ہوم << مغربی افکار اور اسلامی اقدار- زیان مصطفیٰ

مغربی افکار اور اسلامی اقدار- زیان مصطفیٰ

میدان جنگ میں، جہاں سپاہی اپنی جانبازی کا مظاہرہ کر رہے ہوتے ہیں، وہیں بعض اوقات ضرورت کے تحت عام عوام کو بھی اُن کی اہلیت کے مطابق جنگ میں شریک کیا جاتا ہے۔ مثلاً اگر کوئی ڈاکٹر ہے تو زخمیوں کا علاج، اور اگر کوئی ڈرائیور ہے تو امدادی سامان پہنچانے میں مدد کرتا ہے۔ غرض ہر اہل فرد اپنی صلاحیت کے مطابق خدمت سرانجام دیتا ہے، اور یوں قوم کا ہر فرد کسی نہ کسی طرح اس جنگ کا حصہ بنتا ہے۔

یقین کیجیے، ہم مسلمان اس وقت بھی حالت جنگ میں ہیں۔ جی ہاں! یہ وہ جنگ نہیں جس میں زمینیں حاصل کی جاتی ہیں، بلکہ یہ اُس سے کہیں زیادہ خطرناک "نظریاتی جنگ" ہے۔ عالمِ کفر ہماری زمینوں اور مال و جان پر قبضہ نہیں کر رہا، بلکہ وہ ہماری سوچ، افکار، اور نظریات کو مسلسل بدل رہا ہے۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ ہم اپنی زندگیوں میں مکمل اسلام کو عملی طور پر نافذ کرنے سے خوف زدہ ہیں؟ حالانکہ ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ "دین آسان ہے" اور "دین میں آسانی ہے"۔

کیا ہم غیر ارادی طور پر اُن اسلامی احکامات کو Outdated نہیں سمجھنے لگے، جن پر عمل کرنا ہمیں اپنی اس نام نہاد "Updated زندگی" میں مشکل لگتا ہے؟ افسوس کہ یہی حقیقت ہے۔ کفر نے ہمیں اسلام کو ایک پُرانے زمانے کا مذہب قرار دے کر ہماری نظروں میں ہمیں مجرم اور ایک عملی مسلمان کو دقیانوسی بنا دیا ہے۔ اور یہ سب کسی مغربی ایجنٹ یا ایجنسی کی تربیت کے بغیر ہوا۔

یہ ہے "نظریاتی جنگ"۔۔۔!
ہماری سوچ آج مغرب کی غلام بن چکی ہے۔ ہم مغربی تہذیب اور نظریات کو اعلیٰ سمجھنے لگے ہیں، اور یہی مغرب کی اصل کامیابی ہے۔

کئی سال پہلے ایک جگہ پڑھا تھا،
"مغرب تمہارے سروں پر حکمرانی کا اتنا خواہش مند نہیں جتنا تمہارے ذہنوں پر حکمرانی کا خواہش مند ہے۔ اُس کی کامیابی یہی ہے کہ زبان تمہاری ہو، مگر الفاظ اُس کے۔"

جس طرح زمینی جنگ میں ہر شخص اپنی حیثیت کے مطابق حصہ لیتا ہے، اسی طرح اس نظریاتی جنگ میں بھی ہمیں اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی۔ ہمیں اپنی استطاعت کے مطابق کام کرنا ہوگا، آگے بڑھنا ہوگا۔

میدان بہت وسیع ہے اور کام کرنے والے بہت کم ہیں۔
امت کو جوڑیے، اختلافی مسائل اور فرقہ واریت سے بچیں۔
سیرت پڑھیں، سیرت اپنائیں، اور سیرت پر بات کریں۔ اپنی محفلوں میں سیرت کو موضوع بنائیں۔
یقین کیجئے، اس جنگ میں ہمیں اپنا مثبت کردار ادا کرنا ہے، نہ صرف اپنے لیے بلکہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی۔

ہم سب کو کردار ادا کرنا ہوگا، چاہے وہ میدانِ جنگ میں اُتر کر ہو یا اُترنے والوں کی مدد کرکے۔
لیکن میدانِ عمل میں اُترنے سے پہلے یہ ضرور دیکھ لیجئے کہ کہیں آپ خود غیر ارادی طور پر مغربی نظریات کو فروغ تو نہیں دے رہے۔