خانقاہ سراجیہ کی بستی دینی و علمی لحاظ سے میانوالی میں ممتاز مقام رکھتی ہے۔ حامد سراج کی لائبریری میں بشارت ملک، پروفیسر سیلم فواد کُندی، افسانہ نگار حمید قیصر اور مِیں بیٹھے تھے۔ ملک محمود اقبال کی باتیں اور یادیں تھیں۔
ملک صاحب اب ہمارے درمیان نہیں رہے ۔ ہم ان سے کبھی نہیں مل پائیں گے۔ یہ سوچ کر دل خون کے آنسو روتا اور جگر شق ہوتا ہے۔ وہ زندگی سے جُڑا شخص زندگی کے فلسفے، شاعری، موسیقی کی رمزیں، فوٹوگرافر کیمرہ اٹھاۓ سرحد کے اس پار چلا گیا۔ جہاں سے لوٹ کر کوئی آ نہ سکا۔ میں لائبریری میں بیٹھا افسردہ دلی سے سوچ رہا تھا۔ ملاقاتوں سے یادوں میں ڈھل جانا انتقال سہی مگر وہ شخص کیسے مر سکتا ہے۔ جس کے اتنے چاہنے والے اور یاد کرنے والے ہوں۔ واصف علی واصف کے قول نے میرے رنجیدہ دل پہ دستِ تسلی رکھا۔" انسان اس وقت مر جاتا ہے جب اسے کوئی یاد کرنے والا نہ رہے"
دیوارِ دل پہ یادیں دستک دے رہی ہیں۔سرما کا آغاز تھا۔ وہ دعوت پہ پہلی بار میرے گھر آۓ تھے۔ "ملک صاحب باہساں نیں پہلے تیڈا علاقہ ڈیکھساں" . کچھ دیر بیٹھے چاۓ پانی پیا اور پھر "کالَو" کی کچی سڑک پر کار چلاتے ہوۓ گپ شپ لگاتے۔ جہاں کوئی منظر اچھا لگا ،بریک لگائی، کیمرہ اٹھاۓ گاڑی سے باہر آ کر تصویریں اتارنے لگے۔ کچے گھروں، پرندوں اور دریا کنارے تصویریں بناتے۔ باتیں سنتے سناتے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ہم صدیوں سے دل آشنا ہوں۔ شام سے پہلے بیٹ <ٹاپو> سے چرواہے جانور چرا کر واپس لا رہے تھے۔ جانوروں کے گَلے میں بندھی گھنٹیوں کی ٹَن ٹن سن کر بولے " واؤ کیا سندر میوزک ہے گاؤں کا سارا حسن اسی میوزک میں ہے". رات گئے واپس لوٹے ، کھانا کھایا اور پھر ملنے کی تاکید کرتے ہوۓ رخصت لی۔
میں ان کے چمک دار ڈرائنگ روم میں بیٹھا تھا۔ وہ اپنے کویت میں گزرے چودہ سالوں کی روداد سنا رہے تھے۔ ٹرے میں چاۓ اور مٹھائی آئی تو کپڑے تلے ڈھانپی ہوئی تھی. مجھے یہ انداز بہت پیارا لگا۔ کمپیوٹر کے کی بورڈ پر انگلیاں چلاتے ہوۓ کہا "اسے پڑھو" سکرین پر " ماربل کی سیڑھیاں" نمودار تھا۔ بہت عمدہ افسانوی تحریر کا انداز تھا۔ انہوں نے بتایا "یہ میری پہلی پہلی تحریر ہے".
"اگر آپ اسی انداز سے لکھتے رہتے تو آج آپ کا نام بھی حامد سراج کے ساتھ ادبی افق پہ چمک رہا ہوتا". میں نے اپنی راۓ کا اظہار کیا۔ وہ بولے " لکھتا رہا ہوں، بس چھپوانے کا کبھی خیال نہیں آیا". پھر اپنی بنائی ہوئی تصویروں کی کلیکشن دکھائی۔ پروندوں سے انہیں خاص اُنس تھا. پرندوں کی مختلف پوز میں تصویریں اتنی لاجواب تھیں کہ میں دنگ رہ گیا۔ میوزک کا بہت بڑا ذخیرہ ان کے پاس تھا۔
پہلی ملاقات سے ان چار برسوں میں ان سے مسلسل ملاقاتیں رہیں۔ میں جب کبھی کال یا مسیج کرتا کہ " کبھی مل بیٹھتے ہیں" تو ان کا یہی جواب ہوتا "بھئی میں ریٹائرڈ آدمی ہوں، واحد کام دوستوں سے ملنا ملانا ہے". ہمیشہ دوستوں سے محبت سے ملتے اور ملتے رہنے کی تاکید کرتے۔ جب بھی ملے متبسم چہرے اور نہایت والہانہ پن کے ساتھ۔ منکسر المزاجی اور زندہ دلی ان کی طبیعت ثانیہ تھی۔ ہنسی اور دل لگی کی باتیں کرتے ۔خوش رہنا اور دوسروں کو خوش دیکھنا ان کے سرشت میں شامل تھا۔ ان کے پاس فرصت تھی۔ اب ساری توانائیاں لکھنے اور فوٹو گرافی کی طرف تھیں۔ ان کی خوب صورت روشن آنکھوں میں عزم اور خواب تھے، لیکن جب وقت پورا ہو جائے تو یہ نہیں دیکھتا کہ کتنے کام باقی ہیں۔ ابھی تو آگے جینا ہے۔ نئے کچھ خواب دیکھے ہیں انھیں تعبیر کرنا ہے.
ملاقاتوں سے یادوں میں منتقل ہو جانے کے باوجود جب تک یار زندہ ہیں وہ مر نہیں سکتے ہمیشہ حسین یاد بن کر دوستوں کے دلوں میں زندہ رہیں گے۔جو بھی اس دنیا میں آیا ہے اسے ایک نا ایک دن تو اس دنیاِ فانی سے ضرور جانا ہے۔یہی زندگی کی سچائی اور حقیقت ہے لیکن کسی کا اس طرح اچانک زندگی کی بھری بزم سے چلا جانا، دل کی دنیا کو ویران کرجاتا ہے۔ باقی رہ جاتی ہیں صرف ان کی حسین یادیں ۔ یادیں جو دل کو کچوکے لگاتی، تڑپاتی اور یاد دلاتی رہتی ہیں کہ نہ جانے کس گھڑی ہم بھی صرف اور صرف ایک یاد بن کر رہ جائیں۔!
تبصرہ لکھیے