ہوم << ہم کب تک ڈکٹیشن لیں گے-جاوید چوہدری

ہم کب تک ڈکٹیشن لیں گے-جاوید چوہدری

566527-JavedChaudhryNew-1469464911-239-640x480
فتح اللہ گولن مولویوں کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں‘ خاندان ارض روم کے شہر حسن قلعہ کے نواح میں آباد تھا‘ گاؤں کا نام کو روجک تھا‘ گاؤں کا موسم سال کے نو مہینے سرد رہتا تھا‘ برفیں بھی پڑتی تھیں اور ہڈیوں کا گودا جمانے والی ہوائیں بھی چلتی تھیں‘ گولن خاندان دنیاوی تعلیم کے خلاف تھا‘ یہ بچوں کو صرف دینی تعلیم دلاتے تھے‘ فتح اللہ گولن کو بھی مدارس کے حوالے کر دیا گیا‘ گولن دوران تعلیم بدیع الزماں سید النورسی کی تحریروں سے متاثر ہو گئے‘ سید النورسی 1877ء میں پیدا ہوئے اورمارچ1960ء میں انتقال فرما گئے‘ یہ مولانا رومؒ‘ امام غزالیؒ اور حضرت مجدد الف ثانیؒ سے متاثر تھے‘ یہ تینوں بزرگ دین کے ساتھ ساتھ دنیاوی تعلیم کے حامی تھے۔
مولانا رومؒ کی مثنوی کے 80 فیصد واقعات دنیا داری‘ علم اور سائنس سے متعلق ہیں‘ یہ روح اور بدن کے توازن کو مذہب سمجھتے ہیں‘ امام غزالیؒ دنیا کے پہلے اسکالر تھے جنہوں نے علم کو دینی اور دنیاوی دو حصوں میں تقسیم کیا‘ دنیا نے اس تقسیم کو تسلیم کر لیا‘ دنیا میں بجٹ کا تصور بھی امام غزالیؒ نے دیا‘ ان کا کہنا تھا شہریوں کو حکومت‘ دفاع اور مذہب کے ساتھ ساتھ تعلیم‘ صحت اور اچھا معیار زندگی دینا بھی ریاست کی ذمے داری ہوتی ہے‘ وہ بھی علم کے معاملے میں توازن کے قائل تھے جب کہ حضرت مجدد الف ثانیؒ ایسی ہستی تھے جو دنیا میں ہزار سال بعد پیدا ہوتی ہے‘ یہ شیخ سرہندی کہلاتے ہیں‘ آپ ’’نان پریکٹیکل‘‘ صوفی کو صوفی نہیں مانتے تھے‘ آپ فرماتے تھے جو تصوف صوفی کو بے کار کر دے وہ تصوف کے بجائے دماغی خلل ہوتا ہے۔
سیدالنورسی ان تینوں بزرگوں سے متاثر تھے‘ یہ تاثر فتح اللہ گولن میں شفٹ ہو گیا اور یہ مدرسے کے طالب علم ہونے کے باوجود فزکس‘ کیمسٹری‘ بیالوجی اور ریاضی میں دلچسپی لینے لگے‘ یہ تصوف کے راستے پر بھی چل پڑے‘ اللہ تعالیٰ نے انھیں تاثیر‘ محبت اور ابلاغ کی نعمتیں دے رکھی ہیں چنانچہ یہ لڑکپن ہی میں مشہور ہو گئے‘ فتح اللہ گولن کو تصوف اور جدید علوم پڑھنے کے دوران محسوس ہوا اللہ تعالیٰ کا پورا نظام خدمت پر مبنی ہے‘ ساری کائنات انسان کی خدمت کر رہی ہے‘ خدمت دنیا کی سب سے بڑی عبادت ہے‘ گولن نے محسوس کیا سائنس دان انسانیت کے خادم ہوتے ہیں اور یہ خدمت کی وجہ سے اللہ تعالیٰ کے سب سے بڑے عبادت گزار بن جاتے ہیں‘ یہ وہ نقطہ تھا جس نے گولن کو پریکٹیکل صوفی بنا دیا‘ یہ خدمت میں جت گئے‘ ان کا کہنا تھا آپ خادم بن جائیں آپ اللہ تعالیٰ تک پہنچ جائیں گے‘ یہ سائنسی شعبوں میں تحقیق کو بھی عبادت کا درجہ دیتے ہیں۔
گولن کے بچپن اور جوانی کا ترکی خوفناک حد تک سیکولر تھا‘ اذان‘ قرآن مجید کی اشاعت‘ نماز‘ عربی زبان‘ حجاب حتیٰ کہ اسلام علیکم تک پر پابندی تھی‘ گولن مذہبی شدت پسندی اور سیکولرازم دونوں کے خلاف تھے‘ یہ اسلام کو توازن سمجھتے ہیں چنانچہ انھوں نے تصوف کے تیشے سے سیکولرازم کے بت کو نشانہ بنانے کا فیصلہ کیا‘ گولن نے 1960ء میں خدمت کے نام سے اپنی سماجی تحریک شروع کی‘ ترک زبان میں د کو ز پڑھا جاتا ہے چنانچہ گولن کی خدمت تحریک ترکی میں حزمت تحریک کے نام سے مشہور ہوئی‘ حزمت تحریک نے آہستہ آہستہ سیکولرازم کو توڑنا شروع کر دیا‘ تصوف ترک معاشرے کے خمیر میں شامل ہے‘ اتاترک نے کامیابی سے اسلام پر پابندی لگا دی تھی لیکن یہ پوری کوشش کے باوجود ترک معاشرے سے تصوف کو خارج نہ کر سکے‘ گولن نے حکومت کی اس کمزوری کا فائدہ اٹھایا‘ یہ اپنی صوفیانہ تحریک کے ذریعے معاشرے میں اسلام پھیلانے لگے۔
گولن کی کوشش زیادہ دنوں تک پوشیدہ نہ رہ سکی چنانچہ یہ 21 مارچ 1971ء کو گرفتار کر لیے گئے لیکن یہ جلد ہی رہا ہو گئے‘ یہ 1970ء سے 1990ء تک پورے ملک میں مشہور ہو گئے‘ ان کی کتابیں آئیں‘ دھڑا دھڑ بکیں‘ ان کے ترجمے ہوئے اور ان کی شہرت ملکی حدود سے باہر نکل گئی‘ دسمبر 1991ء میں سوویت یونین ٹوٹ گیا‘ گولن نے اسے دنیا کا خوفناک ترین واقعہ قرار دیا‘ ان کا کہنا تھا عیسائی دنیا 1990ء تک روس سے لڑ رہی تھی‘ یہ فارغ ہو چکی ہے‘ دنیا میں اب اس کا ایک ہی ٹارگٹ ہو گا اور وہ ٹارگٹ ہے اسلام اور اسلامی ملک‘ گولن نے اس خطرے کو محسوس کر کے گولن تحریک شروع کر دی‘ یہ تحریک تعلیم‘ ادراک اور اسلامی تشخص کی بحالی پر مبنی تھی‘ دنیا بھر میں پھیلے ترکش بزنس مینوں نے گولن کی مدد کی اور یہ لوگ پہلے ترکی اور بعد ازاں اسلامی ممالک میں اسکول بنانے لگے‘ یہ ماڈرن اسکول ہیں‘ ان اسکولوں میں طالب علموں کو جدید تعلیم دی جاتی ہے۔
ترک حکومتوں نے کئی بار گولن اسکولوں کے سلیبس کا تجزیہ کیا اور ہر بار انھیں اپنا مشن جاری رکھنے کی اجازت دے دی‘ یہ اسکول کامیاب ہو گئے‘ پاکستان میں اپریل 1995 ء میں گولن تحریک نے اسلام آباد میں پہلا اسکول شروع کیا‘ یہ اسکول مقامی ڈونرز کی مدد سے کھلا اور یہ دیکھتے ہی دیکھتے کامیاب ہو گیا‘ اس کے بعد چل سو چل‘ آج پاکستان میں 28 پاک ترک اسکول ہیں‘ ان تعلیمی اداروں میں گیارہ سے تیرہ ہزار پاکستانی بچے پڑھ رہے ہیں‘ اساتذہ کی تعداد 1500 ہے‘ یہ استاد بھی پاکستانی ہیں‘ ترک اسٹاف صرف 123 لوگوں پر مشتمل ہے‘ اسکولوں کے ڈونر پاکستانی ہیں‘ اسکول چلانے والی کمپنی پاکستان میں رجسٹرڈ ہے اور یہ لوگ پاکستانی قواعد کے مطابق ٹیکس بھی دیتے ہیں لیکن یہ اسکول اس کے باوجود بندش کے قریب ہیں‘ کیوں؟کیونکہ میاں برادران کے دوست طیب اردگان ان اسکولوں کے دروازوں پر تالہ دیکھنا چاہتے ہیں۔
ترکی کے 15 جولائی کے انقلاب نے صرف ترکی کو تباہ نہیں کیا بلکہ یہ اب دوسرے اسلامی ملکوں کو بھی لپیٹ میں لے رہا ہے‘ طیب اردگان روزانہ کی بنیاد پر ’’سویلین ڈکٹیٹر‘‘ ثابت ہو رہے ہیں‘ یہ 1684آرمی کے آفیسر کو فارغ کر چکے ہیں‘ ان میں 149فوجی جرنیل بھی ہیں‘ پولیس کے 8000‘ عدلیہ کے2745جج اور سول بیورو کریسی کے سیکڑوں اہلکار نوکریوں سے برخاست ہو چکے ہیں ‘ حکومت نے یونیورسٹیوں کے 1577 ڈینز اور پروفیسر بھی نکال دیے ہیں‘ درجنوںوائس چانسلرز بھی ہدف بن چکے ہیں‘ میڈیا کے سیکڑوں کارکن بھی نشانہ بنے‘ تین نیوز ایجنسیاں‘45 اخبارات‘15 جریدے‘16 ٹیلی ویژن چینلز‘ 23 ریڈیو اسٹیشنز اور 29 پبلشروں کے خلاف کارروائی شروع ہو چکی ہے‘ہزاروں صنعت کار‘ تاجر اور سرمایہ کار بھی زد میں ہیں‘ حکومت نے تین دن قبل 55 ہزار لوگوں کے پاسپورٹ بھی منسوخ کر دیے۔
ترکی میں  سیاحت‘ انڈسٹری‘ افواج‘ بیورو کریسی‘ عدالتیں‘ تعلیمی ادارے اور شہری زندگی مفلوج ہو چکی ہے لیکن اس کے باوجود طیب اردگان کی آتش انتقام سرد نہیں ہو رہی‘ یہ 15 جولائی کی رات جھومنے والے درخت تک کاٹ دینا چاہتے ہیں‘ آپ اردگان کی دماغی حالت ملاحظہ کیجیے‘ انھوں نے پاک ترک اسکول بند کرانے کے لیے اپنا وزیر خارجہ پاکستان بھجوا دیا‘ یہ دنیا کی پہلی مثال ہے جس میں کسی ملک نے اسکول بند کرانے کے لیے اپنا وزیر خارجہ دوسرے ملک بھجوایا ہو اور دوسرے ملک نے یہ غیر سفارتی‘ غیر اخلاقی اور غیر قانونی مطالبہ مان لیا ہو‘ کیا یہ حد نہیں!
ہمیں ترکی سے کوئی غرض نہیں‘ وہ آزاد اور خود مختار ملک ہے‘ وہ لوگ جرنیلوں کو سرعام جوتے ماریں یا اپنے استادوں کے گلوں میں جوتے باندھ دیں‘ یہ لوگ فتح اللہ گولن کو ’’مفکر ترکی‘‘ قرار دے دیں یا پھر غدار ڈکلیئر کر دیں ہمیں کوئی اعتراض نہیں‘ ہم نے صرف اپنا ملک دیکھنا ہے‘ ہم نے ترکی کو بس یہ بتانا ہے آپ اگر آزاد ہیں‘ آپ اگر خود مختار ہیں تو ہم بھی ایک خود مختار اور آزاد ملک ہیں‘ ہم آپ کی ڈکٹیشن کے لیے تیار نہیں ہیں‘ یہ اسکول ہمارے اسکول ہیں‘ یہ پاکستان میں رجسٹرڈ ہیں‘ ان میں پاکستانی استاد پڑھاتے اور پاکستانی طالب علم پڑھتے ہیں۔
اسکول کی فنڈنگ بھی پاکستانی لوگ کرتے ہیں چنانچہ ہم یہ اسکول کسی دوسرے ملک کی ڈکٹیشن پر بند نہیں کریں گے‘ ہمیں بہرحال دنیا کو یہ بتانا ہوگا پاکستان خود مختار جوہری ملک ہے‘ ہم کسی کو ڈکٹیشن دیتے ہیں اور نہ ہی لیتے ہیں‘ خدا کی پناہ کیا یہ ہم پاکستانیوں کے لیے ڈوب مرنے کا مقام نہیں‘ ہمیں چارلی ولسن حکم دے کر سوویت یونین کے خلاف کھڑا کر دیتا ہے‘ ہمارے ہزاروں لوگ شہید ہوجاتے ہیں‘ ہمیں رچرڈ آرمٹیج فون کر کے طالبان سے لڑا دیتا ہے‘ ہم 2016ء تک لاشیں اٹھاتے رہتے ہیں‘ ہمیں کبھی افغانستان دھمکی دے دیتا ہے‘ کبھی ایران اور کبھی بھارت اور اب برادر اسلامی ملک ترکی بھی پیچھے نہیں رہا‘ اس نے اسکول بند کرانے کے لیے اپنا وزیر خارجہ بھجوا دیا‘ ہم کب تک یہ ڈکٹیشنز لیتے رہیں گے‘ ہم کب جاگیں گے‘ ہم دنیا کو کب جواب دیں گے اور ہم کب خود کو آزاد اور خود مختار قوم سمجھیں گے ۔
آج کا پاکستانی اپنی حکومت سے یہ تمام سوال پوچھ رہا ہے‘ پاکستانی عوام اپنے محبوب لیڈر میاں نواز شریف سے جواب چاہتے ہیں۔