ہوم << غریب باپ کا بیٹا - محمد عرفان ندیم

غریب باپ کا بیٹا - محمد عرفان ندیم

عرفان ندیم وہ بولے ’’ میں ایک غریب باپ کا بیٹا ہوں اور مجھے پتا ہے کون سی چیز کس بھاؤ بک رہی ہے، مجھے سبزیوں، دالوں، آٹے اور گوشت سب کی قیمتوں کا پتا ہے اور میں جانتا ہوں کہ پاکستان میں کتنی مہنگائی ہے اور ایک غریب آدمی کس طرح زندگی گزارتا ہے‘‘
میں نے زور دار قہقہہ لگایا، ان کی بات ہوا میں اڑائی اور پوچھا: ’’ آپ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ آپ ایک غریب باپ کے بیٹے ہیں‘‘
وہ رکے ،سانس لی اور گویا ہوئے ’’دیکھو جب میں اپنے گاؤں سے اٹھ کر شہر آیا تھا تو میرے پاس ایک ٹوٹی ہوئی موٹر سائیکل تھی، لاہور میں میرا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا، میں نے یہاں کے ہوسٹلوں کے دھکے کھائے ہیں، جب پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتا تھا تو پارٹ ٹائم جاب کر کے اپنے اخراجات چلاتا تھا۔ میرے پاس گھر نہیں تھا، ہاسٹل میں ٹھہرنے کے لیے کرایہ نہیں تھا اور کھانے کے لیے پیسے نہیں تھے، میں چوبیس گھنٹوں میں ایک بار کھانا کھاتا تھا، اٹھارہ گھنٹے کام کرتا تھا اور جب بھی اپنے گاؤں جاتا تھا تو ٹوٹی ہوئی موٹرسائیکل پر گھر جاتا تھا۔ میں اپنی فیملی کو لاہور شفٹ کرنا چاہتا تھا لیکن میرے پاس وسائل نہیں تھے، میں نے کسی سے ادھار پکڑ کر یہاں ڈھائی مرلے کا گھر خریدا تھا، میرے والد ضعیف تھے اور میرے پاس ان کے علاج کے لیے پیسے نہیں ہوتے تھے، لیکن پھر میرے اللہ نے کرم کیا اور میرے حالات بدلنا شروع ہوگئے۔ میں نے اپنے گاؤں کی زمین بیچ کر لاہور میں پانچ مرلے کا ایک پلاٹ خریدا، میرے والد پٹواری تھے، انہوں نے مشورہ دیا اور میں نے یہ پلاٹ بیچ کر اس سے دو پلاٹ خرید لیے۔ پانچ سال بعد یہ پلاٹ آبادی میں آگئے اور ان کی قیمت میری سوچ سے زیادہ بڑھ گئی، اب میرے پاس دو آپشن تھے، میں ان دو پلاٹوں میں اپنا خوبصورت سا گھر بناتا، ساری زندگی اس گھر پر فخر کرتا رہتا اور باقی ساری زندگی ملازمت کرتے ہوئے گزرا دیتا، اور دوسرا آپشن تھا کہ میں کرائے کے فلیٹ میں ہی رہائش پذیر رہتا اور یہ دونوں پلاٹ بیچ کر ان سے کوئی کارو بار کر لیتا ، میں نے والد صاحب سے مشورہ کیا، انہوں نے مجھے کارو بارکی تجویز دی اور میں نے بزنس میں ’’ ان ‘‘ ہو نے کا ارادہ کر لیا۔ میں نے وہ دو پلاٹ بیچے اور ان کے عوض شہر سے کچھ دور دو کنال زمین خرید لی، دو سال بعد یہ دوکنال بھی آبادی میں آگئی، میں نے اس جگہ کی پلاٹنگ کی اور اسے بیچ کر اس کے ساتھ ہی ایک ایکڑ مزید خرید لیا، میری لوگوں کے ساتھ ڈیلنگ اچھی تھی اور یوں اس علاقے میں میرا نام معتبر ٹھہرا۔ میں نے آہستہ آہستہ ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کی بنیاد رکھ دی اور کچھ ہی عرصے بعد میں ایک ہاؤسنگ سوسائٹی کا مالک تھا اور پھر اس کے بعد میرا اللہ مجھے نوازتا گیااور آج میں اس جگہ پر ہوں جہاں تم مجھے دیکھ رہے ہو۔ آج میں دو تین دو سائیٹس کا مالک ہوں، میرا اربوں میں بینک بیلنس ہے، چھ کروڑ کی گاڑی میرے نیچے ہے اور پچیس گاڑیاں میرے آفس کے باہر کھڑی رہتی ہیں۔ میرے بچے شہر کے بہترین اسکولوں میں پڑھتے ہیں، میرے بیٹوں کے پاس مہنگی ترین گاڑیاں ہیں، میں شہر میں جس جگہ چاہوں مہنگی سے مہنگی کوٹھی خرید سکتا ہوں، میں اپنا گھر تبدیل کرتا رہتا ہوں اور میں نے شہر کے ہر اچھے علاقے میں گھر خریدا ہے۔ اب میں ایک ادارے کا مالک ہوں جس میں دو سے تین سو افراد کام کرتے ہیں، میں انہیں روزگار بھی دے رہا ہوں اور ان کی روٹی روزی کا بھی بندوبست کرتا ہوں۔ میں باہر کے ٹوور بھی کرتا ہوں اور ہر سال حج اور عمرے پر بھی جاتا ہوں۔ شہر کے باااثر افراد میرے پاس آکر دو زانو بیٹھتے ہیں، ٹی وی اینکر میری چاپلوسی کرتے ہیں، یونیورسٹیوں کے پروفیسر مجھ سے وقت مانگتے ہیں، وکلاء میرے دفتر آ کر طویل گفتگو چاہتے ہیں اور مذہبی لوگ مجھے دین کی طرف لانے کے لیے ’’مسلسل‘‘ حاضری کو یقینی بناتے ہیں۔ تو یہ ہے میری کہانی، میں نے غربت کی جھولی میں آنکھ کھولی، فا قہ و افلاس نے مجھے جھولا جھلایا اور بےروزگاری، تنگ دستی اور پریشانی نے میری جوانی کا استقبال کیا۔ اس لیے میں آج جان سکتا ہوں کہ ایک غریب آدمی کی زندگی کس طرح گزرتی ہے اور اس ملک میں کون سی چیز کس بھاؤ بک رہی ہے‘‘
ان کی اتنی ’’متاثر کن‘‘ گفتگو کے باوجود میں کافر ہی رہا اور عرض کیا ’’ہمارے معاشرے میں دو طرح کے کامیاب لوگ پائے جاتے ہیں، ایک وہ جنہیں کامیابی ورثے میں ملتی ہے اور انہیں خود سے کوئی خاص محنت نہیں کرنی پڑتی، یہ کامیابی کامیابی نہیں ہوتی بلکہ خوش قسمتی ہوتی ہے، دوسرے وہ لوگ جو اپنی محنت سے کامیاب اور ’’بڑے‘‘ لوگ بن جاتے ہیں، قدرت جب کسی انسان کو حقیقت میں کامیاب اور بڑا بنانا چاہتی ہے تو پہلے اسے خود مسائل کی چھلنی میں سے گزارتی ہے، بار بار اس کے عزم اور حوصلے کو آزماتی ہے اور بڑا بننے کے بعد بھی مسلسل اس کی نگرانی کرتی اور اس کا امتحا ن لیتی رہتی ہے، لیکن بہت کم لوگ ایسے ہوتے ہیں جو اس امتحان میں پاس ہو ں اور جو امتحان میں پاس نہ ہوں قدرت انہیں واپس اپنے اصل کی طرف لوٹا دیتی ہے اور خاکم بدہن آپ کامیاب لوگوں کی اسی دوسری کیٹگری سے تعلق رکھتے ہیں ۔‘‘ میں نے بات ختم کی تو ان کے چہرے کا رنگ متغیر ہوچکا تھا. میں ان کے دفترمیں بیٹھ کر انہیں آئینہ دکھا رہا تھا، انہوں نے پہلو بدلا، ٹھنڈے پا نی کا گھونٹ بھرا اور مجھ سے تفصیل چاہی. میں نے عرض کیا ’’جناب ابھی چند دن پہلے عید گزری ہے، آپ نے عید سے پہلے اپنے ملازمین کو تنخواہیں دیں؟ آپ نے انہیں عیدی یا سالانہ بونس دیا؟ آپ اپنے ملازمین سے عید ملے اور اپنے ملازمین کے ساتھ عید گزرای؟ آپ کو تو شاید یہ بھی علم نہیں ہوگا کہ آپ کے ادارے کے کتنے ملازمین صرف اس وجہ سے گھر نہیں جا سکے کہ انہیں تنخواہیں نہیں دی گئیں، آپ کو یاد ہے رمضان میں آپ کے ایک ملازم کی وفات ہوگئی تھی اور وہ آپ کے ہمسائے بھی تھے، آپ نے اس کے جنازے میں شرکت کی، رمضان سے پہلے ایک ورکر کی والدہ ہسپتال میں تھیں جس کی وجہ سے وہ ایک ہفتہ ڈیوٹی پر نہیں آ سکا تھا، آپ نے اس ایک ہفتے کی بھی کٹوتی کی تھی اور آپ کے ادارے میں لوگ دس دس سال سے کام کر رہے ہیں لیکن آج تک آپ نے ان کی تنخواہیں نہیں بڑھائیں، آپ کام آج کے دور کے مطابق لے رہے ہیں اور انہیں تنخواہیں دس سال پہلے کی دے رہے ہیں. سر معذرت کے ساتھ عرض ہے کہ آپ اپنی ناک تلے یہ سب ہوتا دیکھ رہے ہیں اور اس کے باوجود آپ کہتے ہیں کہ آپ ایک غریب باپ کے بیٹے ہیں، شاید آپ کو یہ بات جچتی نہیں، اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو آپ کو غریبوں کے دکھ اور تکالیف کا احساس ہوتا، آپ اپنے ورکرز کو عید سے دس دن پہلے تنخواہیں دے چکے ہوتے، اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو اپنے ملازمین کو ایک تنخواہ بونس دیتے، ان کے ساتھ عید مناتے، اس غریب بیٹے کی تنخواہ میں کٹوتی نہ کرتے جو ایک ہفتہ اپنی ماں کی عیادت کی وجہ سے ڈیوٹی پر نہ آ سکا۔ اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو اپنے بوڑھے ورکرز کو ایڈوانس دے کر ان کی بیٹیوں کے ہاتھ رنگ دیتے اور اگر آپ غریب باپ کے بیٹے ہوتے تو پچھلے ہفتے اپنے بچوں سمیت خودکشی کرنے والے ملازم کی زندگی بچالیتے‘‘۔
میری گفتگو تلخ ہوتی جارہی تھی اور میرے سوالوں کا ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا، میں اٹھا، ہاتھ آگے بڑھایا اور یہ سوچتے ہوئے آفس سے باہر نکل آیا کہ اگر ایک غریب باپ کے بیٹے کا یہ حال ہے تو پھر ہمیں اپنے ارپ بتی سیاستدانوں سے کوئی شکوہ نہیں کرنا چاہیے۔

Comments

Click here to post a comment