اجتہاد بالمقاصد لفظی اعتبار سے ایک نئی اصطلاح ہونے کے باوجود اپنے معنی و مفہوم کے لحاظ سے فکری تراث میں ہمیشہ سے موجود رہی ہے۔ ایک مجتہد کا نصوص شرعیہ سے مسائل جدیدہ کے حکم کے استخراج و استنباط کے عمل میں ظاہری معانی ومفاہیم کے ساتھ مقاصد شرعیہ کو بھی بغور ملحوظ خاطر رکھنا اجتہاد بالمقاصد کہلاتا ہے۔ قرن اول سے حضرات صحابہ کرام و مجتهدین عظام ، مفتیان کرام اپنے اجتہادات و قیاسات میں نصوص شرعیہ کے ظاہری معانی و مطالب کے ساتھ نصوص کے پوشیدہ پہلوؤں یعنی مقاصد نصوص کو بھی اولین حیثیت و اہمیت دیتے آئے ہیں۔ تاہم اجتہاد بالمقاصد کا مذکورہ عمل انتہائی باریکی و پیچیدگی کا حامل ہے۔ اس لیے علماء نے اجتہاد بالتقاصد کے صحیح ضبط واسطے اصول و ضوابط وضع کیے ہیں۔ تاکہ اجتہاد بالمتقاصد کی آڑ میں نصوص شرعیہ کے معانی و مفاہیم کو باطل قرار نہ دیا جا سکے۔ جیسا کہ عمومی اجتہادمیں مقاصد شرعیہ سے صرف نظر اہم فکری و نظری انحرافات و اختلالات کا باعث ہوتا ہے۔
لہذا زیر نظر مضمون میں اجتہاد بالمقاصد کے لیے وضع کر دو ان چند اساسی و بنیادی اصول و ضوابط کو بیان کیا جائے گا۔ جن سے اعتناء بر تنا اجتہادبالمقاصد کے عمل میں نہایت لازمی و ضروری ہے۔ تمام شرعی نصوص جو کسی ایجابی یا سلبی حکم کا ماخذ ہیں، اپنے باطن میں ان تمام سلبی یا ایجابی امور سے متعلق چند مخصوص و محدود مقاصد کے حامل ہوتی ہے۔ ان محدود مقاصد کا تمام سلبی و ایجابی شرعی احکام سے براہ راست ایک ایسا مضبوط تعلق ہوتا ہے کہ تمام احکام ایجابیہ و سلبیہ کی بجا آوری اس طور لازم ہوتی ہے کہ ان سے متعلق مخصوص مقاصد کے تقاضے احسن انداز میں بخوبی سر انجام پائیں ۔ اگر مقاصد کی رعایت رکھے بغیر محض ظاہری و سطحی طور پر نصوص کے الفاظ سے ثابت شدہ احکام کو دائرہ عمل میں لایا جائے تو ایسی صورت میں نصوص شرعیہ اپنے دوامی مقاصد سے محروم ہو کر اپنے اندر جاری روح کو کھو بیٹھتی ہیں ۔ اسلیے ایک فقیہ پر لازم ہوتا ہے کہ نصوص شرعیہ کا انتہائی غائر تجزیے کرنے کے بعد نصوص میں پنہاں مقاصد کو منصہ شہود پر سامنے لائے۔
تاکہ احکام شرعیہ کا فہم مکمل ہو سکے۔ پھر جیسے ابتدائی طور پر نصوص شرعیہ کے معانی و مفاہیم کو سمجھنے کے لیے نصوص میں پنہاں مقاصد کو سمجھنا اور انکی کامل رعایت رکھنا لازمی ہوتا ہے ۔ ایسے ہی نئے پیش آمدہ مسائل و مباحث کا شرعی حل تلاش کرتے ہوئے مقاصد شرعیہ کو اساسی اہمیت دینا لازم ہوتا ہے ۔ اور مقاصد شرعیہ کی روشنی میں نئے آنے والے حوادثِ و وقائع کا شرعی حکم طے کرنا اہم ہوتا ہے ۔ مقاصد شرعیہ کی روشنی میں نئے پیش آمدہ مسائل و احکام کے حکم شرعی کو متعین کرنے کے عمل کو "اجتہاد بالمقاصد" کہا جاتا ہے ۔
اجتہاد بالمقاصد کا یہ عمل نوازل فکریہ و عملیہ کے بہترین حل میں اساسی و بنیادی اہمیت کا حامل ہے ۔ البتہ یہ عمل اپنے تئیں کئی فکری و نظری پیچیدگیوں و نزاکتوں کا حامل ضرور ہے۔ اسلیے علماء کرام و مجتہدین عظام نے اسکے صحیح ضبط واسطے چند اصول و قواعد کو وضع کیا ہے ۔ تاکہ اجتہاد بالمقاصد کا مذکورہ عمل فکری و علمی انحرافات و اختلالات کا ذریعہ نہ بن سکے ۔ زیر نظر مضمون میں اجتہاد بالمقاصد سے متعلق علماء کرام کے وضع کردہ اساسی و بنیادی نوعیت کے اصول و ضوابط کو زیر بحث لایا جائے گا ۔
اجتہاد بالمقاصد ، تعریف :
اجتہاد بالمقاصد کی اصطلاحی تعریف متعدد اصولیین نے کی ہے ۔ ذیل میں ہم اجتہاد بالمقاصد کی چند نمایاں اصطلاحی تعریفات میں سب سے جامع و مانع تعریف ذکر کرتے ہیں.
ا اجتہاد بالمقاصد کی اصطلاحی تعریف ہے :
"والأقرب إلى بيان حقيقة وماهية الاجتهاد المقاصدي أن نقول في تعريفه استفراغ المجتهد غاية وسعه في طلب مراد الشارع من النصوص والأحکام لمراعاته والعمل به في الفهم والاستنباط والتنزيل "
اجتہاد بالمقاصد کی دیگر تمام تعریفات کی بنسبت مذکورہ تعریف سب سے زیادہ جامع و مانع ہونے کے ساتھ ساتھ تعریف کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے مختصر بھی ہے ۔ اس تعریف کا خلاصہ یہ ہے کہ اجتہاد بالمقاصد ایک مجتہد و فقیہ کی اس انتھک کوشش کا نام ہے جو نصوص شرعیہ کے جائزے کے وقت مجتہد اس واسطے صرف کرتا ہے کہ اسے شارع کی حقیقی مراد معلوم ہو سکے۔ تاکہ مجتہد اس مراد کو استنباط و استخراج کے عمل میں بروئے کارسکے۔
اصول و ضوابط :
اجتہاد بالمقاصد کے صحیح ضبط کے لیے علماء کرام و مجتہدین عظام نے مختلف ضوابط وضع کیے ہیں ۔ تاکہ انکی کامل رعایت سے اجتہاد بالمقاصد فکری و نظری زلات و اختلالات کا ذریعہ نہ بن سکے۔
ضابطہ اول
"التثبت في تعيين المقصد و استثماره
اجتہاد بالمقاصد کے عمل میں سب سے اساسی و بنیادی کام نصوص شرعیہ کے مقاصد کی تعیین ہے۔ لہذا ایک مجتہد پر لازم ہے کہ وہ اجتہاد مقاصدی پر عمل پیرا ہونے سے قبل اپنی پوری علمی و فکری تحقیقی و تخلیقی صلاحیتیں تعیین مقصد کی خاطر اس طور صرف کر دے کہ مزید کا اضافہ نہ کیا جا سکتا ہوں ۔ نصوص شرعیہ کے مقاصد کو جاننا ایک انتہائی محنت طلب کام ہے ۔ اس لیے مجتہد پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اس معاملے میں کامل بردباری و گہری سنجیدگی و مکمل سکون و اطمینان کے ساتھ نصوص پر غور کرے ۔ اور پھر بعد از فکر غائر نص کا مقصد متعین کرے۔ تاکہ عجلت و بے جا سرعت کے نتیجے میں مجتہد کسی غیر مقصد کو مقصد نہ بنا لے۔ یا مقصد شریعت کا ہی کوئی جزو اس کی فکری سرعت کے باعث اسکی نظری گرفت میں نہ آ سکے ۔
مقاصد شریعت کے تعین میں مجتہد پر لازم ہوتا ہے کہ اپنے ماقبل ائمہ کرام کے اقوال و ارشادات کا جائزہ لے۔ اور شریعت کے دیگر عموی ضابطوں و قاعدوں کو بھی ملحوظ خاطر رکھے.
چنانچہ طاہر ابن عاشور لکھتے ہیں: وقد نبه الطاهر بن عاشور على ذلك فقال " على الباحث في مقاصد الشريعة أن يطيل التأمل ويجيد التثبت في إثبات مقصد شرعي، وإياه والتساهل والتسرع في ذلك لأن تعيين مقصد شرعي كلي أو جزئي أمر يتفرع عنه أدلة كثيرة في الاستنباط ففي الخطأ فيه خطر عظيم، فعليه أن لا يعين مقصدا شرعيا إلا بعد استقراء تصرفات الشريعة في النوع الذي يريد انتزاع المقصد التشريعي منه ، وبعد اقتفاء آثار أئمة الفقه ليستضئ بأفهامهم وما حصل من ممارسة قواعد الشرع ، فإن هو فعل ذلك اكتسب قوة استنباط يفهم بها مقصود الشارع
مذکورہ اقتباس سے معلوم ہوتا ہے کہ مجتہد کا محض کسی امر میں مصلحت دیکھنا اور پھر اسے مقاصد شریعت میں شامل تصور کر لینا درست نہیں ۔ کیونکہ یہ امر مسلم ہے کہ شریعت کا ہر مقصد مصلحت و منفعت عامہ پر مشتمل ہے ۔ مگر ضروری نہیں کہ ہر مصلحت و منفعت شریعت کا مقصد و مطلب ہوں۔
چنانچہ طاہر ابن عاشوراء لکھتے ہیں : إن مقصد الشارع لا يجوز أن يكون غير مصلحة ، ولكنه ليس يلزم أن يكون مقصودا كل مصلحة ، فمن حق العالم بالتشريع أن يخبر أفانين هذه المصالح في ذاتها وعوارضها ، وأن يسبر الحدود والغايات التي لاحظتها الشريعة في أمثالها وأحوالها إثباتا ورفعا ، واعتدادا ورفضا لتكون له دستورا يقتدى ، وإماما يحتذى "
مرحلہ اولی
کسی بھی امر کو مقصد شرعی قرار دینے سے پہلے اس میں پائے جانے والے اوصاف و خصائص کا بغور جائزہ لے تاکہ معلوم ہو سکے زیر بحث امر مقاصد شرعیہ کے مخصوص و متعین معیارات پر پورا اتر رہا ہے یا نہیں ، وگرنہ کسی ایسے امر کو مقصد شرعی قرار دینا جو اپنی ذات میں مقاصد شرعیہ کے مخصوص و محدود معیارات پر پورا نہ اتر رہا ہوں انتہائی خطرناک ہے ۔(۴) لہٰذا مجتہد پر لازم ہے کہ وہ متعلقہ امر سے متعلق فیصلہ کرنے سے قبل گہرا تجزیہ کر کے اس کے درست مقام کا تعین کرے۔
مرحلہ ثانیہ
معرفة طرق الكشف عن المقاصد
مقاصد شرعیہ کے تعین میں مجتہد پر لازم ہوتا ہے کہ وہ اپنے سے ماقبل فقہاء و علماء کے اختیار کردہ مناہج و مسالک کو بروئے کار لائے تاکہ غلط منہج و مسلک کو اختیار کرنے کے باعث مجہتد اس باب میں کسی فکری و نظری کجی کا شکار نہ ہوں ۔ جیسا کہ اسکی مثال بہت عام ہے کہ اگر مسافر نے کسی مخصوص شہر کیطرف جانا ہے تو اس پر لازم ہے کہ وہ دیگر لوگوں کے اختیار کردہ راستوں پر چلتے ہوئے اپنے سفر کو مکمل کرے۔ تاکہ وہ غلط راستہ اختیار کرکے اپنی منزل سے بھٹک نہ جائے۔ پس ایسے ہی ایک مجتہد پر لازم ہے کہ وہ ان مناہج و منابع کو عمل اجتہاد و استنباط میں میں اختیار کرے جنہیں اس سے ما قبل علماء و مشائخ اختیار کر چکے ہوں ۔ اور جنکی دریافت میں ما قبل علماء و فقہاء اپنی اسعدادات علمیہ و فکریہ کو کھپا چکے ہوں ۔(۵)
ضابطہ دوم
مقصد اصل نص کو باطل نہ کرے۔
دوسرا قاعدہ یہ ہے کہ نصوص کے ایسے مقاصد و مطالب کو روبہ عمل نہ لایا جائے جو اصل نصوص کے معانی و مفاہیم کو باطل قرار دے رہے ہوں ۔ دراصل مقاصد شرعیہ نصوص شرعیہ کی تکمیل کرتے ہیں ۔ مقاصد شرعیہ نصوص شرعیہ کے اہداف کو پورا کرتے ہیں ۔ اور نصوص شرعیہ کی غایت کو احسن انداز میں معاشرے میں رائج کرنے کا ذریعہ بنتے ہیں ۔ لہذا ایسا ہر گز نہ ہونا چاہیے کہ مجتہد نصوص کے ایسے مقاصد و مطالب کا استخراج کرے جو عملاً معانی نصوص کو معطل کر دیں۔ کیونکہ قاعدہ معمولہ یہ ہے کہ ظاہر نص پر عمل اسوقت تک واجب ہے جب تک ظاہر نص کے معنی پر عمل ممکن ہے ۔ البتہ بوقت تعذر اور حرج ظاہر نص کے معنی و مفہوم سے عدول کرنا ضروری ہے ۔چنانچہ امام اسنوی مذکورہ اس قاعدے سے متعلق رقمطراز ہیں
"ولا یجوز ان یستنبط منہ معنی یکر علی اصلہ بالبطلان
امام اسنوی کے بیان کردہ اس قاعدے و ضابطے کی اصولیین کا طے کردہ کلیہ بھی تائید و تصدیق کرتا ہے ۔
ولا يجوز اقتناص معنى يؤدي الي الغاء النصوص
مثالیں
مذکورہ قاعدے کی مزید وضاحت و صراحت کے لیے چند مثالیں ذکر کی جاتی ہیں تاکہ معلوم ہو سکے کہ مسائل فقہیہ کے ایسے مقاصد و مطالب مستنبط کرنا جائز نہیں جو مسائل شرعیہ کی حقیقی و ظاہری صورت کو ہی معطل کر دینے کا سبب بن رہے ہوں ۔
إخراج القيمة عن الاضحية
حنفیہ نے صدقہ فطر میں قیمت کے اخراج کو اغناء فقیر کے مقصد شرعی کے تحت جائز قرار دیا ہے ۔ لہٰذا ہر وہ شخص جس پر صدقہ فطر مختلف غلوں کی صورت میں واجب ہے ۔ ان غلوں کے عوض اتنی قیمت بطور صدقہ فطر مختلف فقراء و مساکین میں تقسیم کر کے اپنے شرعی وظیفہ سے عہدہ برآں ہو سکتا ہے ۔
لیکن حنفیہ کے نزدیک صاحب نصاب شخص عقیقہ و اضحیہ کے باب میں واجب قربانی کے عوض قیمت ادا نہیں کر سکتا ۔ کیونکہ عقیقہ و اضحیہ میں شرعی مقصود و مطلوب خون بہا ہے ۔ اور نصوص کے ظاہری الفاظ و جمل بھی اس پر دال ہیں۔ چنانچہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے " يَا فَاطِمَةُ قَوْمِي فَاشْهَدِي أُضْحِبَنَكِ فَإِنَّهُ يُغْفَرُ لَكِ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تَقْطُرُ مِنْ دَمِهَا كُلُّ ذَنْبٍ عَمِلْتيهِ ..." (8)
ابطال الحدود
حدود کو نافذ کرنے کے بجائے مجرم کے لیے حبس دوام یا ایک طویل مدت تک قید کی سزا تجویز کرنا درست نہیں ۔ کیونکہ مذکورہ عمل خود حدود کو باطل کر دیتا ہے ۔ جبکہ حدود کا بعینہ نفاذ و مکمل اجراء شرعی مقاصد میں سے ایک نمایاں ترین شرعی مقصد ہے۔ چنانچہ حدیث شریف میں آتا ہے فَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : حَدٌ يُعْمَلُ بِهِ فِي الأَرْضِ خَيْرٌ لأَهْلِ الْأَرْضِ مِنْ أَنْ يُمْطَرُوا أَرْبَعِينَ صَبَاحًا
تبصرہ لکھیے