ہوم << اس سے پہلے کہ لوگ فیصلے کرنے لگیں-اوریا مقبول جان

اس سے پہلے کہ لوگ فیصلے کرنے لگیں-اوریا مقبول جان

orya
یہ اس ملک کی عدالت کا فیصلہ ہے جو گزشتہ دو دہائیوں سے عالمی برادری میں ایک مہذب ملک کی حیثیت سے داخل ہوا ہے۔ اس سے پہلے اس کی پہچان ایک متعصب اور رنگ و نسل کی برتری پر قائم حکومت کی حیثیت سے تھی۔ تقریباً تین ہزار سال سے یہ علاقہ سیاہ فام افراد کا مسکن ہے۔ سیاہ فام لوگوں کی جدوجہد آزادی بہت طویل اور خونچکاں ہے جس کی کوکھ سے نیلسن منڈیلا جیسے رہنما نے جنم لیا جو بیسویں صدی میں انسانی برابری، مظلوموں کی ظالموں سے نجات اور نسلی تعصب کے خلاف جدوجہد کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ وہ ملک جہاں کبھی سیاہ فام لوگ گوروں کے ساتھ ایک سڑک پر پیدل بھی نہیں چل سکتے تھے وہاں سیاہ فام کی اکثریت کی حکومت قائم ہو گئی۔
اسی جنوبی افریقہ کی اعلیٰ آئینی عدالت میں 9 فروری 2016ء کو ایک مقدمے کا آغاز ہوا جس کا فیصلہ انھوں نے 31 مارچ 2016ء کو سنایا۔ یہ فیصلہ حکمرانوں کی کرپشن، اختیار کے ناجائز استعمال اور سرکاری وسائل کا اپنی ذات پر استعمال جیسے جرائم کے خلاف اعلیٰ عدلیہ کے اس اختیار کی علامت ہے جو کہ حکمرانوں کو قانون کی نکیل ڈالتا ہے۔ ایسے حکمران جو سب کے سب اگر کرپشن کے لیے آپس میں سمجھوتہ بھی کرلیں تو اعلیٰ عدالت انھیں کٹہرے میں لاکر کھڑا کردیتی ہے۔ چونکہ یہ فیصلہ مملکت کے صدر اور قومی اسمبلی کے اسپیکر کے خلاف ہے‘ اسی لیے عدالت نے فیصلے کے آغاز میں لکھا ہے کہ ہمارا آئین کچھ اقدار و اخلاقیات کی بنیاد پر تحریر کیا گیا ہے اور ان میں احتساب، قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی بنیادی اقدار ہیں۔ اگر عوامی نمایندے ان تینوں اقدار پر عمل پیرا نہ ہوں تو عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے کہ وہ انھیں کٹہرے میں لاکر کھڑا کرے اور احتساب کے ذریعے قانون کی حکمرانی اور آئین کی بالادستی قائم کرے۔
جنوبی افریقہ کے بہت سے عوام اور صرف ایک رکن اسمبلی ‘قومی محافظ (Public Protector) کے پاس ایک درخواست لے کر گئے کہ صدر کنڈلا (NKANDLA) نے اپنی ذاتی رہائش گاہ پر سیکیورٹی کے نام پر ایسے کام کروائے ہیں جن کا کوئی تعلق سیکیورٹی کے ساتھ نہیں ہے۔ قومی محافظ نے تحقیق اور تفتیش شروع کی اور اس نتیجے پر پہنچا کہ صدر اور اس کے خاندان نے سیکیورٹی کے نام پر اپنے ذاتی گھر پر بے تحاشہ اخراجات سرکاری خزانے سے کروائے۔ اس نے فوری طور پر صدر کو نوٹس بھیجا، جس میں کہا وہ فوراً اپنے ذاتی گھر میں سرکاری خزانے سے بنائے جانے والی ان عمارتوں کی لاگت قومی خزانے میں جمع کرائے۔
(1) گھر کے باہر ملاقاتیوں کا ہال۔ (2) گھر کے اندر ایک چھوٹا سا سینما۔ (3) مویشیوں کا جدید باڑہ۔ (4) مرغیوں کے لیے فارم اور (5) سوئمنگ پول۔۔۔ اس کے علاوہ وہ جرمانے کے طور پر پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کو کچھ فیصد مزید رقم ادا کرے کہ اس نے اس محکمے کو ذاتی کام میں الجھائے رکھا۔ ورکس کے وزیر کو سزا دے‘ جس نے بلاچون و چرا یہ کام کروائے اور کوئی احتجاج نہیں کیا۔ قومی محافظ نے کہا کہ یہ سب کام کرنے کے بعد چودہ دن کے اندر معاملے کو قومی اسمبلی میں رپورٹ کرے۔ صدر نے قومی محافظ کی ہدایت پر عمل کرنے کے بجائے چودہ دن کے اندر معاملہ قومی اسمبلی کو بھیج دیا۔ یہاں سے ایک ایسا کھیل شروع ہوا جس میں تمام جمہوری قائدین اپنے ساتھی کی کرپشن کا دفاع کرنے کے لیے اکٹھا ہوگئے۔ قومی اسمبلی نے دو ایڈہاک کمیٹیاں بنائیں جو قومی محافظ کی رپورٹ اور باقی عوام کی رپورٹوں پر جائزہ لیں گی۔ ان کمیٹیوں کا سربراہ وزیر پولیس کو مقرر کیا گیا۔ اس نے پانچ ماہ معاملے کو لٹکایا اور پھر ایک رپورٹ پیش کی کہ صدر نے ایسا کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اسمبلی نے اجلاس بلایا اور ایک قرارداد پاس کرکے صدر کو ان تمام الزامات سے بری قرار دے دیا۔
یہاں سے عدالت عالیہ کے سامنے اس بحث کا آغاز ہوا کہ قومی اسمبلی اگر ایک شخص کو جرم سے بری قرار دے دیتی ہے تو کیا پھر بھی عدالت عالیہ کو یہ اختیار حاصل ہے کہ ملزم کو کٹہرے میں لاکرکھڑا کرے۔ عدالت نے ابتدائی بحث کے بعد یہ فیصلہ سنایا کہ پوری کی پوری اسمبلی بھی اگر ایک ملزم، بددیانت اور کرپٹ شخص کو بچانے کے لیے قانون سازی کرے، تو ایسے میں عدالت آئین کی روح ’’قانون کی حکمرانی‘‘ کو قائم کرنے کے لیے ملزم کو کٹہرے میں لاسکتی ہے۔ جیسے ہی کیس شروع ہوا صدر نے ملبہ کسی جونیئر وزیر کے سرپر ڈالنے کے لیے ایک حکمنامہ جاری کیا کہ وہ پبلک ورکس کے وزیر کو اس کا ذمے دار ٹھہراتا ہے جس نے اس کی خواہش کے بغیر اس کے ذاتی گھر میں یہ سب کام کروائے اور پھر اس نے اس کے خلاف انکوائری کا حکم دے دیا۔
بالکل اسی طرح جب ماڈل ٹاؤن لاہور میں چودہ افراد کو قتل کیا گیا تو وزیراعلیٰ شہباز شریف نے ذمے داری ایک وزیر اور ایک سیکریٹری پرڈال کر معاملہ عدالت سے دور کرنے کی کوشش کی ۔ لیکن جنوبی افریقہ کی عدالت نے تاریخی الفاظ کہے کہ ’’ہماری بنیادی ذمے داری ہے کہ ہم یہ فیصلہ کریںکہ پارلیمنٹ یا صدر آئین کے مطابق کام کررہے ہیں یا نہیں۔ اس کے بعد بحث کا آغاز ہوا اور عدالت عالیہ نے باون (52) صفحات پر مشتمل فیصلہ تحریر کرتے ہوئے کہا (1) اس عدالت کو مکمل اختیار حاصل ہے کہ وہ عوام کے ایک گروہ اکنامک فریڈم فائٹر کی صدر اور قومی اسمبلی کے خلاف درخواست سنے اور انھیں براہ راست ملک کی سب سے بڑی عدالت سے رجوع کرنے کے اقدام کو مستحسن جانتی ہے۔ (2) قومی محافظ نے جو حکمنامہ صدر کو تھمایا، آئینی طور پر صدر کے لیے اس پر عمل کرنا لازمی ہے۔
(3) صدر کا ایسا نہ کرنا آئینی طور پر ایک جرم ہے۔ (4) قومی خزانے کا سربراہ فوری طور پر ان تمام عمارتوں کی لاگت معلوم کرے اور پھر اسے صدر سے وصول کرے اور وہ یہ سب کرنے کے بعد 60 دنوں میں عدالت کو رپورٹ کرے۔ (5)صدر ذاتی طور پر یہ قیمت ادا کرے اور وہ قومی خزانے کے سربراہ کی رپورٹ کے 45 دن کے اندر ایسا کرے۔ (6) قومی اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد جس میں انھوں نے صدر کو اس جرم سے بری قرار دیا ہے وہ آئینی طور پر لایعنی ہے اور عدالت اسے ختم کرتی ہے۔ (7) صدر‘ وزیر پولیس اور قومی اسمبلی کے تمام ممبران مل کر ان تمام درخواستوں کی لاگت بھی مدعین کو دیں اور ان دو وکیلوں کی فیس بھی ادا کریں جو انھوں نے اس مقدمے کے دوران رکھیں۔گویا یہ سب کے سب مجرم ہیں۔
جمہوریت کے علمبردار اور پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے روز چار وکیلوں کو ساتھ لے کر ٹیلی ویژن چینلوں پر بیٹھ کر پارلیمنٹ کی بالادستی کا رونا رونے والے ایک مہم چلائے ہوئے ہیں کہ عدالت تو پارلیمنٹ کے ماتحت ہوتی ہے۔ پارلیمنٹ کو اختیار ہے جو چاہے سو کرے، جس مجرم کو چاہے معاف کرے، جس چور کو چاہے پناہ دے۔ اگر ایسا ہے تو پھر آئین میں رکھی گئی وہ تمام دفعات کھرچ کر سمندر میں پھینک دو جن میں قانون کی بالادستی، انصاف، قانون کی نظر میں سب کی برابری جیسے اعلیٰ اور ارفع اصول وضع کیے گئے تھے اور ہاں ایک کام اور بھی کریں کہ آئین پاکستان سے سپریم کورٹ کے لیے 184(3) کے تحت اور ہائی کورٹ کے لیے 199 کے تحت سوؤ موٹو اختیارات کا بھی خاتمہ کردیںکیونکہ اگر ان کے نزدیک یہ اختیار استعمال کرنا ہی اس قدر مکروہ ہے تو پھر اس کی آئین میں ضرورت کیا ہے۔ لیکن اگر یہ دونوں آرٹیکل آئین کے اندر موجود ہیں تو پھر کیا عدالت عالیہ اور عدالت عظمیٰ کے علم میں نہیں ہے کہ اس پاکستان میں سیاستدانوں کا ایک دوسرے مجرموں، بددیانتوں، چوروں اور وسائل لوٹنے والوں کے تحفظ کے لیے گٹھ جوڑ ہوچکا ہے۔
جیسے جنوبی افریقہ میں ہوا تھا۔ لیکن وہاں لوگ خاموش نہیں رہے تھے۔ عدالت کے دروازے تک جاپہنچے تھے۔ ہمارے ہاں بھی لوگ روز عدالت کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہیں۔لیکن عدالت کی طرف سے طویل خاموشی ہے کیونکہ میرے ملک کے چند عظیم دانشوروں، مفاد پرست وکیلوں اور بددیانت سیاست دانوں نے صرف میڈیا کی حد تک ایک ماحول بنایا ہوا ہے کہ عدالت نے اگر کسی رکن اسمبلی یا پوری اسمبلی کو کٹہرے میںلا کھڑا کیا تو جمہوریت ختم ہوجائے گی۔ اگر جمہوریت وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کے گھر جانے پر ختم نہ ہوئی تو پوری اسمبلی کے گھر بھیجنے پر بھی نہیں ہوگی۔ شرط یہ ہے کوئی ان سیاستدانوں کو بلا کر پوچھے تو سہی کہ تم روز کرپشن، قتل و غارت اور بددیانتی کا دفاع کیوں کرتے ہو۔ جب تک آئین میں سوؤموٹو ہے۔ عدالت کو یہ اختیار حاصل ہے۔ فیصلے کرو، اس سے پہلے کہ لوگ فیصلے کرنے لگیں۔