1857 میں دِلّی لُٹی۔ 1877 میں اقبال پیدا ہوئے۔یعنی صرف بیس سال بعد۔گویا مسلمانوں کا بچا کھچا احساس برتری بھی خاک ہوچکاتھا۔اور اب’’پدرم سلطان بود ‘‘کا زمانہ چل رہاتھا۔اقبال کے والد شیخ نُور محمد ہاتھ سے محنت کرکے رزقِ حلال کمانے والے ، ایک صوفی منش انسان تھے۔تصوف اور روحانیت سے اس قدر لگاؤ تھا کہ اپنے ہاں شیخِ اکبر ابن عربی کی فتوحاتِ مکیہ اورفصوص الحکم کے دروس منعقد کرواتے۔سادہ لباس، سادہ زندگی اور گہرے روحانی ماحول میں اقبال نے پرورش پائی۔
کہتے ہیں ، بچپن میں ایک مرتبہ اقبال تلاوت کررہےتھے تو والدکا گزرہوا۔والد نے پوچھا، ’’کیا کررہے ہو؟‘‘ ۔ بتایا کہ ، ’’تلاوت کررہاہوں‘‘۔ والد نے فرمایا، ’’تلاوت کا اُس وقت تک کوئی فائدہ نہیں، جب تک تلاوت اس طرح نہ کی جائے کہ جیسے قران آپ کے دل پر نازل ہورہاہے۔‘‘ اقبال اس بات سے اتنے متاثر ہوئے کہ تمام عمر اسے اپنی زندگی کا وطیرہ بنائےرکھا۔ اور پھر ایک لازوال شعر بھی کہا،
ترے ضمیر پہ جب تک نہ ہو نزولِ کتاب
گرہ کشا ہے ، نہ رازی، نہ صاحبِ کشّاف
سو، اس طرح کا بچپن گزارنےوالا ایک نابغہ، جو سقوطِ دلّی کے بیس سال بعد پیدا ہوا، وہ کیونکر علامہ اقبال نہ بنتا؟ وہ کیونکر اپنی تہذیبی شناخت کے تحفظ اوربقاکی جنگ نہ لڑتا؟ وہ کیونکر مسلمانانِ ہند کو مایوسی کے دلدل میں گرنے سے نہ بچاتا؟ اس پر مستزاد وہ نہ صرف فلسفے کا طالب تھا، بلکہ خود بھی ایک مکمل اور کامل فلسفی تھا۔ایک ایسا فلسفی جو اپنے وقت کے تمام تراَرسطاطیلیسی (Aristotelian) فلسفے کے سامنے کھڑا ہوگیا۔مغرب میں برگسان اور مشرق میں اقبال نے تخلیقی ارتقأ کے تحفظ کا معرکہ لڑا اور وجودیت کے گہرے کنویں میں گرے مایوس انسانوں کو واپس زندگی کی طرف لوٹ آنے کا مشورہ دیا۔
اقبال کی شناخت پر اکثرسوال اُٹھایا جاتاہے۔ کوئی کہتا ہے وہ شاعر تھا۔ کوئی کہتاہے وہ فلسفی تھا۔ مخالفین کہتے ہیں وہ محض ایک متکلم تھا۔سیاست کے طلبہ کہتے ہیں وہ اپنی قوم کا معلم تھا۔ لیکن مجھ سے آپ پوچھیں تو میں کہوں گا اقبال کی پہچان ایک ہی ہے، اور وہ ہے، عشق۔ اقبال عاشق ِ صدق دِل تھا۔ وہ سرتاپا عشق ہے۔ایک وجد کے ساتھ عشق کے نغمے گانے والا وہ بلبلِ حجاز رسولِ اطہرصلی اللہ علیہ والہ وسلم کے عشق سے سرشارتھا۔بس یہی اقبال کی واحدشناخت ہے۔باقی تمام شناختیں یعنی شاعر، فلسفی، سیاستدان، وکیل، معلم ، حکیم وغیرہ اِسی ایک شناخت کی مختلف تشریحات ہیں۔اور سچ پوچھیں تو اس شناخت کے بعد کسی اور شناخت کی ضرورت بھی کب رہتی ہے؟اور یہ شناخت اُس نے ہم بے نشانوں کو بھی بار بار یادکرائی۔
اپنی ملّت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمیؐ
مجھ سے اکثرسوال کیا جاتاہے کہ عہدِ حاضر میں اقبال کی ریلیوینس کیا ہے؟ میں کہاکرتاہوں، ’’یہ دور شناختیں گم کرنے کا دور ہے۔ یہاں شناختوں کو ٹیبوز اورمہابیانیے کہا جاتااور انسانیت کے لیے مضر سمجھا جاتاہے۔یہ سوچ کتنی تباہ کُن ہے، اس کا اندازہ ترقی پذیر معاشروں کو نہیں ہوسکتا۔ اس کا اندازہ صرف اُن کو ہوسکتاہے، جن معاشروں نے اپنی شناختیں گم کردی ہیں۔ جہاں دوسری (باشناخت) اقوام آکر آباد ہورہی ہیں اور پچھلی اقوام کو آہستہ آہستہ ’’ری پلیس‘‘ کررہی ہیں۔ایسی ہرقوم کے ہرفرد کو اقبال کے ’’اسرارورموز‘‘ کی ضرورت ہے۔‘‘
مابعد جدیدیت کا یہ نعرہ کہ شناختیں ایک عالمگیر انسانی معاشرے کے راستے کی رکاوٹ ہیں، اس لیے درست نہیں، کیونکہ اپنی کُنہ میں یہ وہی عالمگیر محبت ہے جس کا سبق ہزاروں سال پہلے مہاتما بُدھ نے ہمیں رٹوایا تھا۔ یہ وحدت الوجود کی وہی قاتل قسم ہے جس میں خدائے شخصی کا وجود مفقود ہوجاتاہے۔ یہ وہی ’’ہارمنی اور حلُول کا سبق ‘‘ ہے جو معاشروں کو کائنات کے وجودی محلول میں ضم کردیتاہے۔ جس کا لازمی نتیجہ انسانیت کا خاتمہ ہے۔
مختصراً یہ عرض کرونگا کہ بطور انسان آپ کے لیے اقبال کی اسرارِ خودی، بطور مسلمان آپ کے لیے اقبال کی ’’دی ری کنسٹرکشن‘‘ اور بطور پاکستانی آپ کے لیے اقبال کی رموزِ بے خودی اور بالِ جبریل پڑھنا بے حد ضروری ہے۔ ضروری ہے کہ ہربچی کو جہیز میں یہ کتابیں دی جائیں۔ ضروری ہے کہ ہربچے کو بچپن میں ہی ان کتابوں کے نام بتاکراِن سے زندگی کے اسباق پڑھنے کا شوق اجاگر کردیا جائے۔ ضروری ہے کہ ہر پڑھے لکھے شخص کو یہ کتب بار بار پڑھنی چاہییں۔
تبصرہ لکھیے