اپنے موضوع کا آغاز کرنے سے پہلے ہم دو باتوں کا ذکر کریں گے اور پھر اپنے موضوع کا آغاز کریں گے. دین کی چاہت رضاۓ الہی ہے اور اس پر آنا للہیت کا باعث ہے اور اس کے نتیجے میں جو کردار سامنے آۓ گا وہ بے غرضی کا حامل ہوگا . جبکہ خواہش کا حوالہ نفس ہے اور نفس کا راستہ اختیار کرنے کے نتیجے میں جو کردار سامنے آۓ گا وہ خود غرضی کا حامل ہوگا. اب ان دو باتوں کی روشنی میں ہم اپنے موضوع کا آغاز کرتے ہیں. جب ہم اکنامکس پڑھتے ہیں تو اس کا آغاز ہی ایک جملے سے ہوتا ہے ؛ ''انسانی خواہشات لامحدود ہیں اور وسائل محدود ہیں'' . اب اگر خواہشات پوری کرنی ہیں تو وسائل پر قابو پانا ناگزیر ہوگا . ایک desireful لائف عموماً ہر دوسرے آدمی کا خواب ہے اور اسی وجہ سے زیادہ سوچے بغیر لوگ اسی بات کو مانتے ہوۓ چل پڑتے ہیں.
اب اگر یہ بات مان کر چلا جاۓ تو اس کے حصول کے لیے ایسا معاشرہ بھی درکار ہوگا جہاں سب ایسی ہی زندگی گزارنے کے آرزو مند ہوں اور پھر ایسا معاشی نظام بھی درکار ہوگا جو یہ دعوی بھی کرے کہ سب یکساں طور پر وسائل کے حصول کی کوشش کرسکتے ہیں. سرمایہ دارانہ نظام اس کی واضح مثال ہے. ظاہر ہے اگر سب خواہشات کی تکمیل کے لیے وسائل کے حصول کی دوڑ میں لگ جائیں گے تو معاشی مسابقت کی دوڑ شروع ہوگی ، جو فی زمانہ چاروں طرف دکھائی بھی دے رہی ہے، اس کے لیے ایسا تعلیمی نظام بھی درکار ہوگا جو اس کے مطابق ذہن سازی بھی کرے، اس دوڑ کی ضرورت کا احساس بھی دلاۓ اور اس کے لیے میدان بھی فراہم کرے . اب اس دوڑ کی مثال کچھ ایسی ہے کہ کسی میدان میں گھوڑوں کی دوڑ ہوتی ہےاور کچھ تیز رفتار گھوڑے دوڑ میں آگے نکل جاتے ہیں، اب بڑے جواری کس گھوڑے پر جوا کھیلیں گے اور کس پر پیسہ لگائیں گے. ظاہر ہے سست رفتار گھوڑوں پر نہیں تیز رفتار گھوڑں پر ہی پیسہ لگایا جاۓ گا. اب اگر سو گھوڑوں کی ریس ہو تو تین چار گھوڑے ہی اپنی طرف توجہ مبزول کروا پائیں گے. یہاں یہ سمجھیے کہ سرمایہ دارانہ معاشرت میں بس اتنے ہی فیصد لوگ لگ بھگ اپنی صلاحیتیں منوا پائیں گے. یہ وہ لوگ ہوں گے جو یہ صلاحیتیں رکھتے ہوں گے کہ سرمائے کی بڑھوتری میں کردار ادا کرسکیں. یہ وہی لوگ ہوں گے جن کے لیے کہا جاۓ گا کہ یہ Standard والے Skillful اور باصلاحیت لوگ ہیں، جو سرمایہ یا تو produce کرنے کی صلاحیت رکھتے ہوں گے یا پھر سرمایہ داروں کی توجہ اپنی طرف کھینچ لیں گے اور سرمایہ دار ان کی صلاحیتوں کو سرماۓ کی بڑھوتری کے لیے استعمال کریں گے، اور اسی وجہ سے یہ معاشرے کے کامیاب باصلاحیت اور ایکdesireful life کے حقدار قرار پائیں گے.
اب کیونکہ وسائل محدود ہیں اور دوڑ میں چاہے سب شامل ہوں مگر ان پر قبضے کا حق صرف ان ہی لوگوں کو ملے گا جو اس دوڑ میں آگے نکل کر دکھاسکیں، باقی اکثریت اس system یا نظام میں یہ حق حاصل نہیں کرپاۓ گی. اب جو لوگ آگے نکل گۓ ہوں گے سب کو پیھے چھوڑ کر ان کی خاص طرح کی تربیت اور ذہن سازی بھی اس دوران ہوگی کیونکہ انھوں نے سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکلنا ہی سیکھا ہوگا ، لہذا معاشی مسابقت کی اس دوڑ میں آگے نکلے ہوۓ انسان کیونکہ ایک طرح سے ریس کے گھوڑے ہی ہوں گے، اس لیے ان کی خاص طرح کی اخلاقیات اور نفسیات بھی سامنے آۓ گی . یہ لوگ بہت زیادہ Status Conscious ہوں گے اور اونچ نیچ کا فرق ان کی سوچ اور کردار میں واضح دکھے گا. (گو کہ کسی ایک زبان میں اس system کو لاگو کرنا ضروری نہیں ہے لیکن جس طرح کسی ایک زبان کو ملک کی سرکاری زبان بنانا پڑتا ہے اسی طرح سرمایادارانہ نظام کے لیے دنیا بھر میں عمومی طور پر انگریزی ہی کو چنا گیا ہے)، اس لیے یہ زبان خود status symbol بنتی چلی گئی اور ایسےلوگ کافی فخر کے ساتھ یہ بولتے ہوۓ دکھائی دیں گے.
ان لوگوں کی نظر میں ریس میں پیچھے رہ جانے والے انسان کیونکہ وہ صلاحیتیں اچھے سے حاصل نہیں کرپاۓ جس سے سرماۓ کی بڑھوتری ہوسکے، اس لیے پیچھے رہ جانے والے سارے لوگ اس کی نظر میں ناکام، نکمے اور فضول لوگ ہوں گے، جس کا یہ بڑے فخر اور حقارت سے اظہار بھی کرتے رہیں گے، اس معاشرے میں پیچھے رہ جانے والے لوگ خود بھی یہی سمجھتے ہوں گے، اس لیے ان کے آگے احساس کمتری کا شکار دکھائی دیں گے اور ان کو کچھ کہنے کی ہمت شاذ ہی کوئی کرپاۓ گا، دوسروں کو پچھاڑ کر آگے نکلنے کا خمار بھی ہوگا اس لیے بڑے مہذب متکبر یا مغرور لوگ ہوں گے. اوپر والوں کےساتھ جتنے خوش اخلاق ہوں گے، نیچے والوں کے ساتھ اتنے ہی بدتر ہوں گے، اور آگے نکلنے کی دوڑ میں ساتھ بھائی کا بھی نہیں دیں گے بلکہ اس کو بھی پچھاڑ کر آگے بڑھ جائیں گے، اس لیے بے حس سخت دل اور خود غرض ہوں گے. اختیار ملنے کی صورت میں اپنے جیسے ریس کے گھوڑے تیار کریں گے اور باقی لوگوں کی ان کی نظر میں کوئی حیثیت نہ ہوگی.
دیکھا جاۓ تو اس معاشرے میں پیچھے رہ جانے والے انسان اصلاً انسان ہی نہیں سمجھے جائیں گے اور نہ ایسے لوگ ان کے ساتھ انسانوں والا سلوک کریں گے، گویا ان کے پاس جینے کا حق بھی نہ ہوگا.
خود ہمارے معاشرے میں سارے تعلیمی ادارے آج اسی دوڑ میں لگے ہوۓ دکھائی دیتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے ارد گرد دیکھ ہی رہے ہیں . یہ اداروں کی ریٹنگ میں اپنے ادارے کو اوپر لانے اور standard High کرنے کی باتیں ہی کرتے دکھائی دیں گے. انھ یں نیکی، للہیت، خدا ترسی، انسانیت اور اللہ کی رضا سے عملاً کوئی سروکار نہیں ہوگا، البتہ جہاں اس دوڑ میں اس طرح کی گفتگو سے کچھ مدد ملے گی وہاں کرلی جاۓ گی. اسی لیے صرف جدید تعلیمی ادارے نہیں ہمارے مذہبی تعلیمی ادارے بھی اسی دوڑ کا حصہ بن چکے ہیں. آپ خود مذہبی تعلیمی اداروں کے بڑوں اور مالکان کا life style دیکھیے، اے سی میں بیٹھنا، اچھی گاڑیوں میں گھومنا، اپنی فیملی کے بچوں کو high rated تعلیمی اداروں میں مہنگی فیسوں پر پڑھانا، اور standard رکھنے والے اداروں میں فیملی کے لوگوں کو لگانا اور ایک پرتعیش luxurious زندگی گزارنا، جبکہ اپنے نیچے کام کرنے والوں کو اتنی آمدنی سے بھی محروم رکھنا کہ وہ اپنی بنیادی ضرورتیں ہی پوری کرسکیں . پھر جتنا نیچے والوں کو نچوڑتے ہیں اس سے بہت کم دیتے ہیں وہ بھی یہ جتا کر کہ اس لائق تو نہیں تھے مگر پھر بھی احسان سمجھو کہ دے رہے ہیں.
ایسا معاشرہ ایسے ادارے اور ایسے لوگ چاہے سوٹڈ بوٹڈ ہوں یا مذہبی حلیے کے حامل ہوں، اصلا کفر کی اخلاقیات پر ہی کھڑے ہوتےہیں. جن کے لیے قران نے نہ صرف بہت کچھ کہا ہے بلکہ ایسے لوگوں کے لیےکافی سخت وعیدیں بھی آئی ہیں. جن پر تفصیل سے گفتگو کرتے بھی رہے ہیں اور آگے بھی ان شاء اللہ کریں گے. جن لوگوں نے ایسے موضوع پر اب تک کام کیا ہے ایک تو وہ زیادہ تر intellectual اور مشکل علمی اور عقلی مکالموں سے لبریز ہے، اس لیے لوگ اس میں زیادہ دلچسپی نہیں لے پاۓ، اور ایسے لوگ جو اس پر تنقید کرتے بھی دکھے وہ خود عملاً سرمایہ دارانہ اخلاقیات پر ہی کھڑے دکھائی دیے اور یہ گفتگو بھی ایک طرح کی intellectual اور status symbol کی حامل گفتگو بن کر رہ گئی. اس لیے سوچا کہ آسان کر کے اس موضوع کو سمجھایا جاۓ اور اس آگاہی کو پورے ملک میں عام کیا جاۓ، تاکہ لوگ اس طرح کی اخلاقیات پر کھڑے لوگوں سے متاثر ہونا بھی چھوڑیں اور للہیت اور اچھی انسانی اقدار کی بنیاد پر ایک بہتر انسانی معاشرہ قائم کیا جاسکے.
تبصرہ لکھیے