ہوم << امت کا سپہ سالار چلا گیا - فیض اللہ خان

امت کا سپہ سالار چلا گیا - فیض اللہ خان

امت کا سپہ سالار چلا گیا . امت کے بیٹے کے جانے پہ امت سے ہی تو تعزیت بنتی ہے !

امت سے تعزیت نہ کریں تو کس سے کریں ؟ کلف لگی وردیوں پہ سجے بےشمار تمغوں والے روح سے یکسر خالی ابدان سے کہ جن کے دامن میں عثمانیوں کے بعد ایک انچ مقبوضہ اراضی حاصل کرنے کی کوئی تاریخ نہیں ، ہاں مگر اپنے لوگوں اور زمینوں کو مفتوح بنانے کا اچھا ریکارڈ رکھتے ہیں۔

کیا مسلم خطوں پہ قابض حاکموں سے تعزیت کریں ؟ کہ جنہیں عثمانیوں کے بعد استعمار نے اپنے سہولت کار کے طور پہ ہم پہ چھوڑ رکھا ہے؟

یہ تعزیت اس ظالمانہ قوم پرستی کے دعویداروں سے کریں کہ جن کے مطابق ان کے سوا کوئی مظلوم نہیں اور جو مظلوموں میں تفریق کے قائل ہیں؟

ان لبرل سیکیولر کمیونسٹ افکار سے لتھڑے اذہان سے کریں کہ جن کی زہریلی لپلپلاتی زبانیں ہمیشہ اسلام و مسلمانوں کو کمزور دیکھ کر کھلتی ہیں ؟

نہیں ، یہ تعزیت امت کے ہر اس شخص سے بنتی ہے کہ جو رنگ، نسل اور فرقے کی تفریق سے ماوراء ہوکر " مہمان " کے نام سے افسانوی شہرت پانے والے کماندان سے عقیدت و محبت رکھتا ہے

بلکہ ٹھہریے! یہ تعزیت ہر اس انصاف پسند سے بنتی ہے کہ جو رنگ و نسل اور مذہب و نظریہ کی تفریق سے بالا تر ہوکر حق کے ساتھ خود کو کھڑا پاتا ہے
اور یہ تعزیت ان بہادروں سے بھی بنتی ہے کہ جو مذہب و نظریہ کے بندھن میں بندھے بغیر فقط شجاعت و ہمت اور استقلال کی بنیاد پہ بہادروں کو پسند کرتے ہیں

شط العرب کا کماندان کوئی پچیس برس باجبروت طاقتور غاصبوں کے سامنے پرچم اٹھائے کھڑا رہا . خدا کے اس بندے نے محض ایمان، توکل اور حکمت کے توشے سے ٹیکنالوجی، وسائل، طاقت اور سب کچھ جان لینے کا دعویٰ رکھنے والوں کو دھوکے میں ڈالے رکھا کہ وہ معذور ہے، اس کی نقل و حرکت ایک بڑا مسئلہ ہے، مگر جب راز کھلا بلکہ قدسیوں نے خود ہی آشکار کیا تو دنیا کے سارے استخباراتی اداروں کو معلوم ہوا کہ وہ ہاتھ پیر سلامت رکھنے والا ایسا شیر دل تھا کہ جس نے غاصبوں کے ٹیکنالوجی سے بھرپور سات جان لیوا حملے ناکام بنائے.

گزشتہ تیس برس میں بندوق کے ذریعے تاریخ کا دھارا بدلنے والے قائدین آپس میں حکمت عملی اور فکر کا کتنا ہی اختلاف کیوں نہ رکھتے ہوں ، قدر مشترکہ یہ ہے کہ خود بھی قربان ہوتے ہیں، اور اپنی آل اولاد کی قربانی دینے کی ہمت بھی رکھتے ہیں، کابل تا دمشق، قدس تا شیشان ایک نہیں درجنوں امثال بھری پڑی ہیں.

ہمارا کماندار افق کو اپنے لہو کی سرخی دے کر اس پار چلا گیا، مگر اس سے بہت پہلے ایک خونخوار حملے میں بیوی بچے قربان کر گیا . یہ کہنے ، سننےاور پڑھنے میں بہت آسان مگر عمل میں ناممکن جیسا عمل ہے.

ہمارا کماندار چاہتا تو زندگی بھرپور طریقے سے جی سکتا تھا، " ڈیل " کرسکتا تھا ، غاصب ریاست ایسوں کو سونے میں نہیں ہیروں میں تولنے کو تیار ہوتی ہے. وسائل، نعمتیں، جاگیریں، شہریتیں، پنج ستارہ ریستورانوں میں کانفرنسوں کی سربراہی، تھنک ٹینک اور امریکی و یورپی جامعات میں سیمینار، شرم الشیخ میں تفریح کے مواقع . کاریں، گھر ، جہاز ، جزیرے ،کاروبار ، انٹرویوز ، دستاویزی فلمیں ، ہالی وڈ کی فلمیں، نیٹ فلیکس کی سیریز ، امن کا نوبل انعام وغیرہ وغیرہ، غرض فہرست لمبی، خواہشات لامحدود ، مگر وہ کیا ہے کہ زندگی بہت محدود ۔

ضیف! خدا آپ پہ، ساتھیوں پہ رحمتوں کا نزول فرمائے، بیشک آپ نے مادیت کے جال کو کاٹ ڈالا ، آپ ہمیشہ کے لیے زندہ ہوگئے

کسی دور صحرائی مقام سے لیکر بلند و بالا کہسار تک ، سرنگوں کی زیر زمین آباد عشق کی بستیوں سے لیکر ٹوٹی پھوٹی دیہاتوں کی مساجد تک، یہاں تک کہ امت کے نوجوانوں کے دلوں تک، ہر جگہ آپ زندہ رہیں گے. کسی لوک گیت میں، کسی رزم گاہ میں، کسی نعرے میں اور قدس کی ہواؤں کی سرسراہٹ میں ۔۔۔

ہم آپ کو یاد رکھیں گے. آپ کے حوصلے، عزم، ارادے ، اور ولولے کو دل کے نصاب کا حصہ بنائیں گے اور پھر ایک دن آئے گا جب آپ کی طرح ہم باقی امت بھی " آزاد " ہو جائیں گے
انا للہ وانا الیہ راجعون

Comments

فیض اللہ خان

فیض اللہ خان اے آر وائی نیوز سے وابستہ ہیں۔ سیاسی، سماجی، مذہبی اور دہشت گردی سے متعلق امور پر رپورٹنگ کرتے ہیں جبکہ مختلف ڈیجٹل پلیٹ فارمز پہ عالمی اور علاقائی موضوعات پہ گفتگو کرتے ہیں۔ بی بی سی، وائس آف امریکہ، ٹی آر ٹی سمیت مختلف بین الاقوامی نشریاتی اداروں اور ہندوستانی و بنگلہ دیشی چینلز پر بھی تجزیہ دیتے ہیں۔ پاکستانی انگریزی اخبارات ڈان اور دی نیوز کی مختلف رپورٹس میں بھی ان کے تجزیہ شامل ہوتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر قارئین کا وسیع حلقہ رکھتے ہیں۔ افغانستان میں اپنی اسیری کے تجربات پر مشتمل کتاب ڈیورنڈ لائن کا قیدی کے مصنف ہیں۔

Click here to post a comment