ہوم << قحط الرجال اور سطحی علم کا نقصان - سید تصور عباس

قحط الرجال اور سطحی علم کا نقصان - سید تصور عباس

معاشرے میں رواداری، برداشت، معتدلی ناپید ہوتی جا رہی ہے- ہم بحثیت مسلمان اپنی پہچان کھو چکے ہیں، بحثیت مسلک اپنی شناخت کو زندہ رکھنے میں کوشاں ہیں- علمائے کرام اس مساعی میں عوام الناس کے ساتھ ساتھ بلکہ دو چار ہاتھ آگے ہی ہیں. کسی بھی پڑھے لکھے سے علمائےکرام کے نام پوچھنے کی کوشش کریں، وہ صرف اپنے مسلک کے ایک یا دو کے نام ہی بتا پائیں گے، لیکن یہ بھی مشکل ہی لگتا ہے. عالم کا معیار علم نہیں رہا، مسلک بن چکا ہے. دین مسالک کے اندر کہیں گم ہو چکا ہے.

نوے کی دہائی میں اگر کوئی ہم سے پوچھتا تو کچھ ایسے نام ذہنوں میں گونجا کرتے تھے، جن کو ہم مسلک ازم سے بالاتر ہو کر سنا کرتے تھے- قومی سطح پر شاہ احمد نورانی، عبدالستار نیازی، طاہر القادری، طالب جوہری، رشید ترابی، نسیم عباس رضوی، احسان الہی ظہیر، اسرار احمد، واصف علی واصف، غلام مرتضی ملک وغیرہ، اور موجودہ گزرتے زمانے میں نصیر الدین نصیر، احمد رفیق اختر، طارق جمیل، سرفراز شاہ وغیرہ-

فروعی و نزاعی مسائل نے دین کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے. آج کل تو ویسے بھی سوشل میڈیا کا دور دورا ہے، اس لیے پاپولرازم کے نشے میں کئی اکابرعلماء کو ڈوبتے دیکھ رہے ہیں. جنتیں بانٹی جا رہی ہیں، دوزخیں عطا ہو رہی ہیں. اولیائے کرام کی تضحیک و تحقیر ایک عام سی بات ہو گئی ہے. ایک طرف تو عوام الناس کو یہ بتایا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں دین تلوار سے نہیں اولیائے اللہ کی وجہ سے آیا، ابنِ قاسم تو سندھ کی طرف کسی اور ہی وجہ سے تشریف لائے تھے، لیکن ساتھ ہی ساتھ کچھ نام نہاد کتب کا سہارا لے کر انہی اولیاء کے خلاف ایسا بیہودہ پروپیگنڈہ ہو رہا ہے کہ الامان الحفیظ!

طرفہ تماشا یہ کہ ان کتب کا ان بندگانِ خدا اے براہِ راست کوئی ربط نہیں، جیسا کہ منصور حلاج کے متعلق ایک بندہ خدا کو کہا کہ دقیق کتب نہیں تو کم از کم جمیلہ ہاشمی کا ناول نما حلاج نامہ یعنی "دشتِ سُوس" ہی پڑھ لو، تو جوابِ رد ملا کہ ناول میں کچھ بھی سچ نہیں ہوتا. یعنی ایک مائنڈ سیٹ ہے جو کہ فکس ہے. بس اس سے آگے سب اندھیر ہے. پڑھنا تو ایک ایسا کارِ دشوار ہے کہ ہمالیہ سر ہو جائے گا لیکن ایک کتاب تو کُجا، کالم پڑھنا بھی عذاب لگتا ہے. جیسا کہ ہمارے ایک دوست نے فرمایا تھا، دل کرتا ہے گھر میں بہت ساری کتابیں ہوں، لیکن پڑھنے کو دل نہیں کرتا.

دل بھر چکا ہے رغبتِ علم سے
سر کھجاتا ہوں آجکل میں قلم سے

دینی یا دنیوی علم سطحی ہو چکا ہے. جس کی آواز بلند ہے، طنز و تشنیع کا ملغوبہ ہے، اسی کا بول بالا ہے. نوے کی دہائی میں پی ٹی وی کے فہم القرآن جیسے پروگرامز سے کچھ نہ کچھ سیکھنے کو مل جاتا تھا. دلیل سے بات سمجھائی جاتی تھی نہ کہ دھونس سے. ڈیجیٹلائزیشن سے انفارمیشن کا ایک سیلاب آ گیا ہے، جس کی تحقیق کوئی نہیں کرتا، بس جو میرے دل و دماغ کو اچھا لگے اسے آگے پھیلا دیا. جو لوگ اصلاح کیا کرتے تھے ان کو اب پیروکار درکار ہیں، اور اس خود پسندی نے کہ جی ہم ہی سب سے اعلی کام کر رہے ہیں، باقی سب تو راندہ درگاہ ہیں، حقائق کو کہیں پیچھے چھوڑ دیا ہے. قالٰ قالٰ کی صدائیں تو بہت ہیں لیکن کیا ان اونچی آوازوں سے دین و دنیا بھی بلند ہوئی یا وقتی تسکین تو حاصل ہو گئی مگر حقیقت پسِ پردہ رہ گئی. پچھلے دنوں کچھ دوست اکٹھے بیٹھے تھے کہ چند دینی مسائل پرگفتگو شروع ہوگئی، کچھ دیر کے بعد محسوس ہوا کہ گفتگو ختم ہو چکی ہے اور اب بحث برائے بحث ہو رہی ہے. چائے آ گئی چائے آگئی کا نعرہ لگا کر اسے ختم کیا گیا اور بعد میں جب تمام شاہ دماغ ٹھنڈے ہوئے تو سب نے تسلیم کیا کہ ایسا لگ رہا تھا کہ دوسرے کو نیچا دکھا کر فتح مند ہونا ہے.

کیوں؟ حالانکہ سب مچیور اور پڑھے لکھے افراد تھے، مگر جو ہم دیکھتے ہیں، سنتے ہیں اسی سے متاثر ہوتے ہیں. "پڑھتے" نہیں لکھا کیونکہ ایسا کہنا اب ایک خام خیالی لگتا ہے. آج کل کے میڈیائی سیلاب سے متاثر شدگان میں ہم بھی شامل ہیں، لیکن خود پر قابو رکھنا بھی آنا چاہیے، نہ کہ سب کچھ روندتے گزر جانا ہے. اسی لیے وہی برتری حاصل کرنے کا خبط اور بلند آہنگ آواز سے اپنی منوانے کا جنون، دلیل نہیں رہی، منطق نہیں رہی، نرگسیت ہے، خود پسندی ہے، سَو ہے-