ہر اصطلاح ایک پس منظر رکھتی ہے۔ مغرب میں رائج اصطلاحات بھی اپنے پیچھے ایک تاریخ رکھتی ہیں۔ عقلمندی یہی ہے کہ ہم اپنے تاریخی اور مذہبی پس منظر کو مدنظر رکھتے ہوئے ہی کسی مکتب فکر کی اصطلاح کو اپنائیں۔ لبرل اور سیکولر عام سی اصطلاح لگتی ہیں لیکن یہ ایک خاص پس منظر کے ساتھ ہیں۔ جس طرح مسلم، ہندو، عیسائی اور یہودی کا مطلب ہم خوب سمجھتے ہیں اسی طرح ہم کو لبرل اور سیکولر کا مطلب بھی جاننا چاہیے۔ اس کے لیے ہمیں وہیں رجوع کرنا ہوگا جہاں یہ اوّل اوّل کسی نظریاتی پیرائے میں استعمال ہوئیں۔ مغرب میں علوم کی نشاۃثانیہ Renaissance نے معاشرے میں رائج عیسائیت کے غیر عقلی نظریات کو چیلنج کیا جس کے نتیجے میں مذہب پسپا ہونا شروع ہوا اور حکومت پر اس کی گرفت کمزور ہونی شروع ہوئی۔ رفتہ رفتہ معاشرے میں مذہب کا عمل دخل کم ہوکر ختم ہوگیا اور معاشرے میں متبادل نظریات کا غلبہ شروع ہوا جس میں مذہب کی حیثیت ذاتی رہ گئی اور معاشرے میں اقدار اور قانون سازی کی بنیاد وحی کے بجائے انسانی عقل قرار پائی۔
لبرل ازم اور سیکولر ازم دراصل اسی دور میں متعارف ہوئے۔ لبرل ازم ایک سیاسی فکر ہے جو انسان کی آزادی کو فوقیت دیتی ہے اور اسی کو تمام سیاست کا محور سمجھتی ہے۔ اس میں مذہب کی اہمیت محض ذاتی ہوتی ہے۔ سیکولر ازم میں مذہب حکومت سے جدا ہوتا ہے اور حکومت کسی بھی مذہبی سوچ کے زیراثر نہیں ہوتی۔ بدقسمتی سے مندرجہ بالا دونوں اصطلاحات بہت تواتر سے استعمال ہوتی ہیں اور لوگ ان کے مطلب سطحی طور پر سیاست کے تناظر میں ہی اخذ کرتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے کہ ان دونوں نظریات کی بنیاد ان سائنسی دریافتوں سے جڑی ہے جنہوں نے خدا کے حوالے سے انسانوں کو مخمصوں میں غلطاں کیا ہوا ہے۔ مذہبی عقائد پر شک انسان کو سائنس پر بھروسے کی تلقین کرتا ہے اور لوگ بغیر عقلی تجزیہ کیے ان نظریات کی رو میں بہہ جاتے ہیں جو سائنسی ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یاد رکھیے کہ پوری دنیا میں ان دونوں نظریات کو اپنانے والے خدا کو محض کسی فرد کا ایسا ذاتی خیال گردانتے ہیں جس کی سائنسی، سیاسی اور معاشرتی اہمیت نہیں۔ گویا جدید سائنسدانوں کی اکثریت کاخدا سے انکار انہوں نے من و عن قبول کیا ہوا ہے۔
یاد رکھیں کہ کسی فرد یا گروہ کے بنیادی عقائد کا تعلّق اس کے کائنات اور زندگی کی تخلیق کے نظریے سے بہت گہرا ہوتا ہے لہٰذا کسی بھی معاشرتی ڈاکٹرائن یا نظریہ حیات کی بنیاد ٹھوس عقلی اور علمی دلائل پر ہونی چاہیے، کیونکہ مذکورہ جدید معاشرتی نظریات اور ان کے محرّک سائنسی نظریات کائنات کے خالق کا انکار کرتے ہیں لہٰذا ان کا طائرانہ جائزہ لینا ضروری ہے تاکہ ان کے فلسفے کی عقلی بنیاد کی مضبوطی کا تعیّن ہوسکے۔
آئیے دیکھتے ہیں کہ سائنسی اور جدید ہونے کا دعویٰ کرنے والے لبرل ازم اور سیکولر ازم کی اخلاقی اور نظریاتی بنیادیں اگر ہیں توکتنی مضبوط ہیں؟
کائنات کیسے بنی؟
اس کا جواب جدید ترین دریافتوں اور قابل ترین ملحد سائنسداں کے خیالات کی روشنی میں تلاش کرتے ہیں۔
کائنات اور زندگی کی تخلیق کے حوالے سے ان نظریات حیات کی بنیادیں سائنس اور سائنسی دریافتوں پر استوار تو ہیں مگر یہ اساس کتنی کھوکھلی یا مضبوط ہیں اس کا اندازہ جدید ایم تھیوری M-Theory سے لگایا جاسکتا ہے۔ گو کہ سائنس ٹھوس حقائق پر ہی انحصار کرتی ہے لیکن یہ تھیوری سائنسی مفکرّین کے خوابی تخیّلات کی مثال ہے۔ سپر اسٹرنگ تھیوریز Super-String-Theories کو یکجا کر کے سائنسدان ایک نئی تھیوری پر کام کر رہے ہیں جسے ایم۔تھیوری کا نام دیا جارہا ہے۔ اس مشترکہ تھیوری کی بنیاد خلا کے چند حقیقی مظاہر یعنی کانٹم غیر یقینی-Quantum-uncertainity ، کرَوڈ اسپیس( Curved-Space)، سپر سمِٹری Super-Symmetry، کوارک Quark، اسٹرنگ String اور ملٹی ڈائمنشن Multidimension پر مبنی ہے۔ ایم تھیوری فریم ورک میں ان سب کو مدغم کیا جارہا ہے۔
ایم تھیوری کائنات کے خود بخود وجود میں آنے کے تخیّل کو ایک منطقی جواز دینے کی کاوش ہے۔ یہ انتہائی پیچیدہ ہے اور اس کو عام انسان نہیں سمجھ سکتا. اس کے لیے فزکس کا ماہر ہونا ضروری ہے۔ اس کو مختصراً یوں سمجھیں کہ انتہائی پیچیدہ سائنسی مساوات کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اگر ہم 500 کو 500 سے 10 دفعہ ضرب در ضرب دیتے چلے جائیں تو اس کے حاصل کے برابر کائناتیں خود بخود بنیں اور فنا ہوئیں! یعنی لاتعداد۔ ایک بات تو یہ ہوئی۔
اب تخلیق کے مرحلے کی سائنسی روداد کا بھی مختصر ساجائزہ لیتے ہیں۔ اپنی کتاب دی گرینڈ ڈیزائن کے صفحہ 226 پر دورِحاضر کے قابل ترین اور ملحدوں کے سرخیل سائنسدان اسٹیون ہاکنگ لکھتے ہیں،
”اگر کائنات کی کْل توانائی کو ہمیشہ صفر ہی رہنا ہے اور کسی جسم کی تخلیق کے لیے توانائی ہی ضروری ہے تو کائنات کی تخلیق نیست nothing سے کیسے ہوسکتی ہے؟ اس کے لیے ضروری ہے کہ وہاں پر کشش ثقل gravity کا قانون ہو کیونکہ ثقل میں کشش اور ثقل کی توانائی منفی ہے۔ یہ منفی توانائی اس مثبت توانائی کو متوازن کرسکتی ہے جو مادّے کی تخلیق کے لیے ضروری ہے، لیکن یہ اتنا آسان نہیں ہے۔
یہی سائنسدان اسی کتاب کے صفحہ 227 پر رقمطراز ہیں: ”کیونکہ ایک قانونِ کشش ثقل موجود ہے تو کائنات نیست nothing سے اپنے آپ کو خود تخلیق کرسکتی ہے اور کرے گی! “
ذرا غور کریں کہ بقول ان کے تخلیق سے قبل جب کچھ نہیں تھا تو نیست nothing میں کشش ثقل کا قانون کیسے موجود ہوا؟ یعنی عدم میں اگر کوئی قانون موجود تھا تو وہ ماحول عدم یا نیست nothing نہیں ہوسکتا۔ مزید یہ کہ کشش کا تو تعلّق ہی مادے کے موجود ہونے سے ہے، مادہ ہے تو کشش ہے ورنہ کشش نہیں۔ اور اگر وہاں کشش ہے تو وہ نیست nothing نہیں۔
خدا سے سائنسدانوں کا بغض:
یہاں پر مذہب اور خدا سے کوئی دیرینہ بغض صاف عیاں ہے کیونکہ سائنس دانوں کے پاس اچانک تخلیق کا کوئی ٹھوس مواد نہیں ہے تو یہ زبردستی فرض کرلیا گیا ہے کہ کائنات کی ابتدا سے پہلے ایک قانون کشش ثقل موجود تھا۔ یہ کسی نظریے کو زبردستی ٹھونسنے یا کھینچ تان کر سائنسی بنانے کی منفرد مثال ہے جو بذات خود غیرسائنسی، غیرمنطقی اور غیر عقلی ہے۔ اسے جدید سائنس کا تخلیق کائنات کا انتہائی غیرمنطقی مفروضہ hypothesis ہی کہا جاسکتا ہے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ جب اہم ترین بنیادی نظریہ ہی تضاد پر مبنی ہو اور ابتدا میں ہی خود اپنی نفی کر رہا ہو تو اس پر بننے والا نظریہ حیات کیسے مستحکم ہوگا؟
اگر اس کا دوسرا استدلال یہ لایا جائے کہ بگ بینگ کے اندر قانون کشش ثقل موجود تھا لہٰذا تخلیق ہوئی، تو پھر آپ نیست کو زیربحث ہی کیوں لارہے ہیں؟ اس جملے میں نیست یا nothing کا تذکرہ ہی ظاہر کرتا ہے کہ تخلیق کائنات میں کسی بیرونی قوّت کے اثر انداز ہونے کو سائنس قبول کرنے پر مجبور ہے۔
تو وہ قوّت تو ابھی تلاش کرنی ہے نا!
یہی سائنسدان اسی صفحے پر آگے لکھتے ہیں،
”یہ اچانک تخلیقSpontaneous-creation ہی ہے کہ جس کی وجہ ہے یہاں نیست nothing کے بجائے کچھ something ہے۔کائنات کیوں موجود ہے اور ہم کیوں موجود ہیں، اس کے لیے خدا کوبیچ میں لانے کی ضرورت نہیں کہ جس نے کوئی نیلا کاغذ سلگا کر کائنات کو چلادیا۔“
ارے جناب آپ خود ہی تو فرمارہے ہیں کہ کائنات خود بنی مگر باہر سے کشش کی قوّت کی موجودگی سے تو یہ بھی تو بتائیں کہ یہ قوّت تخلیق سے پہلے کیسے موجود ہوئی؟ یہ تضاد کیسا؟
ایم تھیوری درحقیقت کائنات کی تخلیق اور اس کی ہیئت ترکیبی کو سمجھنے کا محض ایک نظریہ Theory یا مفروضہ ہے جسے کھینچ تان کر خدا کے انکار سے نتھی کیا جا رہا ہے۔ اس کے صحیح ہونے کا بھی یہ مطلب نہیں ہوسکتا کہ کائنات خود بنی! یہ تھیوری کسی پراسس یا تعمیری عمل کی محض علمی منظر کشی کے سوا اور کچھ نہیں۔ اور اگر یہ صحیح ثابت ہوتی بھی ہے تو اس سے ایک زبردست تخلیق کی تشریح سامنے آئے گی جبکہ خدا کے بغیر عدم سے خود بخود کائناتی تخلیق انتہائی متعصّب غیرعقلی نظریہ ہے جس کی کوئی عقلی اور علمی تشریح ہونا ناممکن ہے۔
تخلیقِ کائنات کی سائنسی تشریح :
اسے بغور پڑھیں اور سر دُھنیں!
”کیونکہ قانونِ کشش ثقل کی وجہ سے کائنات خود بخود بن سکتی ہے لہٰذا اس عمل سے لاتعداد کائناتیں بنتی، ٹوٹتی اور فنا ہوتی رہیں لیکن ہماری کائنات اْن لاتعداد میں ایک ہے جو فنا نہیں ہوئی۔ بےشمار کائناتوں کی تخلیق اور فنا کے دوران کسی ایک کا قائم رہ جاناامکانات میں ہے! یہ ایک اتفاق ہے اور قانون امکان Law-of-probability کے تحت ممکن ہے، طبعی قوانین، فطری قوّتیں اور زندگی بھی ماحولیاتی اتّفاق سے وجود میں آئے۔ سارانظام کائنات انہی طبعی قوانین پر چل رہا ہے۔“
یہ کتنا عقلی اور منطقی ہے خود فیصلہ کرلیں۔
تخلیق کائنات کی مذہبی تشریح
مندرجہ بالا تشریح کا ماحصل یہ بھی تو ہوا کہ اگر کوئی قوّت یعنی کشش کائنات کے وجود سے پہلے بھی موجود تھی جس کے اثرانداز ہونے سے کائنات بنی ہے تو سائنس اس کو کوئی بھی نام دے ہم اسے لامحدود قوّت والی ہستی کا اذن کہتے ہیں۔ یہ تو اللہ کی لامحدود ہستی کا ارادہ تھا جس نے کائنات تخلیق کی اور اس کے نظام کو چلانے کے قوانین بنائے جن کو ہم آفاقی قوانین کہتے ہیں۔ کشش یا کوئی مخفی بیرونی کردار اس لیے موجود ہوگا کہ اس کی تخلیق پہلے کی گئی ہوگی یعنی یہ ایک تخلیقی پراسس کا حصہ رہا ہوگا۔ ہماری یہ تشریح بھی اب تک کی سائنسی پیش رفت پر ہی مبنی ہے کیونکہ کل کی دریافتوں کا پتہ نہیں۔ یہی منطقی اور عقلی استدلال ہے جو سائنسی توجیہ میں مفقود ہے۔ سائنس ایک طرف خدا سے لاتعلْقّی کا اظہار کرتی تو دوسری طرف مجبوری میں اشارتاً قبول بھی کرتی ہے۔
انسانیت کے رہنما:
سوال یہی ہے کہ کیا انسانیت کی نظریاتی رہنمائی ان چند لوگوں پر چھوڑی جاسکتی ہے جن کے اخلاص پر تو ہم شبہ نہیں کرتے کیونکہ وہ علم طبعیّات کے اصولوں کے حساب سے ہی تحقیق کر رہے ہیں لیکن غور طلب یہ بات ہے کہ ایک غیریقینی اور غیرمصدّقہ نظریہ کس طرح انسانوں کے لیے مفید اور دائمی نظریہ حیات کی بنیاد بن سکتا ہے؟
جدید لامذہب فلسفے جن کی بنیاد مادیّت ہے مثلاً لبرل ازم، سیکولرازم اور جمہوریت انسانیت کی رہنمائی کے ارفع مرتبہ پر فائزہونے کے اس لیے اہل نہیں کیونکہ یہ انتہائی کمزور علمی بنیاد پر ایستادہ ہیں، ان کے پاس انسان اور کائنات کے موجود ہونے سے متعلّق کوئی معقول عقلی نظریہ ہے ہی نہیں۔ اسی لیے جدید معاشرتی نظریات انسان کو نہ تو ٹھوس حیاتی فلسفہ دیتے ہیں اور نہ ہی اخلاقیات کی کوئی مستند بنیاد بتاتے ہیں بلکہ خود انسان ہی کو بر تر قرار دے کر اسے جمہوریت کے ذریعے ہر قانون اور اخلاق کی تشریح کا خوگر بناتے ہیں جو بے شمار خرابیوں کی بنیاد ہے۔ در حقیقت یہ جدید نظریات انسان کو محض علمی اور نظریاتی بحث میں الجھا کر اس کی منزل کو دھندلا دیتے ہیں کیونکہ اگر انسا ن اپنے آپ کو صرف فطرتی اور طبعی ماحول سے جوڑتا ہے تو اخلاقیات کی وہ تمام بنیادیں اپنا جواز کھو دیتی ہیں جو الہاٰمی احکامات کی روشنی میں متعین ہوئی ہیں۔ اس کی بہترین مثال ان لامذہب نظریات اور اصولوں یعنی سیکولرازم اور لبرل ازم پر معاشرہ تعمیر کرنے والے وہ مغربی ممالک ہیں جہاں پر مادی ترقی تو بےمثال ہے لیکن دوسری طرف اب ایسے قوانین بن چکے ہیں جس میں مرد کی مرد سے شادی قانونی قرار دے دی گئی ہے اور جہاں مرد اور عورت بغیر نکاح کے قانونی طور پر رہ سکتے ہیں! بلکہ اس سے بھی ایک قدم آگے جانوروں کے ساتھ شادی کا اختیار بھی مانگا جا رہا ہے. اب آگے مزید کیا ہوسکتا ہے عیاں ہے !
ان نظریات کی مثال اس خوبصورت اور پرشکوہ پانی کے جہاز کی ہے کہ جس کی منزلیں بہت بلند ہوتی ہیں لیکن ان کی بنیاد پانی پر تیرتی ہے۔ صرف ایک سوراخ اسے ڈبونے کے لیے کافی ہے۔
ان اصطلاحات کا متواتر استعمال ہمارے ذہن میں لاشعوری طور پر مذہب سے دوری کا ایک تاثر قائم کرتا ہے جو رفتہ رفتہ شعوری ایمان کو کمزور کرسکتا ہے۔ لہٰذا ایک مسلمان کے لیے ضروری ہے کہ ایسی اصطلاحات جو میڈیا اور دوسرے ذرائع سے سامنے آتی ہیں ان کے پس منظر کو جانے اور پھر ان کے معنوں کو سمجھتے ہوئے ایک پوزیشن اختیار کرے کیونکہ نادانستگی میں بھی اللہ کی حاکمیت سے انکار ایک مسلمان کے لیے نا قابل ِ قبول ہی ہوگا۔ خود کو لبرل اورسیکولر کہنا بالواسطہ اللہ کی حاکمیّت اعلیٰ سے انکار ہے۔
ذرا سوچیں، اور اپنے آپ کو صرف مسلمان کہیں! ہاں اگر اپنا کوئی منفرد سیاسی اور نظریاتی تشخص دکھانا ہے تو بھائی اپنی کوئی اصطلاح بنالیں محض فیشن میں لبرل بننا مناسب نہیں۔
اگر مندرجہ بالا گزارشات غلط ہیں تو میری اصلاح فرما دیں۔
تبصرہ لکھیے