ہوم << عربی صحافت کے افق پر دو نئے ستارے - راشد حسن مبارکپوری

عربی صحافت کے افق پر دو نئے ستارے - راشد حسن مبارکپوری

ہندوستان میں عربى صحافت کى ایک سنہرى تاریخ رہى ہے. یہ سلسلہ کوہ کنى (النفع العظیم لأھل ھذا الإقلیم= لاہور) اکتوبر ۱۸۷۱م سے شروع ہوتا ہے، جس کے ایڈیٹر جناب شمس الدین لاہورى مرحوم تھے. اس کے بعد (مجلہ البیان= لکھنو) ۱۹۰۲م کو شروع ہوا اور علمى حلقے مستفید ہوئے. اس کے اکیس سالوں بعد ۱۹۲۳ م میں امام الہند مولانا ابوالکلام آزاد مرحوم نے (الجامعہ =کلکتہ، بنگال) کے نام سے مجلہ شروع کیا، اس مجلہ نے ہندوستان بھر میں عربیت کى روح پھونکى اور ایک ایسى مستحکم بنیاد فراہم کى جس نے آئندہ نسلوں میں عربیت کا خاصا ذوق پیدا کیا، اس مجلہ سے اسلوب خطابی کو خصوصى اہتمام ملا. بعد میں جن لوگوں نے اسلوب خطابی کو اپنى تحریروں میں زندہ کیا اور ایک عہد تک علمى حلقے اسے رشک بھرى نظروں سے دیکھتے رہے، یہ دراصل اسى خشت اول کى بازگشت تھى. اگر استعارہ سے ایضاح کى طرف آیا جائے تو یوں کہا جاسکتا ہے کہ مولانا ابوالحسن على ندوى مرحوم نے اس اسلوب خطابى کاکامیاب تتبع کرتے ہوئے اپنى عالمى شناخت بنائى۔

۱۹۳۲م میں (مجلہ الضیاء= لکھنو) ندو ۃ العلما سے نکلنا شروع ہوا. اس مجلہ کے سب سے بڑا اعزاز یہ تھا کہ اسے وقت کے امام الأدب علامہ تقی الدین ہلالى مراکشى (شاگرد رشید علامہ عبد الرحمن محدث مبارکپورى (ت:۱۹۳۵م) مؤلف تحفۃ الأحوذی) کى سرپرستى حاصل تھى. یہ وہ مجلہ تھا جس کے ذریعہ علامہ ہلالى نےاپنے تین نمایاں شاگردوں کى تربیت کى، مولانا مسعود عالم ندوى، مولانا محمد ناظم ندوى اور مولانا ابوالحسن على ندوى مرحومین. علامہ ہلالى نے ان تینوں کى خاص طور سے اس اخلاص اور توجہ سے تربیت کى کہ یہ ہندوستان میں عربى صحافت کے رمز بن گئے. یہ سچ ہے کہ "تربیت سے یہ ترى انجم کے ہم قسمت ہوئے". علامہ ہلالى کى عظیم شخصیت تھى جس کى وجہ سے نہ صرف یہ مجلہ ہندوستان میں اہل ذوق کى آنکھوں کا تارہ بن گیا، بلکہ عالم عرب بھى خاص پذیرائى ہوئى. اس یذیرائى کے طفیل مولانا ندوى مرحوم کے متعدد مضامین علامہ ہلالى کى سفارش وتزکیہ پر عالم عرب کے مشاہیر مجلات میں شائع ہوئے. یہى وجہ ہے کہ مولانا مرحوم علامہ ہلالى کو امام الأدب کہا کرتے تھے اور ان کى شاگردى پر فخر کیا کرتے تھے. بعد میں مولانا سعید الأعظمی حفظہ اللہ اور ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپورى مرحوم علامہ ہلالى کى صحبت سے فیض یاب ہوئے، عربیت کے حوالے ان حضرات کى تحریروں میں جو رعنائى اور خوبصورتى ہے اس کا اندازہ اہل ذوق کو ضرور ہوگا۔

مجلہ الضیا کے اٹھارہ سالوں بعد دو اہم عربى مجلات نکلے. ۱۹۵۰ م میں ہندو عرب کے ثقافتى تعلقات کى استحکام اور وسعت دینے کى غرض سے حکومت ہند نے (ثقافۃ الہند= دہلى) مجلہ شروع کیا، اس مجلہ میں یونیورسٹى سے وابستہ افراد کا غلبہ رہا. شروع میں اچھے قلم کاروں کى خاصى شرکت رہى، بعد میں وہ معیار باقى نہ رہا، غالبا اس وقت بند ہوچکا ہے۔ اس کے پانچ سال بعد (البعث الإسلامى= ندوۃ العلما لکھنو) شروع ہوا، جس کے اولین ایڈیٹر مولانا محمد الحسنى منتخب کئے گئے. آج بھى یہ مجلہ جارى ہے، اس کے ایڈیٹر عربیت کے حوالے سے نامور اہل علم مولانا سعید الرحمن اعظمى حفظہ اللہ ہیں، جن کى پورى زندگى عربى زبان وادب کى خدمت کرتے گزرى، اللہ تعالى آپ کاسایہ ایمان وسلامتى صحت کے ساتھ تادیر قائم رکھے۔ البعث کے مشمولات ندوہ کے مقاصد وافکار کى روشنى میں ہمیشہ حرکى، ادبى اور تاریخى رہے، خالص علمى کم رہے، اس سے اہل ذوق کا استفادہ آج بھى جارى وسارى ہے۔ اس کے چار سالوں بعد یعنى ۱۹۵۹م میں ندوہ سے ہى ایک پندرہ روزہ مجلہ (الرائد) نکلنا شروع ہوا، جس کے اہم قلم کاروں میں مولانا رابع حسنى ندوى، مولانا سعید الأعظمى، مولانا واضح رشید ندوى جیسےفاضل اہل علم شامل تھے. اخیر تک اس کے ایڈیٹر مولانا جعفر مسعود حسنى ندوى تھے جن کا ابھى حال ہی میں ایک سڑک حادثے میں اچانک انتقال ہوگیا۔ اس مجلہ سے طلبہ کے عربى سیکھنے کے مواقع فراہم ہوئے، ہندوستانى منظرنامے کے حوالے سے یہ طلبہ علم کے لئے ایک بہترین مجلہ ہے، طلبہ علم عربی سیکھنے میں اس سے فائدہ حاصل کرسکتے ہیں، ان شاء اللہ ضرور فائدہ حاصل ہوگا۔

پھر ۱۹۶۳م میں جامعہ سلفیہ مرکزى دارالعلوم بنارس قائم ہوا، تو اس کے چھ سالوں بعد یعنى ۱۹۶۹م میں عربى مجلہ (صوت الأمہ – جس کا ابتدائى نام صوت الجامعہ تھا) جامعہ کے ترجمان کى حیثیت سے نکلنا شروع ہوا ، اول روز سے اس کى ادارت استاد محترم ڈاکٹر مقتدى حسن ازہرى رحمہ اللہ کے ذمہ رہى اور مسلسل چالیس برس تک تادم وفات (۲۰۰۹م) اسے بحسن وخوبى نبھاتے رہے، اس مجلہ نے ہندوستانى صحافت پر اپنے گہرے اثرات چھوڑے، اس کے مشمولات ہمیشہ دینى، دعوتى، علمى، ادبى اور تاریخى رہے، اس مجلہ کا اہم ترین کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان میں عربى لکھنے والوں کى ایک معتبر ٹیم تیار ہوگئى، اس حوالے سے شیخ عزیرشمس، شیخ صلاح الدین مقبول، ڈاکٹر عبد الرحمن پریوائى، ڈاکٹر رضاء اللہ مبارکپورى، شیخ عبدالمعید مدنى، شیخ اسعد اعظمى، ڈاکٹر حشر الدین مدنى،ڈاکٹر عبد الرحمن لطف الحق مدنى وغیرہم خصوصا قابل ذکر ہیں، جامعہ سلفیہ کے مخلص ذمہ داران اور ڈاکٹر ازہرى مرحوم کا یہ کارنامہ یاد رکھا جائے گا، کہ جن کى تربیت نے اپنا واضح اثر دکھایا۔ ڈاکٹر صاحب مرحوم کى وفات کے بعد اس کے مدیر استاد محترم شیخ اسعد اعظمى حفظہ اللہ منتخب کئے گئےاور اہم بات یہ ہے کہ وہى معیار قائم رہا، یہ مجلہ آج بھى جارى ہے، اب اسے کے ایڈیٹر شیخ خورشید عالم سلفی مدنى ہیں، اور مجلہ صرف آن لائن ہے، کاش ذمہ داران اسے شائع بھى کرتے۔ اس کے علاوہ ایک مجلہ الہند بھى ہے جو فاضل گرامى ڈاکٹر اورنگ زیب اعظمى (جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلى) کى ادارت میں آن بان شان سے نکلتا ہے،عموما اس میں ادبى نوعیت کے مقالات شائع ہوتے ہیں۔

۲۰۱۸م میں ہم نے ایک اکیڈمک عربى مجلہ بنام (الباحث) نکالنے کا ارادہ کیا، ہمارےساتھ مشوروں میں شیخ عزیرشمس رحمہ اللہ شریک یا کہا جاسکتا ہے کہ اصل روح رواں تھے، اس کا فرسٹ ڈرافٹ بھى تیار ہوچکا تھا، لیکن حالات کچھ ایسے ہوئے کہ تاخیر ہوئى، برادر فاضل ڈاکٹر شمس الرب سلفی (ممبئى) مشورے میں شریک تھے، انہوں نے عرض کیا کیوں نہ فرى لانسر کے عربى ایڈیشن کى شروعات کى جائے، میں تیار ہوگیا، نام "الأقلام الحرۃ" رکھا اور دیگر تفاصیل برادر فاضل کو لکھ بھیجیں، اس طرح چند دنوں کى کوشش سے یہ مجلہ شروع ہوگیا۔ اس مجلہ نے نئے لکھنے والوں کو ایک بہترین پلیٹ فارم مہیا کیا، دیکھتے ہى دیکھتے عرب وعجم میں اس کى پذیرائى ہونے لگى، اس مجلہ نے بہت سے نئے لکھنے والوں میں اعتماد پیدا کیا اور خیابان عجم میں عربیت کى فضا قائم ہوئى، اس کى ادارت میں مجھے غیر معمولى محنت کرنا ہوتى تھى، مضامین کى اصلاح اور تراش خراش میں بہت وقت صرف ہوتا تھا، ان سارى محنتوں کے پیچھے یہى مقصد تھا کہ ہمارى توجہ اور محنت سے عربیت کى یہ فضا قائم ہوجائے تو زندگى کى اس سے زیادہ حسین متاع اورکیا ہوسکتى ہے۔ اب یہ دعا ہے کہ بارگاہ الہى میں: گر قبول افتد زہے عزوشرف۔

سردست دو مجلے منصہ شہود پر جلوگر ہوئے ہیں۔ ایک ہے( صوت السلف) اور دوسرا ہے (الرحیق) ، دلچسپ بات یہ ہے کہ دونوں سرزمین علم وفن بنگال سے نکل رہے ہیں، الجامعہ (مولانا آزاد کا مجلہ) جس نے ہندوستان میں عربی صحافت کے اولین نقوش چھوڑے اس کى نسبت بھى بنگال سے تھى، ہندوستان کى علمى وحرکى تاریخ کا مطالعہ کریں تو یقین ہوگا بیشتر (علمى وحرکى) انقلابات بنگال اور بہار کى سرزمین سے وابستہ رہے ہیں،تحریک جہاد وکفاح میں صادقین صادق پورکى قربانیاں ہوں یا وللہى قندیل سنت کو روغن فراہم کرنے والى "نذیرى تحریک"(حضرت میاں نذیر حسین) ہو، یاسنت کے احیا میں عظیمى (علامہ شمس الحق عظیم آبادی) تگ وتاز ہو، بہت سے انقلابات انہیں خطوں سے وابستہ ہیں۔ بات نکلى تو بہت دور نکل جائے گى، اس لئے ہم واپس آتے ہیں۔

صوت السلف:
یہ مجلہ مدرسہ سلفیہ برگانا، مغربى بنگال کے ترجمان کے طور پر ظہور پذیر ہوا ہے، مجلہ کا نام انتہائى خوبصورت اور دل کو چھولینے والا ہے، اس کے مشرف عام شیخ عبدالحمید بن عبد المعید فیضی ہیں، چیف ایڈیٹر ہمارے فاضل دوست ڈاکٹر عبد الرحمن لطف الحق مدنى ہیں، معاون ایڈیٹر برادرم شیخ عبدالعزیز یوسف مدنى اور شیخ توحید عالم مدنى ہیں، مشاورتى بورڈ میں افاضل اہل علم کى ایک عمدہ ٹیم ہے، اس ٹیم کا ایک رکن یہ خاکسار (راشد حسن مبارکپوری) بھى ہے، اس میں ملک کے نامور اہل علم کے مقالات شائع ہوئے ہیں، ابتدا حوصلہ افزا ہے، امید ہے کہ یہ معیار برقرار رہے گا اورمجلہ علم وفضل کى کرنیں بکھیرتا رہے گا، مدرسہ سلفیہ کے ذمہ داران قابل مبارکباد ہیں کہ انہوں نے وقت کى ضرورت محسوس کرتے ہوئے یہ اہم فیصلہ کیا کہ اس وقت ہندوستان میں عربى مجلات کى قلت بلکہ عدم دستیابى کا شکوہ زباں زد خاص وعام تھا، چنانچہ اس تاریخی اور شاندار اقدام پر مدرسہ کے ذمہ داران خصوصا شیخ عبدالحمید عبدالمعید فیضی حفظہ اللہ شکریہ اور مبارکباد کے مستحق ہیں۔ ایک اہم بات یہ بھى ہے کہ مجلہ کى ٹیم باصلاحیت نواجوان اہل علم پر مشتمل عالمى درسگاہ جامعہ اسلامیہ مدینہ سے فیض یافتہ ہے، ایڈیٹر شیخ عبدالرحمن مدنى ہمارے دوست انتہائى فاضل اور مخلص اہل علم ہیں، مجلہ کى ابتدا سے لیکر آج شائع ہونے تک برادرم کے مشورے میں یہ بے نوا مکمل شریک رہا، لہذا اس کى اشاعت پر میرا پر امید ہونا فطرى ہے، اللہ مجلہ کو دوام بخشے۔

مجلہ الرحیق:
یہ مجلہ جامعہ الإمام الألبانى بوریان، مغربى بنگال کے ترجمان کے طور پرمتعارف ہوا، مجھے ذاتى طور مجلات کے مفرد نام پسند آتے ہیں، اگر کوئى وجہ نہ ہو تو مفرد نام خوبصورتى کا استعارہ ہوتے ہیں، الرحیق نام تو حضرت مولانا بھوجیانى مرحوم سے جڑا ہے، ان کا مجلہ برصغیر کے دوچار بہترین مجلات میں شمارکیا جاتا تھا، ادھر سے اگر برہان کا نام لیا جاتا تو ساتھ غیرارادى طور پر الرحیق کا نام بھى آہى جاتا۔ مجلہ کے مشرف عام شیخ مطیع الرحمن شیث محمد مدنى ہیں، جو جامعہ کے مؤسس بھى ہیں اور فاضل اہل علم ہیں، مبارکباد کے قابل ہیں کہ انہوں نے اس کمى کا احساس کیا جو واقعى شدت سے محسوس کى جارہى تھى، جزاہ اللہ خیرا۔ رئیس التحریر ہمارے فاضل دوست شیخ نسیم اختر عبدالمجید سلفی ہیں، جو اسى جامعہ کے لائق فائق استاد بھى ہیں اور بہت سارى دیگر تعلیمى ودعوتى ذمہ داریاں سنبھالنے کا حوصلہ رکھتے ہیں اور سنبھالتے بھى ہیں۔ ادارتى ومشاورتى بورڈ میں اہل علم کى ایک اچھى تعداد ہے، غالبا ان میں ڈاکٹر طارق صفی الرحمن مبارکپورى کے علاوہ میرى کسى سے واقفیت نہیں، تاہم سبھى عظیم عالمى یونیورسٹى جامعہ اسلامیہ مدینہ کے خوشہ چیں افاضل اہل علم ہیں۔

مجلہ کى ابتدا امید افزا ہے، ملک کے نامور اہل علم کى خدما ت حاصل کى گئى ہیں، برادر فاضل کا اداریہ بھى عمدہ ہے اور دیگر مقالات بھى۔ برادر فاضل نے خاکہ سے لیکر اشاعت تک ہر موڑ پر خاکسار کو اپنے مشورے میں شریک رکھا اور مسلسل رابطہ رہا، یہ میرے لئے سعادت کى بات ہے اور اس پر ایمان بھى ہے کہ ایں سعادت بزور بازونیست
تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اللہ کرے یہ مجلہ اسى طرح افق صحافت پر تابندہ رہے اور علم وکمال کى موتیاں لٹاتا رہے۔ مجلہ صوت السلف اور مجلہ الرحقیق دونوں کے چیف ایڈیٹران زمانہ طالب علمى جامعہ سلفیہ بنارس میں ہمارے حلقہ احباب میں تھے اور اس وقت سے آج تک محض علمى بنیادوں پر رشتہ قائم ہے، دونوں مجلات کے اصدار پر خاکسار خوش بھى ہے اور پر امید بھى اور دعا گو بھى کہ:
نہیں ہے نا امید اقبال اپنى کشت ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹى بڑى ذرخیز ہے ساقى