرتے گئے ،اس ساری کارکردگی کی ویڈیو بھی اے سی نے بنوائی اور سوشل میڈیا پر پوسٹ بھی کروا دی گئی . پھر جب طنز و تنقید اور مذمت شروع ہوئی تو صاحب نے ویڈیو کو نہ شئیر کرنے یا ڈیلیٹ کرنے کا حکم دیا لیکن تب تک معاملہ دور جا چکا تھا . سوشل میڈیا پر تنقید شروع ہوئی تو ویڈیو وائرل ہو گئی اور اس پر الیکٹرانک میڈیا پر پرائم ٹائم میں پروگرام ہوا . ڈی سی سے پوچھا گیا تو ان کے پاس بھی سوئے مار آپریشن کے حق میں کوئی قانون موجود نہ تھا اور نہ ہی کوئی اختیارات بیان کر سکے .
ایک ایسا شہر جہاں کہیں پارکنگ سرے سے موجود ہی نہیں وہاں لوگ بازار میں کسی بھی جگہ سواری کیوں نہ لے جائیں؟لیکن ستھرا پنجاب کے نام پر جو آپریشن ہو رہا ہے وہ ہونا چاہیے، نہ کہ ستھرا پنجاب بلکہ پورا پاکستان صاف ستھرا ہونا چاہیے، لیکن اس کا ایک منظم طریقہ ہوتا. غریب جو ریڑھی پر کاروبار کرتا ہے، وہ جس دکان کے سامنے ریڑھی کھڑی کرتا ہے، اس کو ادائیگی کرتا ہے یا مقامی گورنمنٹ کے ملازم دیہاڑی لگانے والے سے دیہاڑی بناتے ہیں ۔ان ریڑھی پر پھیری لگانے والوں کو متبادل جگہ دی جاتی ،کوئی گورنمنٹ سے دی گئی جگہ جیسے جمعہ بازار، اتوار بازار کے لئے مخصوص جگہیں ہوتی ہیں اسلام آباد ،کراچی وغیرہ اور دیگر شہروں میں. یہ جو عوامی املاک کو نقصان پہنچایا گیا، دھڑلے سے سوئے مارے گئے، پہیے نہ صرف پنکچر ہوئے بلکہ پھٹ گئے، یہ کون سی افسری تربیت ہے اور کون سا قانون ہے، بطور وکیل میں نے کسی کتاب میں یہ نہیں پڑھا۔
شہروں میں تعمیر کردہ پلازہ ،اور مختلف عمارات بنک ،ہسپتال بیکری یا شاپنگ پلازہ وہ منظور شدہ نقشہ کے مطابق بنائی جاتی ہیں. لوکل گورنمنٹ فیس لیتی ہے، نقشہ منظور کرتی ہے، ایسی بلڈنگ کا نقشہ بھی منظور ہو جاتا ہے جو چار منزلہ ہوتی ہے لیکن اس میں ذاتی حیثیت میں دو کاریں کھڑی کرنے کے لیے پارکنگ کی جگہ مخصوص نہیں ہوتی ۔مصنوعی اور عارضی آپریشن کر کے چند دنوں چند مہینوں تک صفائی اور نئے پروجیکٹ کے نام پر کروڑوں کے فنڈز ہڑپ ہو جاتے ہیں اور یہ پروگرام بند ہو جاتے ہیں ،یا پھر چند تصویری جھلکیوں میں نظر آتے ہیں. ہمیشہ ہی دیکھا کہ دیگر ممالک کے قوانین اور سکیمز کاپی کر کے اس ملک میں لاگو کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ،جو واقعی ہمارے زمینی حقائق سے مطابقت نہ رکھنے کی وجہ سے ناکام ہو جاتی ہیں۔
یہ سب لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ کسی بھی پروجیکٹ پر کام کرنے سے قبل اس کے منفی اثرات جو عام لوگوں کے روزگار سے شروع ہو کر غریب کے چولہے پر پڑتے ہیں ۔اس شدید قسم کی مہنگی بجلی ،مہنگی گیس اور دیگر اشیاء ضرورت کو خریدنے کی قوت جہاں کمزور ہوئی ہے وہاں اچانک ایسے انکروچمنٹ کے نام پر شروع کیے گئے آپریشن کے نہ صرف عام آدمی پر اثرات پڑتے ہیں بلکہ جس حکومتی دور میں بھی ہو ، اس حکومت کا ووٹ بنک بھی کم ہو جاتا ہے ،لیکن یہ ووٹ سے سپورٹ سے بنی حکومتوں پر بحث پھر کبھی کریں گے۔جمہوری حکومت کے اس دور میں جہاں پتنگ بازی کرنے کے خلاف قانون موجود ہے، وہاں پہ ایس ایچ او کی طرف سے نئی سزاؤں کا مسجد میں جا کر اعلان کرنا اور دھمکیاں دینا مناسب نہیں ہے. ایسے اقدامات اور اعلانات کا کب تک سامنا رہے گا نہیں معلوم ؟
تبصرہ لکھیے