ہمارے گھر میں ریڈیو نہیں تھا۔ صرف ایک ہمارے ہی گھر پر موقوف نہیں، ساٹھ کی دہائی میں عروس البلاد کراچی جیسے جدید شہر کے اکثر گھروں میں ریڈیوکاوجود نہ تھا۔ بالخصوص دین دار گھرانوں میں۔’مولویوں‘ کے ہاں اِس ’آلہ موسیقی ‘ کا داخلہ سختی سے ممنوع تھا۔جب کہ ہمارے گھرانے کا شمار محض’مولویوں‘ کے گھرانے میں نہیں کیاجاتاتھا۔یہ گھرانا ’علمائے دین‘ کاگھراناکہلاتا تھا۔والدمرحوم مولانا ابوالحسنات صدیقی اور تایامرحوم مولاناابوالجلال ندوی صدیقی کی گھریلو گفتگو میں بھی قرآن وحدیث اور فقہ کے موضوعات چھڑے رہتے۔ تفریح کا موڈ ہوتا تو لطائفِ علمیہ سُنائے جاتے۔ اردو،فارسی اور عربی کے اشعار پڑھے جاتے۔ ایسے ماحول میں بھلاریڈیو ہمارے گھرمیں بلااجازت تو کیا اجازت لے کربھی داخل ہوتا تو کیسے داخل ہوتا؟ والدمحترم جب تک بقیدحیات رہے ہمارے گھر میں ریڈیوکی آوازسُنائی نہ دی۔
باقاعدہ ریڈیوسننے کا موقع اُس وقت ملا جب 1965ء کی جنگ شروع ہوئی۔ ہماری گلی میں آمنے سامنے کی دونوں لائنوں کو ملاکر کُل چھ+ چھ بارہ گھر تھے۔ محلے کے ایک متمول بابو صاحب (جو محلے بھر میں ’نانے ابا‘ کہے جاتے تھے) ’سوا سو‘روپئے کی خطیر رقم خرچ کرکے ایک ریڈیوخرید لائے۔ رات ہوتے ہیگلی میں دویاتین چارپائیاں بچھادی جاتیں۔ نئے، چمکتے ہوئے ٹرانسسٹر ریڈیو کو کڑھا ہوا ریشمی غلاف اُڑھاکرلایا جاتا اورایک تپائی پر رکھ دیا جاتا۔ گلی کے تقریباً تمام گھروں کے مرد اِس ’پردہ نشیں‘کے گرد آبیٹھتے۔ شب پونے آٹھ بجے ریڈیوپاکستان سے مفصل خبریں نشر ہوتیں ۔ اس کے بعد بی بی سی کا بلیٹن سُناجاتا۔ ساتھ ساتھ خبروں پر تبصرہ بھی جاری رہتا ۔ محلے کے بزرگوں کی اکثریت اُن لوگوں پر مشتمل تھی جو غیر منقسم ہندوستان سے ہجرت کرکے پاکستان آئے تھے۔ یہ لوگ ہندوقوم کی مُسلم آزاری، اُس کی بنیاذہنیت اور اُس کی عیاری ومکاری کے چشم دید گواہ تھے۔اُن کے تبصرے دِلچسپ اور جان دار ہوتے تھے۔ روزانہ تو نہیں، مگر گاہے بگاہے والد مرحوم بھی اِس ’اجتماعی سماعتِ ریڈیائی‘ میں شریک ہوتے۔ وہ تو خبریں سُن کر واپس آجاتے مگر اُس محفل میں جو ہمارے گھر کے سامنے ہی سجی ہوتی تھی ہم اُس وقت تک بیٹھے رہتے تھے جب تک مرحوم کالم نگارنصراﷲ خان کا لکھا ہوا وہ ریڈیائی کالم نشر نہ ہوجاتا جس میں عرشِ منیر بہت لہک لہک کر ’’ ہائے! میں نہ مانوں‘‘ کی تکرارکیاکرتی تھیں۔
کبھی کبھار اِس سے قبل ہی ہمیں آوازدے کر گھر میں بُلالیا جاتا۔ چار و ناچار جانا ہی پڑتا۔ جنگِ ستمبر کے حالات سے آگاہ رہنے کے’عُذرِ شرعی‘ کے تحت کئی دین دار گھرانوں میں ریڈیوداخل ہوگیا۔ ہمارا گھر اس دوڑ میں شامل نہ ہوا۔ مگر جن گھروں میں ریڈیو کو گھس بیٹھنے کا موقع مل گیا تھا، اُن گھروں کے بزرگوں کی طرف سے بھی (کم ازکم اُن کی موجودگی میں)’فرمائشی گانوں‘کاپروگرام اوررومانی ڈرامے سننے پر پابندی برقراررہی۔
ٹیلی وِژن لاہور میں 1964ء میں آچکا تھا۔ مگرہمیں اِس کی خبر نہ تھی۔ 1967ء میں جب ’کراچی مرکز‘ کی آزمائشی نشریات شروع ہوئیں تو قریبی بازارکے ایک دُکان دار نے ٹی وی خرید لیا۔ اُس نے دُکان کے عقب ہی میں واقع اپنے گھر کے اندر ایک بڑے کمرے میں ’صرف بچوں کے لیے‘ نمایش لگادی۔’ چونی‘ کاٹکٹ لیناپڑتاتھا۔ وقت کی کوئی قید نہ تھی۔جتنی دیرتک چاہو دیکھتے رہو۔ جس روزکراچی مرکز سے نشریات کا باقاعدہ افتتاح ہونا تھا اُس روز والد مرحوم سے چھپ کر اورچونی جیب میں رکھ کرہم بھی جاپہنچے۔ زندگی میں پہلی بار تصویروں کو حرکت کرتے اور چلتے پھرتے دیکھا۔ صدرِپاکستان فیلڈمارشل محمدایوب خان نے، کوٹ پتلون پہن کر اور ٹائی باندھ کر اِس مرکز کا افتتاح کیا تھا۔ وزیرِ اطلاعات ونشریات خواجہ شہاب الدین سیاہ کوٹ پہنے اور سیاہ بو باندھے ہوئے اُن کے آگے پیچھے تیز تیز،تقریباً بھاگتے ہوئے، چل رہے تھے ۔ وہ بڑی تن دہی اور جاں فشانی سے پی ٹی وی، کراچی سینٹر کی زیر تکمیل عمارت کا معائنہ کروارہے تھے۔ افتتاحی پروگرام کے بعد جوسب سے پہلاپروگرام نشرہواوہ بچوں کے لیے تھا۔ یہ پرندوں کا بھیس بھرے ہوئے اداکاروں مشاعرہ تھا۔ پرندوں کا یہ مشاعرہ دیکھ کراتنامزہ آیا کہ بغیر بتائے گھر سے اتنی دیر تک غائب رہنے پر جو پٹائی ہوئی اُس سے بھی کرکرا نہیں ہوا۔
دین دارگھرانوں میں ٹیلی وِژن بھی ایک طویل مدت تک ’شیطانِ کبیر‘ سمجھا گیااوراسے دیکھنا’گناہِ کبیرہ‘۔ (ایسے معدودے چند دینی گھرانے تو شاید آج بھی پائے جاتے ہیں)۔ مگر رفتہ رفتہ یہ گرفت ڈھیلی پڑتی چلی گئی۔ محلے کے کسی ایک گھر میں بھی ٹیلی وِژن آجاتا تو ہرگھر کی خواتین اور بچے اُس کی زیارت کو پہنچ جاتے۔ طویل دورانیے کے دلچسپ ڈرامے رات گئے تک نشر ہوتے رہتے تھے۔ کئی گھرانے راتوں کو دیر دیر تک خواتین سے خالی رہتے۔ بہت روک ٹوک کی گئی مگر بے سود۔جب تک شہر میں ٹیلی وِژن عام اور ’رنگین‘ ہوا تب تک ہم بھی بڑے اور’سمجھ دار‘ ہوچکے تھے۔بزرگوں کے منہ آنے، اُن سے بحث کرنے اور زبان چلانے کی صلاحیت حاصل کرلی تھی۔سو،بار بار اِس قسم کے دلائل پیش کیے جاتے:
’’ آخر دینی اور تعلیمی پروگرام بھی تو نشرکیے جاتے ہیں۔حج کے مناظر دکھائے جاتے ہیں،حرم سے تراویح نشر ہوتی ہے۔ نیشنل جیوگرافک کی’ایمان افروز‘فلمیں دکھائی جاتی ہیں۔ ’شُنیدہ کَے بُودمانندِ دیدہ؟‘ فی زمانِنا سمعی اور بصری طریقۂ تعلیم کی اثر پذیری سے کیسے انکارکیاجاسکتاہے؟ زمانے سے باخبری کی دوڑ میں پیچھے رہ جانا آخر کہاں کی دین داری ہے؟ ہمیں کیا اچھے بُرے کی تمیز نہیں ہے؟ جن کو نہیں ہے اُن میں تمیز پیداکیجیے، مگر اِس مفید اور جدیدٹیکنالوجی سے استفادہ کی راہیں تو مسدود نہ کیجیے‘‘۔
پھربھی ہماری ایک نہ چلی۔جواب میں کہا جاتا:
’’جب یہ ’مفید ٹیکنالوجی‘ مفید لوگوں کے ہاتھ میں آجائے گی تب ہی ہمارے گھر میں داخل ہو پائے گی‘‘۔
مگرچلی تو یہاں بھی ایک ’عذرِ شرعی‘ کی ہی چلی۔ عذریہ تھا:
’’ خواتین اور بچے دوسروں کے گھر جاکر ٹیلی وِژن دیکھتے ہیں۔گھر خالی ہوجاتاہے۔ ڈرامادیر تک چلتا ہے۔ رات کا کھانا دیرسے پکتاہے۔ خاندانی نظام متاثرہوتاہے۔ پھر کسی اور کے گھر پر ہمارا کیا کنٹرول؟ اپنے گھر میں ٹیلی وِژن ہوگا تو کم ازکم اُس کی گُھنڈی گھما کراس پرہم اپناکنٹرول تو قائم کر سکیں گے۔ اہلِ خانہ صرف وہی پروگرام دیکھیں گے جو ہم اُنھیں دکھانا چاہیں گے‘‘۔
وہ توٹی وی دیکھنے پر پتا چلا کہ پروگراموں کے بیچ میں اشتہار بھی ہوتے ہیں۔ (اور اب تو اشتہاروں کے وقفے میں پروگرام نشر کیے جاتے ہیں)۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں اشتہارات کو دیکھنا ہی پڑے گا۔ ریموٹ کنٹرول توبعد میں آئے گا۔ فی الحال کون بارباراُٹھ کر ٹی وی کی گھنڈی گُھمائے۔کیا باربار آف آن کرنے سے اتناقیمتی سیٹ برباد نہیں ہوجائے گا؟(مگرریموٹ کنٹرول آنے کے بعد کون ساکنٹرول ہوگیا؟ بلکہ ابتدامیں پروگراموں پر جو کنٹرول تھا اب تو وہ بھی نہیں رہا )۔
اُسی زمانے کا ذکرہے۔ ہمارے گھر ہمارے خاندان کی ایک بزرگ خاتون تشریف لائیں۔ بڑھاپے نے اُن کی کمر دوہری کردی تھی۔ جب اُنھیں کسی اشدضرورت سے (مثلاً جاء نماز لینے کے لیے) اُس کمرے میں جانا پڑتا جہاں اجتماعی ’ٹی وی بینی‘ ہورہی ہوتی، تووہ جھکے جھکے چلتے ہوئے، کمرے میں داخل ہونے سے پہلے ایک لمباسا گھونگھٹ کاڑھ لیتیں۔ لوگ ان سادہ لوح بڑی بی کودیکھ دیکھ کر ہنستے رہتے۔ اُنھیں خاندان کے تمام افراد ’بوا‘ کہاکرتے تھے۔(’ بوا‘ہماری پُرانی تہذیب میں بڑی بہن،قابلِ احترام خاتون کو کہاجاتاتھا، جب کہ ہمارے ٹیلی وِژن کی لغات میں گھر کی نوکرانی کو کہاجانے لگا ہے، جس کا احترام کرنے کی کبھی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی گئی) ایک روزکسی نے بوا کو سمجھانے کی کوشش کی:’’ بوا!آپ جن لوگوں سے پردہ کرتی ہیں وہ محض بے جان تصویریں ہیں۔ وہ آپ کو نہیں دیکھ سکتے ‘‘۔
بوا بولیں:’’بے شک وہ ہم کونہیں دیکھ سکتے۔ مگر ہم تواُنھیں دیکھ سکتے ہیں۔ ہمارے لیے سب نامحرم ہیں۔ نامحرموں کو دیکھناگناہ ہے‘‘۔
یہ جنّتی بی بی تو مدت ہوئی جنت کو سدھارچکی ہیں۔اچھاہی ہوا۔ اب اُن کے پوتے پوتیاں اورنواسے نواسیاں کیبل کے چینل بدل بدل کر (اور انٹرنیٹ پر بھی) اِن ’بے جان تصویروں‘ کے وہ وہ مناظر دیکھتی ہیں جن کو دیکھ دیکھ کر مُردہ خواہشاتِ گُناہ میں بھی جان پڑ جاتی ہے۔
’’بِبیں تفاوتِ رہ ازکجاست تابہ کُجا؟‘‘ ۔۔۔ ’’دیکھو! کہ راہ سے انحراف کہاں سے شروع ہوا تھا اور کہاں تک جاپہنچا؟‘‘
مبنی بر حقائق تحریر ہے. میں 1960ء سے آج تک ریڈیو سے" ویلڈ" ہوں . 65ء کی جنگ میں نے فردوس سینما لالو کھیت کے وسیع و عریض میدان میں اپنے ہم عمر جوشیلوں کے ساتھ "دیکھی" سینما سے ملحق گلی میں ہماری رہائش تھی او ر نو تعمیر لیاقت صرافہ مارکیٹ میں دکان. گھر میں ریڈیو بھی تھا اور بعد میں ٹی وی بھی در انداز ہو گیا تھا جس کے بعد بوا جیسے رشتے داروں کی آمد بند ہو گئی تھی کہ اس گھر میں نامحرم گھس گئے ہیں.