"خدا کو کس نے بنایا" کے بھنور میں ڈوبتے ابھرتے اے انسان!
خدا ہے۔۔۔ مگر موجود نہیں!
خدا کو انسان اس وقت ہی سمجھ پائے گا جب وجودیت کی اساس یا اصلیت کو سمجھ لے گا۔
سوال یہ ہے کہ کیا وجود ہمارے شعور کو ایک جھانسا ہے؟
ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ ہر خالق اپنی تخلیق سے باہر ہوتا ہے تو خدا بھی وجودیت سے بالا کسی بالائے وجود مظہر میں مقیم ہے نہ کہ کائنات میں۔
یعنی خدا کہیں" موجود" تو ہے مگر اس کا وجود ایک پہیلی ہے۔
خدا ایک مسٹری ہے۔
وہ ہے، مگر موجود نہیں ۔
وہ ہے مگر اس کا "وجود" نہیں کیونکہ وجود اور وجودیت ہماری لغت ہے۔
یہ نکتہ سامنے رہے کہ ہمارے حواس ہمیں ایک حقیقت سے آشنا کرتے ہیں۔ یہ حواس محدود ہیں اور ایک خاص فریکوئنسی پر فنکشنل رہتے ہیں ان سے اوپر اور نیچے نہ ہم دیکھ پاتے ہیں اور نہ سن۔ تو پھر شعور جس حقیقت کو سمجھاتا ہے وہ بھی کسی محدود پیرائے میں ہی کام کرتا ہے۔ گویا جو حقیقت ہے اس سے اوپر بھی حقیقتیں ہوسکتی ہیں۔ وجودیت ہمارے شعور کا ادراک ہے جب کہ" پیرا حقیقت" میں وجود کے پیرائے انجانے ہوسکتے ہیں۔۔۔۔ یعنی خدا" پیرا وجود" میں ہے نہ کہ مادی وجودیت میں۔
وہ نو ارب نوری سال پر محیط روشنی سے بھی زیادہ تیزی سے پھیلتی کائنات پر غالب ہے، مگر کائنات میں نہیں۔
وہ سب سے بڑا ہے مگر کہاں ہے ۔۔۔۔پتہ نہیں!
میرا وجدان کہ ہم تو وجود اور وجودیت کے اسیر ہیں۔۔۔۔لیکن ہمارا خالق نہیں بلکہ وہ کچھ اور کہیں اور ہے ۔
کائنات اور انسان وجود منفی کے حصار میں قید ہیں جو فنا پذیر ہے ۔ انسان کو فنا نہیں، موت اسے وجود مثبت میں لے جاتی ہے۔
اس خالق برحق نے کہہ دیا کہ۔۔۔ مجھ پر بغیر دیکھے ایمان لاؤ ۔۔۔ کیونکہ کوئی علم بھی علم کے خالق کو جان نہیں سکتا۔۔۔۔
سائنسی علوم کھلونے ہیں انسان کے لیے۔۔۔۔ جو انسان کو بہلائے رکھتے ہیں۔
وہ جب چاہے گا اپنے وعدے کے مطابق اپنی نشانیاں دکھا دے گا ۔
اور ہر اسکالر اور سائنسدان کہہ اٹھے گا کہ یہ سچ ہے۔۔۔۔۔ کیونکہ کائنات اس لیے ہے کہ اس کا ایک شاہد ہے۔۔
کوانٹم فزکس ایک دریچہ ہے جو صاحب علم ملحد کو علم میں بے بس کردے گا۔۔۔یہ دریچہ وجودیت کے اسرار آشکارہ کرسکتا ہے۔
بلیک ہول آسمان میں وہ انجانے راستے بھی ہوسکتے ہیں جو کسی وجودِ مثبت کی خبر دے سکتے ہیں، کسی بالائے وجود کی سرسراہٹ کو سنا سکتے ہیں۔
والسماءِ ذاتِ الحُبک
اور قسم ہے راستوں والےآسمانوں کی۔۔۔
تو اے انکار کرنے والو !
تم علم میں جستجو کرو ہم انتظار کرتے ہیں کیونکہ علم میں ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔۔۔۔اور یہ بھی جان لو کہ۔۔۔
علم کی اس بلندی پر تمہارا انکار دراصل اب احسن الخالقین کو چیلنج ہے،ہم ایمان بالغیب والوں کو نہیں۔۔ یعنی چیلنج اس ذات کو کہ جس نے کچھ ایسا کہہ دیا کہ۔۔
اور ہم انہیں اُن کے اندر اور آسمان میں اپنی نشانیاں دکھائیں گے یہاں تک کہ ان کے سامنے عیاں ہو جائے گا کہ یہی حق ہے۔"(قرآن)
تو ایمان والو۔۔۔۔
اپنے ایمان و یقین پر جمے رہو بغیر کسی دلیل کے۔۔۔
ہاں مگر غور کرو اس نکتے پر کہ
کیا وجود اور وجودیت بھی مخلوق ہیں؟
کیا ہم اس نکتے کو سمجھنے کی سکت رکھتے ہیں۔ کیا ہمارا وجدان و شعور اس وجودی بھول بھلیّوں سے ماورا ہوکر حقیقت آشنائی کی پُر پیچ پگڈنڈی کا راہی بن سکتا ہے؟
ذرا سوچیں۔۔
۔
تبصرہ لکھیے