کل صبح جب میں اپنے کالج کے داخلے کے لیے گیا تو ایک نیا منظر میری نظر سے گزرا جس نے میرے ذہن میں ایک ایسا خیال جگایا جو میں نے پہلے کبھی اتنی گہرائی سے نہیں سوچا تھا۔ میری روزمرہ کی زندگی میں معمول کے مطابق دوڑ بھاگ، پریشانیوں کا سامنا، اور چند لمحوں کی خوشی کی تلاش تھی مگر آج کا دن کچھ مختلف تھا۔ جب میں کالج کے دفتر پہنچا تو وہاں ایک کلرک بیٹھا ہوا تھا اور اس کی حالت دیکھ کر مجھے احساس ہوا کہ ہماری زندگی کے بارے میں ہمارے خیال اور حقیقت میں کتنا بڑا فرق ہوتا ہے۔
کلرک ایک میز کے پیچھے بیٹھا تھا اور میں نے نظریں اس پر مرکوز کیں جب اس نے سگریٹ کے کش بڑے مزے سے لیے۔ وہ بظاہر اپنی دنیا میں گم تھا۔ دنیا کی تمام پریشانیاں اس کے ارد گرد کے ماحول کی گونج سے کہیں دور تھیں اور وہ اپنی مستی میں مگن تھا۔ ایک طرف اس کی زندگی کی سادگی اور اس کی دنیا کی خاموشی تھی اور دوسری طرف ہم جیسے لوگ تھے جو زندگی کی بے شمار پریشانیوں میں گھومتے رہتے ہیں بغیر یہ جانے کہ ہمیں حقیقت میں کیا چاہیے۔
یہ منظر میرے لیے ایک حیرانی کا باعث بن گیا۔ میں نے سوچا “یہ کلرک جو شاید میری طرح ہر دن کے لیے سخت محنت کرتا ہے اور شاید کم تنخواہ پر کام کرتا ہے . وہ کیوں اتنی بے فکری سے سگریٹ کے کش لگا رہا ہے؟ اس کی زندگی میں کوئی پریشانی کیوں نہیں؟ کیا وہ اپنے حالات سے خوش ہے؟ میں نے اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون کی جھلک دیکھی جو میرے ذہن میں ایک سوال کھڑا کر گیا: کیا ہمیں واقعی زیادہ پیسہ چاہیے ہوتا ہے تاکہ ہم خوش ہو سکیں؟
ہم میں سے اکثر لوگ یہی سوچتے ہیں کہ اگر ہماری آمدنی زیادہ ہو جائے تو ہم خوشحال ہو جائیں گے ، ہمارے سارے مسئلے حل ہو جائیں گے اور ہم اپنے تمام خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں گے۔ ہم اپنی زندگی کے سب سے بڑے مسائل کو پیسوں کی کمی سے جوڑتے ہیں اور اس بات کا یقین رکھتے ہیں کہ اگر ہم مالی طور پر مستحکم ہو جائیں تو ہماری زندگی میں سکون اور خوشی آ جائے گی۔ لیکن اس کلرک کو دیکھ کر میری سوچ بدل گئی۔ اس کی زندگی میں شاید مالی استحکام نہ ہو لیکن اس کا سکون اور خوشی اس کی آنکھوں میں صاف دکھائی دے رہا تھا۔
کلرک کے چہرے پر ایک عجیب سی سکون کی جھلک تھی گویا وہ دنیا کی تمام پریشانیوں سے آزاد تھا۔ اس کا دماغ ہر وہ چیز جو اس کے ارد گرد ہو رہی تھی اس سے بے پرواہ تھا۔ اس کے ہاتھ میں سگریٹ تھا اور وہ اس سے کش لے کر ایک لمحے کے لیے دنیا کو بھول چکا تھا۔ اس کے لیے یہ لمحہ اتنا قیمتی تھا کہ اس نے اپنے ارد گرد کی ہر پریشانی کو ایک طرف کر دیا تھا۔ اور میں یہ سوچنے لگا، "کیا ہم بھی اس سکون کو اپنی زندگی میں لے سکتے ہیں؟ کیا واقعی خوشی کے لیے ہمیں زیادہ پیسہ یا کامیابی کی ضرورت ہوتی ہے؟
ہم انسان ہمیشہ خود کو مادی چیزوں میں خوشی کی تلاش میں پاتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ اگر ہمارے پاس بڑی گاڑی، بڑا گھر، یا دنیا کی ہر سہولت ہو، تو ہماری زندگی مکمل ہو گی۔ لیکن اس کلرک کی سادگی اور اس کی مسکراہٹ نے مجھے یہ سکھایا کہ خوشی کا تعلق ہماری موجودہ حالت سے زیادہ ہماری سوچ سے ہوتا ہے۔ اس کی زندگی میں نہ تو کوئی بڑی گاڑی تھی، نہ کوئی شاہانہ طرز زندگی، مگر وہ اپنے کام میں مطمئن تھا اور اس کی خوشی اس کے ارد گرد کے ماحول سے آزاد تھی۔
میرے دل میں کئی سوالات ابھرنے لگے۔ ہم دنیا کے پیچھے دوڑتے ہیں، کامیابی کی جھوٹی تصاویر بنانے کی کوشش کرتے ہیں اور آخرکار جب ہم اس مقام پر پہنچتے ہیں جسے ہم نے اپنی کامیابی سمجھا تب بھی ہمیں سکون نہیں ملتا۔ اس کلرک کا منظر میرے لیے ایک حقیقت بن گیا کہ کامیابی اور خوشی کا تعلق صرف پیسہ کمانے سے نہیں بلکہ اپنے اندر کی سکونت اور اطمینان سے ہوتا ہے۔ اس کی سادگی نے مجھے یہ سکھایا کہ شاید سکون کا راز اس میں نہیں ہے کہ ہم کتنے پیسوں کے مالک ہیں بلکہ اس میں ہے کہ ہم اپنے اندر کا سکون تلاش کریں۔
ہم جتنی زیادہ چیزیں چاہتے ہیں اتنی ہی زیادہ پریشانیاں اور خواہشیں ہمارے دل میں پیدا ہوتی ہیں۔ اور یہ خواہشیں ہمیں سکون سے دور کرتی ہیں۔ اسی لیے اکثر ہمیں یہ محسوس ہوتا ہے کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں وہ ہمیں مکمل طور پر خوش نہیں کر پا رہا۔ لیکن اس کلرک کی زندگی جو بظاہر سادہ تھی مجھے یہ بتاتی ہے کہ شاید ہمیں اس سکون کو محسوس کرنے کے لیے زیادہ کچھ حاصل کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ اپنی موجودہ حالت میں خوش رہنا سیکھنا ہوگا۔
یہ منظر میرے لیے ایک سبق بن گیا کہ ہم جتنی زیادہ دنیاوی چیزوں کے پیچھے دوڑتے ہیں اتنی ہی زیادہ خوشی ہم سے دور ہو جاتی ہے۔ ہم جتنی زیادہ چیزوں کی خواہش کرتے ہیں ہماری پریشانیاں اتنی ہی بڑھتی ہیں۔ اس کلرک نے مجھے سکھایا کہ خوشی کا تعلق ہماری سوچ سے ہے اور جب ہم اپنے دل میں سکون اور شکرگزاری کی جگہ پیدا کر لیتے ہیں تو ہم کسی بھی مشکل یا پریشانی میں خوش رہ سکتے ہیں۔
اس کے بعد میں نے اپنے آپ سے سوال کیا، کیا میں اپنی زندگی میں اس سکون کو تلاش کر سکتا ہوں؟ کیا میں بھی اس کلرک کی طرح اپنی پریشانیوں کو ایک طرف کر کے اپنی زندگی میں سکون لا سکتا ہوں؟" اور جواب تھا ہاں، اگر ہم اپنی زندگی کی چھوٹی چھوٹی خوشیوں کا احساس کریں تو ہم کسی بھی مشکل میں خوش رہ سکتے ہیں۔ سکون ہمیں باہر کی دنیا سے نہیں بلکہ اپنے اندر سے ملتا ہے۔
اس کلرک کو دیکھ کر میں نے یہ سیکھا کہ دنیا کی تمام پریشانیوں کے باوجود انسان اپنے اندر کا سکون اور خوشی تلاش کر سکتا ہے۔ یہ سکون کسی بھی مادی چیز سے نہیں آتا بلکہ یہ ہمارے اپنے دل میں ہوتا ہے۔ ہم جب اپنی موجودہ حالت کو قبول کرتے ہیں اور اس میں خوش رہنا سیکھتے ہیں تو ہمیں زندگی کی اصل خوشی ملتی ہے۔
آخرکار وہ کلرک میرے لیے ایک علامت بن گیا کہ خوشی کی حقیقت مادی دنیا سے نہیں بلکہ ہمارے اندر سے ہے۔
دنیا کی خاموشی میں جب ہم اپنے دل کی آواز سنتے ہیں تو ہم سچی خوشی اور سکون پاتے ہیں۔
تبصرہ لکھیے