وقت اللہ تعالٰی کی ایک عظیم نعمت ہے، اللّٰہ تعالٰی نے "وَالْعَصْر" کہہ کر زمانے کی قسم اٹھائی ہے کہ "قسم ہے زمانے کی" اسی سے ہی وقت کی عظمت ظاہر ہوتی ہے اور یہ (وقت) عام نعمت ہے کہ امیر و غریب، جاہل و عالم، نادان و بے وقوف، چھوٹا و بڑا وغیرہ ہونے کے اعتبار سے وقت کی تقسیم میں تفاوت نہیں بلکہ یہ سب کے لیے یکساں ہے.
دیکھا جائے تو کس رفتار کے ساتھ سیکنڈوں کی سوئی دوڑ رہی ہے اور کس سُرعت کے ساتھ مِنٹوں کی رفتار چل رہی ہے اور گھنٹوں والی سوئی دھیرے دھیرے جاری ہے؛ لیکن اِس کا دِھیرا پَن بھی کسی سُرعت سے کم نہیں، وقت کی دوڑ تو اَزل سے اَبد تک جاری رہے گی.
سوچنے کی بات یہ ہے کہ وقت اتنا جلدی کیوں گذر رہا ہے، ماضی میں دیکھا جائے تو وقت میں برکات کا نزول ہوتا تھا، اب وہ نہیں رہا، شاید اس لئے کہ وہ زمانہ نبی کریمﷺ کے قریب تر تھا تو وہ برکات تھیں، لیکن جیسے زمانہ بعید ہوتا گیا، تو وہ برکات بھی ختم ہوتی گئیں، اور یہ (وقت سے برکت کا ختم ہونا) حق ہے، اس بات کی حضور ﷺ کی حدیث مبارک سے بھی تائید ہوتی ہے کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا: "قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی، جب تک وقت اتنا سکڑ نہ جائے کہ سال مہینے کی طرح ہو جائے، مہینہ ہفتے کی طرح ہو جائے، ہفتہ دن کی طرح ہو جائے، دن گھنٹے کی طرح ہو جائے اور گھنٹہ کھجور کے پتے کو جلنے میں لگنے والے وقت کی طرح ہو جائے۔"
آجکل ہمارے معاشرے میں وقت کی اہمیت ختم ہوچکی ہے، نوجواں طبقہ اپنا وقت آوارہ گردی، موبائل، گیم، وغیرہ میں ضائع کررہا ہے اور بزرگ اپنا وقت خوش گپیوں، گپ شپ وغیرہ میں صَرف کررہے ہیں، کسی کو یہ خیال نہیں آتا کہ یہ "وقت" جو کہ "نعمت عظمٰی" ہے اس کے بارے میں بھی قیامت کے روز سوال ہوگا کہ وقت کہاں، کس کام میں اور کیوں خرچ کیا؟ مشہور مقولہ ہے "الوقت من الذھب" یعنی "وقت سون کے مانند ہے" لیکن وقت کی قدر و قیمت وہ ہی سمجھ سکتا ہے جس کو اِس کی اہمیت کا پتا ہوگا، باقی جس کے پاس وقت کی کوئی اہمیت ہی نہیں تو وہ وقت کی قیمت کیا جانے.
لہذا ہمارے وقت میں برکت اور ہمیں اس کی قدر و قیمت کیسے نصیب ہوگی؟
اس کے لیے ہمیں اللّٰہ تبارک و تعالٰی سے برکاتِ وقت کی دعا کرنی چاہیے.
اور اپنی زندگی کا "نظام الاوقات" بنانا چاہیے "الأھم فالأھم" کے اصول کے تحت کام کرنا چاہیے، آپﷺ سے لے کر آج تک تمام اکابرین کا یہی(نظام الاوقات) معمول رہا ہے. حضرت ڈاکٹر عبدالحی عارفی رح اپنے مرشد حضرت تھانوی رحمہ اللّٰہ کے متعلق لکھتے ہیں:"کہ حضرت کو وقت کی بڑی قدر تھی، معلوم ہوتا تھا کہ اللّٰہ تعالٰی نے ان کی فطرت میں وقت کی اہمیت کو مُضمر کردیا تھا، ہر کام کو صحیح اور برمحل استعمال کرنے کا اس قدر اہتمام ہوتا تھا کہ ہر وقت نظر گھڑی پہ ہوتی تھی، ہر کام سہولت اور بے تکلّفی سے نظام الاوقات کے تحت سر انجام دیتے تھے".
ہمیں بھی مُنظَّم انداز اپنانا چاہیے کہ کونسا کام کس ٹائم کرنا ہے، جو بھی کام ہو، ہر عمل کے لیے وقت طے کرلینا چاہیے. اور ہمیں اپنا محاسبہ بھی کرنا چاہیے کہ میں نے کونسا وقت کس عمل میں گذارا، کتنا وقت نیک کاموں میں استعمال کیا، کتنا وقت برائی کے کاموں میں اور فارغ بیٹھ کے ضائع کیا، اِس(محاسبہ) سے بھی آدمی کے دل میں وقت کی اہمیت اُجاگر ہوسکتی ہے اور آئندہ کے لیے دل و دماغ وقت کے صحیح استعمال پر اُبھر سکتے ہیں. یہ بات بھی ذہن میں رکھنی چاہیے کہ اکثر لوگ جس بات سے دھوکہ کھاتا ہے ہیں، وہ ہے لفظ "کَل" لیکن یہ "کَل" کبھی نہیں آتا، داناؤں کے دفتروں میں "کَل" کا لفظ نہیں پایا جاتا، جو کام کرنا ہے آج اور ابھی سے ہی شروع کرنا چاہیے.
کسی دانائے روم رح نے فرمایا ہے کہ:"بَر توکّل زانوئے اشتر بہ بند" یعنی" اونٹ کے گُھٹنے توکّل کے ساتھ باندھ دو" تو ہمیں بھی اپنے گھٹنے توکّل کے ساتھ باندھ کے، ہر وقت تیار رہنا، ہر کام کو اُس کے وقتِ مقرّر پہ سرانجام دینا چاہیے. ہمیں خود کوشش کرنی ہوگی، وقت کو نیک کاموں، اللّٰہ تبارک و تعالٰی کے فرائض کردہ اعمال، تلاوتِ قرآن اور ذکر و اذکار وغیرہ میں صرف کرنا چاہیے.آپﷺحدیث مبارک ہے کہ "مومن کی خوبی یہ ہے کہ فضول کاموں کو چھوڑ دے". ہمیں بھی حتّٰی الامکان فضولیات سے بچنے اور وقت کی قدر و قیمت پہچاننے کی اشدّ ضرورت ہے.
دعا ہے کہ اللّٰہ تبارک وتعالٰی ہمیں اور آپ کو وقت کی اہمیت اور قدر و قیمت پہچاننے کی صلاحیت نصیب کرے اور اُسے اچھی طرح استعمال کرنے کی توفیق بخشے، آمین!
تبصرہ لکھیے