جب ترقی کو کسی سیاسی کارکن کے نکتہ نظر سے دیکھا جائے تو بہت سی چیزیں دھندلا جاتی ہیں، کئی منظر آنکھوں سے اوجھل رہ جاتے ہیں اور صرف اپنی پسند کا منظر ہی دکھائی دیتا ہے۔ وہی کچھ دکھائی دیتا ہے ، جو آنکھیں دیکھنا چاہتی ہیں۔ وطن عزیز کے سیاسی کارکنوں کی ایک غالب اکثریت نیم خواندہ قسم کی ہے ، ان میں جذباتیت کوٹ کوٹ کے بھری ہوئی ہے اور ان کے ہاں ترقی کے نام پر کسی حقیر شے سے بہل جانے کی روش عام ہے۔ ہمارا سادہ لوح اور نیم خواندہ سیاسی کارکن جسے ترقی سمجھ کر ڈھنڈورا پیٹ رہا ہوتا ہے، ترقی یافتہ ممالک میں یہ کام بلدیاتی نمائندے کرتے ہیں اور یہ معمول کے کام ہیں۔ چھوٹے چھوٹے کاموں پر شکریہ ایم پی اے صاحب ، شکریہ ایم این اے صاحب۔ اظہارِ تشکر کے لیے لگائے گئے اس قسم کے بینرز اس حقیقت کا اعلان کررہے ہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں کی ترجیحات کیا ہیں اور ہمارا سیاسی کارکن کس چیز کو ترقی سمجھ رہا ہے۔ چند سطحی معیارات رکھ کر کچھ بھی ثابت کیا جاسکتا ہے، اپنی اپنی پسند کے اعداد و شمار کی مدد سے اپنی جماعت کی حکومت کو تاریخ کی بہترین حکومت اور مخالف جماعت کی حکومت کو بدترین حکومت قرار دیا جاسکتا ہے۔ دو متضاد تصویریں فیس بک پر لگا کر کوئی بھی جذباتی نعرہ لگایا جاسکتا ہے۔ ایک سیاسی جماعت کے احتجاج میں جلتے ہوئے ٹائر کی تصویر کا تقابل دوسری جماعت کے دور حکومت میں لگائے گئے کسی واٹر فلٹریشن سے کرکے چند جذباتی نعرے لگائے جاسکتے ہیں کہ فرق صاف ظاہر ہے لیکن ترقی کا معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے کہ چند جذباتی نعرے لگانے اور سوشل میڈیا پر مہم چلانے سے ترقی کا حق ادا ہو جائے۔
ہماری ترقی کا ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ ترقی ماپنے کے لیے اپنے سے کم تر سے موازنہ کیا جاتا ہے۔ چوں کہ پاکستان میں مثالی گورننس کبھی موجود نہیں رہی اس لیے چند سطحی معیارات کی بات کرکے ترقی ثابت کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ ترقی کے لیے چند بنیادی چیزیں سمجھنے کی ضرورت ہے۔
سب سے پہلے یہ دیکھا جائے کہ کیا یہ ترقی تمام شعبوں میں ہورہی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ ترقی تمام شعبوں میں نہیں ہورہی۔ جن شعبوں میں ترقی کا ڈھنڈورا پیٹنا جاتا ہے وہ بھی خاطر خواہ نہیں ہے۔ اگر صرف دو شعبوں یعنی تعلیم اور صحت کی بات کی جائے تو ترقی کے تمام دعوؤں کی قلعی کھل جاتی ہے۔ فیس بک پر ترقی ترقی کھیلنے والے سیاسی کارکنوں سے جب یہ سوال کیا جائے کہ آپ تعلیم اور علاج کے لیے نجی اداروں سے رجوع کیوں کرتے ہیں تو جواب میں ان کے پاس جگتوں کے سوا کچھ بھی نہیں ہوتا۔ خندہ تحقیر بلند کرنے سے بات کی سنگینی کم نہیں ہوتی۔ یہ بہت اہم سوال ہے۔ ( برسر اقتدار آنے والی) ہر سیاسی جماعت کے کارکنوں کو خود سے یہ سوال کرنا چاہیے کہ میں جس جماعت کی تعریف میں زمین و آسمان کے قلابے ملا دیتا ہوں، اپنے تعلقات خراب کرلیتا ہوں اور لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتا ہوں، اقتدار میں آکر مجھے تعلیم اور علاج کی سہولت بھی نہیں دیتی تو یہ کیسی حکومت ہے؟ اس کی ترجیحات کیا ہیں؟
تمام شعبوں میں ترقی کے معیار پر وطن عزیز کی ترقی کو پرکھا جائے تو حقیقت سامنے آجاتی ہے۔ یہ بات کہ لوگوں کی ایک غالب اکثریت تعلیم اور علاج کے لیے نجی اداروں سے رجوع کرتی ہے، سوشل میڈیا پراپیگنڈہ نہیں ہے بل کہ وطن عزیز کے لاکھوں شہریوں کو ہر روز اس کا تجربہ ہوتا ہے۔ ترقی ماپنے کا ایک سادہ سا کلیہ یہ بھی ہے کہ کیا یہ پائیدار ترقی ہے؟ وطن عزیز میں فیصلے پائیدار ترقی کے بجائے سستی شہرت کے لیے کیے جاتے ہیں۔ ہر حکومت لوگوں کو راشن کی قطار کھڑا کردیتی ہے لیکن یہ قطار کم ہونے کے بجائے ، طویل ہوتی جارہی ہے۔ راشن کی تقسیم کے لیے اخبارات میں اشتہارات آتے ہیں، سوشل میڈیا پر مہم چلتی ہے ، ٹیلی ویژن پروگراموں میں چیخ چیخ کر ترقی ثابت کی جاتی ہے لیکن مسئلہ وہیں کا وہیں رہتا ہے۔
ترقی ماپنے کا ایک پیمانہ یہ بھی ہے کہ دیکھا جائے کہ حکومت کی معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں غربت میں کمی آئی ہے یا نہیں؟ لوگ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوئے یا نہیں؟ لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوا یا نہیں؟ہر گلی محلے میں بسنے والے غریب، حکومت کی معاشی پالیسیوں اور ترقی کے دعوؤں کا منہ چڑارہے ہیں۔
یہ کیسی ترقی ہے کہ جس میں علاج ہے نہ تعلیم ، تخفیف غربت ہے نہ معاشی استحکام، امن و امان ہے نہ عدل و انصاف، عزت نفس ہے نہ خودداری۔
ترقی کے لیے یہ دیکھنا بھی انتہائی اہم ہے کہ چیزوں کی ترتیب کیا رکھی گئی ہے۔ اگر حکومت غربت ختم کرنے کے بجائے جرمانوں اور چالان پر زیادہ زور دے رہی ہے تو یہ ترقی نہیں ہے۔ اگر ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن ڈیپارٹمنٹ میں رشوت ختم کرنے سے پہلے گاڑیوں کے کاغذات نہ ہونے پر جرمانے شروع کردیتی ہے تو یہ ترتیب درست نہیں ہے۔ اگر تخفیف غربت سے پہلے چائلڈ لیبر کے خاتمے پر زور دیا جاتا ہے تو ترجیحات کا تعین درست نہیں ہے۔ اگر تمام شہروں میں علاج معالجے کا نظام بہتر کرنے سے پہلے ایئر ایمبولینس سروس، جس سے مستفید ہونے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر ہے، شروع کردی جائے تو اسے مذاق کے سوا اور کیا نام دیا جاسکتا ہے؟
ترقی ماپنے کے لیے یہ سوال بھی کیا جاسکتا ہے کہ کیا یہ ترقی تمام علاقوں میں ہورہی ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ پاکستان میں ہونے والی ترقی چند بڑے شہروں کے پوش علاقوں کی ترقی ہے۔ چند بڑے شہروں میں تعلیم اور علاج کی سہولتیں بہتر ہیں جب کہ دیگر شہروں کے لوگ ان سہولتوں سے محروم ہیں۔
ترقی کی دنیا بہت وسیع ہے۔ چند نمائشی اقدامات سے متاثر ہوکر ترقی ترقی کے نعرے لگانا نیم خواندہ معاشروں کا المیہ ہے۔ ترقی کے لیے ضروری ہے کہ نئے ڈیمز بنائے جائیں۔ بجلی بحران کا خاتمہ کیا جائے تاکہ ملکی معیشت کا پہیہ چلے۔
کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے۔ گزشتہ چھ ماہ میں تنخواہ دار طبقے نے 236 ارب روپے ٹیکس ادا کیا ہے جب کہ تاجر حضرات کو ٹیکس معاملے میں کھلی چھوٹ ہے۔ چیئرمین ایف بی آر کے ایک بیان کے مطابق ملک میں پچاس فی صد معیشت غیر دستاویزی ہے۔
اسی طرح نوآبادیاتی قانونی ڈھانچے کو گرا کر نئے قوانین کے نفاذ کی شدید ضرورت ہے۔
وطن عزیز کو افسر شاہی کے شکنجے سے آزاد کرنے کے لیے انتظامی اصلاحات کا نفاذ از حد ضروری ہے۔
بوسیدہ اور فرسودہ عدالتی نظام بدلنے کے لیے اصلاحات ناگزیر ہیں۔
نصاب اور نظام تعلیم کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ترقی کے لیے اشد ضروری ہے۔
سر دست وطن عزیز کی ایکسپورٹ 31 ارب ڈالر کے قریب ہیں۔ معیشت کے استحکام کے لیے ایکسپورٹ میں اضافہ انتہائی اہم ضروری ہے۔
ترقی کے لیے ضروری ہے کہ ہمارے پاس طب، زراعت ، لائیو سٹاک، انرجی، انفارمیشن ٹیکنالوجی، میڈیسن اور انجینئرنگ کے ماہرین کی ایک کھیپ ہو لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ ہائیر ایجوکیشن کا نظام بہتر کیا جائے۔ وطن عزیز کی کوئی یونیورسٹی دنیا کی پانچ سو بہترین یونیورسٹیوں کی فہرست میں بہ مشکل ہی جگہ بنا پاتی ہے۔
ان حالات میں کہ جب نہ معیشت مستحکم ہے، نہ تخفیف غربت حکومت کی ترجیح ہے، نہ نظام تعلیم مثالی ہے، نہ انتظامی و عدالتی اصلاحات کا نفاذ ہے، کسی سیاسی کارکن کو ترقی کا ڈھنڈورا پیٹتے دیکھتا ہوں تو عامر عثمانی مرحوم کا ایک شعر یاد آتا ہے
میری رات منتظر ہے کسی اور صبح نو کی
یہ سحر تجھے مبارک جو ہے ظلمتوں کی ماری
تبصرہ لکھیے