ہوم << محافظ آنکھیں - راحیلہ خان

محافظ آنکھیں - راحیلہ خان

جیسے ہی گھر سے باہر قدم نکالا، پیچھے دو آنکھیں نگران بنتی محسوس ہوئیں، مگر یونیورسٹی جاتی فاطمہ کو پتہ تھا. یہ آنکھیں اس کی محافظ سپاہی ہیں اور اس وقت تک اس کا حفاظتی پہرہ دیں گی جب تک وہ گلی میں ہے جیسے ہی وہ گلی پار کرے گی۔

پھر اس کی محافظت کا فریضہ ان دعاؤں کو کرنا ہے، جو ان آنکھوں نے رو رو کر اللہ کے حضور بڑے خشوع وخضوع سے مانگی ہیں۔ (ان نگاہوں نے شاہد یہ پیش گوئی سن رکھی تھی کہ جہاں تک نظر جائے وہاں تک باہر جاتے بچے کو دیکھا جائے تو جانے والا صحیح سلامت واپس آتا ہے۔)

تکتی نگاہوں کا یہ تعاقب روز کا معمول تھا واپسی کے وقت بھی فاطمہ اور اس کے بہن بھائی ان دو آنکھوں کے حصار میں ہوتے، پتہ نہیں کیسے ان آنکھوں کو ان کے گلی میں آتے ہی خبر ہوجاتی، ان آنکھوں کا بس چلتا تو گلی کے باہر تک ساتھ جاتیں مگر یہ ممکن نہیں تھا اس لئے اسی پے اکتفا کیا گیا تھا۔ درحقیقت آنکھوں کا یہ سفر گلی تک ختم نہیں ہوتا بلکہ ٹھیک اسی وقت یہ آنکھیں کال کرتی جب فاطمہ یونیورسٹی پہنچ جاتی۔ جیسے ہی فاطمہ خیریت کا مرثیہ سناتی، تو یہ آنکھیں شکر الحمدللہ بجا لاتیں۔

مگر یہ آنکھیں سیراب ہو کر پُرسکون اس وقت ہی ہوتی جب فاطمہ اور اس کے دیگر بہن بھائی واپس نگاہوں میں آتے ۔

مگر ان آنکھوں کی نگہبانی یہاں ختم نہیں ہوتی، بلکہ فاطمہ اور اس کے بہن بھائی گھر میں ہر وقت ان نگاہوں کی گرمی محسوس کرتے، یہ نگاہیں کوئی معمولی پاسبان نہیں تھی بلکہ ایکسرے مشین تھیں، دکھ کی معمولی پرچھائی کو بھی دیکھ لیتی، اداسی کا پتہ دور سے لگا لیتی اور اسی طرح خوشی کی رمق بھی محسوس کرلیتی۔ ان نگاہوں سے کچھ بھی چھپانا عبث تھا۔

یہ نگاہیں کسی تھانے دار کی طرح دبنگ بھی تھیں کہ کسی رشتہ دار، دوست احباب یا پڑوس میں سے بچوں کو کچھ سخت کہنے یا بچوں کے خلاف کرنے کا موقع نہیں دیتی، لوگ ان نگاہوں کی تپش سے ہی گھبرا جاتے اور فاطمہ اور اس کے بہن بھائیوں کے خلاف کوئی کچھ نہ کرپاتا۔

یہ نگاہیں اتنی سگھڑ اور تہذیب یافتہ تھیں کہ کب مہانوں کے سامنے آنا ہے اور کتنا وقت بیٹھا ،اور پھر اٹھنا یہاں تک کہ نگاہیں مہانوں کے سامنے کھانے سے بھی روک کے رکھتیں۔

لباس کیسا ہونا چاہیے۔ کب دوپٹہ درست کرنا ضروری ہوگیا ہے اور کب بولنا اور کب خاموش ہونا ہے۔ یہ فیصلہ یہ آنکھیں ہی کرتیں۔ ان نگاہوں کی ڈانٹ بڑی سخت تھی۔ رگ و پے میں سرایت کر جاتی۔

یہ نگاہیں کبھی کبھار آئی ایم ایف کا بھی رول ادا کرتی اور ہر پسندیدہ چیز کو فضول کہہ کر خریدنے پر ٹوک لگادیتی اور کبھی خود فاطمہ کی پسندیدہ چیز جو فاطمہ نے کسی کو بتائی بھی نہیں ہوتیں لادیتیں، اور کبھی تو یہ آنکھیں ڈاکٹر بن جاتیں اور اس جگہ ہی جسم پر ہاتھ رکھتی جس جگہ تکلیف ہوتیں۔

مگر یہ گھورتی نگاہیں آدھی راتوں کو اشکوں میں بدل جاتی۔ جب کبھی فاطمہ کسی ضرورت سے رات کو جاگتی تو ان آنکھوں کو سجدہ ریز پاتی۔

ان آنکھوں کی طاقت کے سائے تلے فاطمہ رخصت ہو کر پیا گھر سدھار گئی۔ اللہ نے اسے بھی معصوم پری سے نوازا۔ یہ پری جب اپنے چھوٹے چھوٹے قدم اٹھاتی تو فاطمہ کی نگاہیں خود بخود نگہبان آنکھوں کی وراث بن جاتی۔

گویا تاریخ اپنے آپ کو دوہرانے لگی تھی۔ صبح صبح ابھی گھر کے کام شروع ہوئے کچھ ہی وقت ہوا تھا کہ پڑوس کی چار سالہ منی کے تلاش کرنے کا شور سنائی دیا، فاطمہ کا دل جیسا رک گیا بھلا چار سال کی منی کیسے کہاں جاسکتی ہے۔ فاطمہ فورآ ہی پڑوس میں گئی جہاں کہرام مچا ہوا تھا۔ ہر کسی کے پاس ایک ہی سوال تھا کہ کیسے منی غائب ہوئی۔ وہ بھی گھر سے، اسی دوران دو سوتی سوتی سی نگاہوں نے بتایا کہ اسکول جانے والے بچوں کے پیچھے نکل گئی شاید؟

فاطمہ حیرت سے ان نگاہوں اور ان سے ادا ہوئے لفظ "شاید " کو تک رہی تھی۔ بھلا یہ کیسے ممکن ہے کہ منی کی محافظ نگاہیں یہ الفاظ کیسے ادا کرسکتی ہیں؟ یہ نگاہیں اتنی بے رحم کیسے ہوسکتی ہیں؟ کیسے نیند اتری ان نگاہوں میں، وہ بھی اس وقت جب منی گھر سے باہر جارہی تھی؟

کیسے؟ فاطمہ کو یوں محسوس ہوا کہ دو آنکھیں سب کو گھور رہی ہیں۔

Comments

Avatar photo

راحیلہ خان ایڈووکیٹ

راحیلہ خان ایڈووکیٹ ہائی کورٹ اور ڈسٹرکٹ کورٹ میں وکالت کرتی ہیں۔ مصنفہ اور ریسرچ اسکالر ہیں۔ سال 2022 میں ورازت مذہبی امور کے تحت سیرت النبیﷺ کانفرنس میں ملکی سطح پر تحقیقی مقالے میں اول پوزیشن حاصل کرکے صدارتی ایوارڈ کی مستحق ٹھہریں۔ ایک اپنی کتاب اور دو کتابوں کی شریک مصنفہ ہیں۔ کراچی کی بچہ اور خواتین جیل میں فلاحی کاموں میں شریک ہوتی ہیں

Click here to post a comment