آج کل گلگت میں گرلز سپورٹس گالا کا موضوع زبان زد عام ہے اور لوگ دو طرح کے گروہوں میں بٹ گئے ہیں. ایک طرف وہ ہیں جو اس کی حمایت میں اور اس کو وقت کی اہم ضرورت ثابت کرنے میں زمین آسمان کے قلابے ملا رہے ہیں، دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس سپورٹس گالا کو مذہبی ثقافتی اور اخلاقی روایات کے خلاف ہونے کی وجہ سے اس کی مخالفت کر رہے ہیں.
تھوڑی سی دینی اور اخلاقی حمیت رکھنے والے شخص کا اس کی مخالفت کرنا تو سمجھ آتا ہے کہ اس طرح کے اجتماعات سوائے بے حیائی اور بے پردگی کا سبب بننے کے اور کچھ نہیں، لیکن جو لوگ اس سپورٹس گالا کی مخالفت کو عورت دشمنی اور قدامت پرستی سے تعبیر کر رہے ہیں اور آئے روز علماء کرام کو طعنے دے رہے ہیں، ان سے گزارش ہے کہ کچھ کہنے سے پہلے انسان کو تھوڑی تحقیق کرلینی چاہیے. علماء اور اسلام ہرگز عورت دشمنی کا درس نہیں دیتے ، بلکہ یہ بات دنیا میں مسلم ہے کہ عورتوں کو جو مقام مرتبہ اور حقوق اسلام نے دیے ہیں وہ کسی بھی مذہب اور سماج نے نہیں دیے. نہ ہی اسلام عورت کی تعلیم کا مخالف ہے اور نہ اسلام عورتوں کے بنیادی حقوق دبانے کی بات کرتا ہے. بلکہ اسلام نے تو علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض کر دیا ہے.
یہاں پر یہ بات سمجھنے کی ہے نہ تو ہم عورتوں کی تعلیم کے مخالف ہیں نہ کھیل اور تفریح کے مخالف ہیں، بشرطیکہ کھیل اور تفریح اسلامی حدود کا خیال رکھ کر کی جائیں. جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنی زوجہ محترمہ حضرت عائشہ صدیقہ طاہرہ رضی اللہ عنھا سے دوڑ کا مقابلہ کیا اور حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کو حبشہ سے آئے ہوئے لوگوں کا کھیل دکھایا۔۔۔!!
مگر بات یہ کہ جو سپورٹس گالا آپ منعقد کرانے جا رہے ہیں کیا وہ اسلامی حدود اور ثقافتی حدود کا خیال رکھ کر کرایا جا رہا ہے ؟
کیا اس سپورٹس گالا میں بے حیائی اور بے پردگی نہیں ہوگی؟ کیا اس میں مرد و زن کا اختلاط نہیں ہوگا جو کہ یقیناً کئی بیماریوں کی جڑ ہے ؟
کیا یہ سپورٹس گالا ایک ایسی جگہ منعقد کرانا ضروری ہے جو کہ ایک پبلک پوائنٹ ہے اور اس سے بڑی بات کہ وہ پچھلے کئی سال سے مسلمانوں کی عید گاہ ہے ۔؟؟؟
گزشتہ سال ہمارے قراقرم بورڈ کا رزلٹ ایوریج سے بھی نیچے رہا تو کیا اس وقت سپورٹس گالا کے بجائے تعلیم کی بہتری پر توجہ دینے کی ضرورت نہیں ؟
اگر ان سوالوں کے معقول جوابات آپ کے پاس ہیں تو پھر آپ سپورٹس گالا منعقد کرانے میں حق بجانب ہیں اگر نہیں ہیں تو پھر یہ سلسلہ رہنے دیجیے اور کرنے کے کام کیجیے۔۔۔!
تبصرہ لکھیے