ہوم << امام ابوحنیفہ، منبع علم و عرفان - حفصہ قدوس

امام ابوحنیفہ، منبع علم و عرفان - حفصہ قدوس

امام اعظم ابو حنیفہ رحمہ اللہ 80 ہجری میں علم وتحقیق کے مرکز کوفہ میں پیدا ہوئے ۔ امام صاحب کا نام نعمان بن ثابت اور کنیت ابو حنیفہ ہے۔ حنیفہ دوست کو کہتے ہیں۔ امام صاحب کے پڑھنے پڑھانے کی مصروفیات کی وجہ سے آ پ کی کنیت ابو حنیفہ مشہور ہوگئی ۔آ پ کے آباؤاجداد کے بارے میں یہ پتا چلتا ہے کہ انہوں نے فارس سے ہجرت کی تھی ۔ والد ایک دولت مند تاجر اور بہت نیک مسلمان تھے ۔ امام صاحب کے تابعی ہونے میں اتفاق ہے کیونکہ انہوں نے متعدد صحابہ کی زیارت کی ہے۔

ابتدائی تعلیم آ پ نے کوفہ میں میں حاصل کی ۔ بنیادی علوم سے فراغت کے بعد آپ آبائی پیشہ تجارت میں مصروف ہو گئے۔ ایک دن ان کی ملاقات امام عامر شعبی سے ہوئی۔ انہوں نے اپ کو علماء کی مجالس میں بیٹھنے کا مشورہ دیا۔امام عامر شعبی کی بات آپ کے دل کو لگی اور اپ نے دین کی تعلیم و تعلم کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیا ۔

علوم نبوت میں سے فقہ ایسا علم ہے جس کا تعلق عام انسانوں کی زندگی کے مسائل سے ہے۔ امام ابو حنیفہ نے مختلف علوم حاصل کیے۔ پھر فقہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ فقہ میں امام صاحب نے امام حماد کی شاگردی کو چنا۔ کچھ ہی عرصے میں آپ امام حماد کے خاص شاگردوں میں شمار ہونے لگے۔ اپ امام حماد کی بہت زیادہ عزت کیا کرتے تھے اور فرمایا کرتے تھے کہ میں ہر نماز میں اپنے والدین کے ساتھ ساتھ امام حماد کے لیے بھی دعا کرتا ہوں۔

مسائل فقہ میں احادیث سے مسائل کی تخریج نہایت اہم ہے۔ اس لیے امام صاحب علوم حدیث کی طرف متوجہ ہوئے۔ اس دور میں علوم حدیث کے حوالے سے مکہ معظمہ مدینہ منورہ یمن بصرہ اور کوفہ قابل قدر شہر تھے۔ امام صاحب نے کوفہ کے تقریبا تمام حلقات حدیث میں حاضر ہونے کا شرف حاصل کیا۔ امام شعبی کا حلقہ حدیث کوفہ میں بہت مشہور تھا۔ جس طرح فقہ میں امام صاحب کے استاد حضرت حماد ہیں اسی طرح علم حدیث میں امام صاحب کے نمایاں استاد امام شعبی ہیں۔ تحصیل حدیث میں نام صاحب نے بصرہ کا رخ بھی کیا مسئلہ بھی اس وقت علم حدیث کے حوالے سے نہایت اہم شہر تھا نام صاحب نے بصرہ میں شعبہ اور قتادہ سے سند حدیث میں مہارت حاصل کی۔حصول علم حدیث میں حرمین شریف کا سفر از حد ضروری تھا کیونکہ نزول وحی کے اصل مراکزاور علوم حدیث کا منبع و ماخذ یہی شہر تھے۔ امام صاحب نے حرمین کے بھی بہت سے شیوخ حدیث سے استفادہ کیا۔ ان میں عطا ابن رباح اور عکرمہ کا نام قابل ذکر ہے۔ حدیث میں امام صاحب کے اساتذہ کی تعداد 4000 سے زائد بتائی جاتی ہے۔

جب امام صاحب تدریس کی طرف متوجہ ہوئے تو آپ کا طریقہ یہ تھا کہ آپ پہلے مسائل کے حل کے لیے قران پاک کی طرف رجوع فرماتے اس کے بعد احادیث کی طرف اس کے بعد اقوال صحابہ کی طرف ۔ آپ اجتہاد بھی فرمایا کرتے تھے اور اپ کے اجتہاد کی بنیاد قران اور احادیث مبارکہ ہی ہوتی تھی۔ آ پ کے درس کی انہی نمایاں خصوصیات کی وجہ سے آپ کا درس نہایت مشہور ہوا۔ یہاں تک کہ اساتذہ خود بھی اس میں شریک ہوتے اور اپنے شاگردوں کو بھی اس میں شریک ہونے کی تلقین کرتے تھے۔ آپ نہایت تحمل اور برداشت کے حامل انسان تھے۔اپنے شاگردوں کی مکمل خبرگیری کیا کرتے تھے۔ معاشی مسائل میں ان کی مدد کیا کرتے تھے۔ان کے اخلاق پر گہری نظر رکھا کرتے تھے۔اپنی شاگردوں سے فرمایا کرتے تھے کہ تم میرے دل کا سرور اور غم و حزن کے زوال کا سبب ہو۔

منصور نے اپنے دور حکومت میں امام صاحب کو منصب کی پیشکش کی۔ دراصل وہ امام صاحب کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف تھا اس لیے چاہتا تھا کہ انہیں منصب کی بیڑیوں میں جکڑ دیا جائے۔ لیکن امام صاحب نے منصب قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ اس پر منصور نے انہیں پابند سلاسل کر دیا۔ وہاں بھی آپ کا فیض نہ رکا۔ منصور نے آ پ کو بے خبری میں زہر دلوا دیا ۔ جب آ پ کو زہر کا احساس ہواتو آ پ سجدے چلے گئے اور اسی حالت میں اپنی جان اللہ کے حوالے کر دی۔ اپ کی وفات 150 ہجری بروز جمعہ ہوئی۔ آپ کی وصیت کے مطابق آپ کو خیزران کے قبرستان میں دفن کیا گیا ۔

آپ کے استاد حسین بن عمارہ آپ کو غسل دیتے وقت روتے ہوئے کہتے جارہے تھے: "آپ نے تیس سال سے افطار نہیں کیا اور چالیس سال سے رات کو آرام نہیں کیا۔اپ ہم سب میں سب سے زیادہ عابد، سب سے زیادہ پرہیزگار تھے۔"