۲۰ ؍ جنوری ۲۰۲۵ امریکہ ہی نہیں ساری دنیا کی تواریخ میں ایک یاد گار دن کے طور درج ہوچکا ہے ۔ اس روز ۷۸ ؍سالہ ڈونالڈ جان ٹرمپ نے جاہ وجلال کے ساتھ کیپٹل ہل واشنگٹن ڈی سی میں ۴۷؍ ویں امریکن صدر کےطور اپنے عہدہ ٔ جلیلہ کا حلف ساتھ اُٹھا لیا۔ امریکہ میں مقد س انجیل پر ہاتھ رکھ کر نومنتخبہ صدر کے لئے حلف اُٹھانے کی روایت۱۷۸۹ میں اُس وقت شروع ہوئی جب پہلی بار جار ج واشنگٹن نے عہدہ ٔ صدارت کا حلف لیا تھا۔ اس روایت کے بر خلاف پہلی بار ٹرمپ نے امریکی قاضی القضا سے دوسری بار حلف لیا لیکن بائبل پر ہاتھ رکھنے سے احتراز کیا ‘حالانکہ خاتونِ اول نے انجیل کے دودو نسخے ہاتھ میں رکھے ہوئےتھے مگران کا شوہر نامدار اپنی ہی دنیا میں کھوئے رہے ۔ صدر نے بلاتاخیر اپنا کام کاج شروع کیا‘ انہوں نے برق رفتاری سے ۸۰؍ سے زائد حکم نامے جاری کئے جو یہ باورکراتے ہیں کہ آئندہ چار سال میں صدر کا رُخ کس جانب ہوگا۔ انہوں نےسب سے پہلاآرڈرپہلا غیرقانونی تارکین ِ وطن کےنام بجلیاں گراتے ہوئے جاری کیا۔ ٹرمپ اُنہیںملک سے کھدیڑنے کے لئے کمرہمت باندھ چکے ہیںیہ دیکھے بغیر کہ اس سے امریکہ میں سستی لیبر فورس کا سلسلہ ختم ہونے شدید کہرام مچےگا ۔ اس بارے میں بہت جلد انتظامیہ کا کریک ڈاؤن ہونے والاہے۔مزیدبرآں صدر نےڈیڑھ سو سالہ برتھ رائٹ سٹیزن شپ آئینی شق توڑتے ہوئے آئندہ ماہ کے اواخر سے غیر قانونی مہاجرین جوڑوں‘ ورک ویزا یا سٹوڈنٹ ویزا پر امریکہ میں قیام پذیر غیرملکی جوڑوں کے یہاں جنم پانے والے نوزائیدہ بچوں کو امر یکی شہریت نہیں دی جائے گی ۔ یہ اُن کا ایک اور ایگزیکٹو آرڈرہے ۔ یہ ا قدام صاف صاف دنیائے ٹرمپ کی کٹھورتا اور بشری حقوق کے تئیں بےرُخی درشاتا ہے ۔ ماہرین کہتے ہیں کہ یہ حکم نامہ شاید ہی عدالتی جرح وتعدیل کے سامنے کھڑا رہ سکےگا۔ ان صدارتی احکامات سے ایک کروڑ سے زائد عام مہاجرین اور جیلوں میں بند جالیس ہزار غیرقانونی تارکینِ وطن میں سراسیمگی پھیلی گئی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ آیایہ آرڈر جوڈیشل ریویو کا پل ِصراط پار کرسکے گا۔ امریکہ میں مقیم لاکھوں نفوس پر مشتمل بھارتی ڈائیساپورا بھی ان سخت گیرانہ احکامات کی زد میں آرہا ہے ۔
نئےامریکی صدر کو اس وقت کانگریس اور سینیٹ میں بھاری ا کثریت حاصل ہے۔ یہ ا س بات کا بلیغ اشارہ ہے کہ ٹرمپ قومی قیادت کی مکمل سیاسی حمایت کے ساتھ کٹھن سے کٹھن قدم اُٹھا کر اپنی سیاسی قوت کا سکہ جمانے میں آزاد ہیں ۔ ہمیںیہ بات ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ ٹرمپ ایک منجھے ہوئے تاجرہیں اور جانتے ہیں کہ نفع کہاں ہے اور نقصان کدھر ۔ منصب سنبھالتے ہی پہلی فرصت میں بائیڈن انتظامیہ کے درجنوں فیصلے بیک جنبش قلم رد کر ڈالنا پاور اور پیسے سے بنی ٹرمپ کی دنیا میں صرف اپنا سود وزیاں دیکھنے پر دلالت کرتا ہے ۔ واضح رہے بائیڈن نے اپنی صدارت کے آغاز میں ٹرمپ دور کےصرف گیارہ فیصلے رول بیک کئے تھے ۔ باور کیا جاتا ہے کہ اپنی دوسری مدت ِ کار میں ٹرمپ ۲۰۲۲ میں ادھورے چھوڑے اپنے سیاسی‘ معاشی اور سفارتی ایجنڈہ عملانے میں پہلے سے زیادہ جوش و ولولہ دکھائیں گے۔ نئے صدر صاحب اس بات کا گھمنڈ بھی رکھتے ہیںکہ کرہ ٔارض پر ٹرمپ محض کسی سربراہ ِحکومت اور صدرِ ریاست کانام ہی نہیں بلکہ وہ اپنی سیاسی دنیا میں بیٹھے بٹھائے ملکوں اور قوموں کی تقدیر بنانے بگاڑنے میں فیصلہ کن قوت کا حکم رکھتے ہیں ۔ بنابریں حلف برداری کی تقریب میں ٹرمپ کا جوش وجذبہ دیدنی ‘ بدن زبان فاتحانہ‘ طرز ِ کلام متاثر کن دیکھا گیا۔ حلف اٹھانے کے بعد قوم کے نام اُن کا خطاب بھی اُن کی سیاسی دنیا کا محل وقوع اور حدودِ اربعہ سجھا تاہے ۔ ا س موقع پراُن کےمنہ سے نکلا ایک ایک لفظ آنےوالے چارسال میں اُن کی حکمت عملیوں‘ منصوبوں ‘ ترجیحات اور پسند وناپسندکااحاطہ کرتا رہا ۔ یہ خطاب خالص لفاظی نہیں بلکہ صدر کے ممکنہ اقدامات کا واضح اشاریہ ہے۔ ٹرمپ صاحب بخوبی جانتے تھے کہ امریکہ سمیت پوری دنیا اس اہم تقریب کو انہماک اور دل جمعی سے دیکھ رہی ہے‘ اُن ہیں سن رہی ہے ‘ان کی ادائیں تاڑ رہی ہیں اور اپنی اپنی سوچ کے مطابق اُن کی باتوں سے مطالب ومفاہیم نچوڑ رہی ہے ۔ اپنی تقریر کے آخر پر جہاں ٹرمپ نے’’ شکریہ امریکہ ‘‘بولا‘وہاں’’ شکریہ دنیا‘‘ کہہ کر دبے لفظوں میں دنیا کو اپنی زوردار اہمیت کا تاثر دیا۔
اس تقریر سے مترشح ہوتا تھا کہ ٹرمپ کے قلب وجگر میں کون سی سیاسی ا ورفکری دنیا آباد ہے‘وہ کیا کیا کرنے جارہے ہیں اور کیا کیا نہیں کرنا چاہتے۔اُن کےخطاب سننے میں دنیا ہمہ تن گوش رہی‘کیوں نہ ہوتی‘ آخر دیر سویر صدر امریکہ اپنی سیاسی دنیا بسانے کے لئے جو نئی نئی پالیساں وضع کریں گے ‘ اُن کے معجزہ نمااثرات بلواسطہ یا بلا واسطہ عالمی معیشت و سیاست سے لے کر ہر قوم وملک کے دروازے پر دیر سویر دستک دینےآئیں گے۔ یہ اثرات ضرور بالضرور پڑنے ہی پڑنےہیں‘ اِنہی کی کار فرمائی سے جنگ وجدل کے معرکے بھڑکنے یاامن کی مخلصانہ کاوشیں کامیاب ہونی ہیں، اِنہی کے دم قدم سے صلح نامے طے پانے ہیں یا پہلے سے طے شدہ سمجھوتے کالعدم قرار پانے ہیں ، اِنہی کی منشا سے دنیا میں اسلحہ کی دوڑ پر بریک لگنی ہے یا بم بارُود کی ہلاکت خیز تجارت مزید پھلنی پھولنی ہے‘ اِنہی کے توسط سے موسمیاتی تبدیلیوں کا خون آشام رُخ موڑاجانا ہے یا ان تبدیلیوں کے زہریلی فصل تمام انسانوں سے لاس اینجلز کیلفورنیا کی ہولناک آگ کی مانند کٹوانی ہے۔ غرض ٹرمپ اپنی سیاسی و نظریاتی دنیا کی مناسبت سے آنے والے ماہ وسال میں جو جو کام کرنا چاہتے ہیں ‘ اس کا خاکہ اُنہوں نے لفظوں کے آئینےمیں بخوبی کھینچ لیا ۔ یہ خاکہ امریکی شہر یوں کے واسطے ہی نہیں بلکہ جہاں والوں کے لئے پیغامِ راحت یا وجہ ٔ مصیبت بننے والا ہے ۔ لہٰذا اُن کے ایک ایک جملے کی کلیدی اہمیت سے کسی صاحب ِ عقل کو انکار کی مجال نہیں ہوسکتی ۔ تقریر میں صدر کی زبانی ’’ ماگا‘‘(Make America Great Again) کی منادی نئی نئی اصطلاحوں کےساتھ کی گئی ‘ مثلاً ایک ہی سانس میں ٹرمپ نے جوشیلے انداز میں ’’امریکہ سب سے پہلے ‘ امریکہ کودوبارہ عظیم بناؤ ‘ محفوظ بناؤ ‘ مشہور بناؤ‘ صحت مند بناؤ ‘ دولت مند بناؤ ‘ خوش حال بناؤ‘‘۔ یہ بول کر صدر نے تالیاں پٹوائیں بلکہ مستقبل کے حوالے سے بند ذہنوں کے دریچے بھی کھول کر رکھ دئے ۔ یہ الفاظ دنیائے ٹرمپ کی وہ ہری بھری پھلواریاں ہیں جن کی خوشبوئیںامریکہ کو معطر بنانےمیں کارآمد ثابت ہوں‘ یہ ہماری دعاہے‘ البتہ صدر ٹرمپ اگر بالفعل دنیا کے لئے بھی انہی مبارک اصولوں اور آدرشوں کی خواہش کریں تو جنوری ۲۹ میں جب وہ آخری بار عہدۂ صدارت کوہمیشہ کے لئے خیرباد کہیں گے تو عالمی امن کا نوبیل پرائز ان کے سینے کی چوڑائی میں عالمی وسعت پیدا کردےگا اور جمہوریت ‘ انسانی حقو ق اور انصاف کے امریکی دعوؤں میں عمل کا رنگ دوڑائے گا۔
کیایہ اہم تقریر ایک جم ِ غفیر کے سامنے صدر ٹرمپ کےجوشِ ِ خطابت کا روایتی مظاہرہ تھا یا امریکہ کے سیاہ وسپید کامالک ا س ضمن میں اپنی منظم کوششوں اورمربوط حکمت عملیوں کا باقاعدہ آغاز بھی کریں گے؟ اس سوال کا جواب آئندہ چار سال تک اُ ن کی اور اُن کے انتظامیہ کی کارکردگی سے قدم قدم پر ملے گا ۔ البتہ یہ ایک حوصلہ افزا حقیقت ہے کہ ٹرمپ نے اپنے خوابوںکا نیا پُر کشش امریکہ بنانے کے لئے ۲۰؍جنوری سے پہلے ہی عملاً کچھ نیا کچھ اچھاکر کے دکھایا بھی کہ کل جہاں کو خوش کن پیغام ملا کہ صدر کی سیاسی دنیا جنگ کی نہیں امن وآشتی کی پرستار ہے اور یہ کہ صدر اپنی دنیا کی تعمیر صلح جوئیانہ انداز میں کر نے کے خواہاں ہیں‘ وہ خطۂ ہائےمبارزت میں امریکن فوجی مداخلت کا خاتمہ چاہتے ہیں ‘ جنگ زدہ خطوں میں ہر نوع کالاجسٹک سپورٹ سسٹم لپیٹنے والے ہیں ‘ تشدد اور شورش زدہ علاقوں میں اپنے خفیہ اورعلانیہ ہاتھ پیچھے کھینچنے والے ہیں تاکہ اپنی ساری توجہات امریکہ کی معیشت کو سنبھالا دینےپر مر کوز کرسکیں ۔ انہوں نے یہ کڑوی حقیقت یونہی دنیا کے سامنے بیان نہ کی کہ امریکی سیاست دان ‘ وزرا‘ عہدے دار ‘ ایسٹیبلشمنٹ صرف اپنے بھلا کرنے میں مست ومگن رہے ‘ امریکی عوام کا کوئی پُرسانِ حال نہ رہا ‘ واشنگٹن روز افزوں ترقی کرتارہا ‘ باقیماندہ ملک ترقی کی دوڑ میں کسی شمار وقطار میں ہی نہ رہا ‘ عام آدمی مسائل کے ہاتھوں پچھڑتا رہا ‘ ا ُس کی زندگی میں معاشی خوش حالی آئی نہ سماجی طمانیت ‘ نتیجہ یہ کہ امر یکہ کا محنت کش طبقہ روزگار سے محروم ہوا‘ مہنگائی اور بے نوائی اس کا لہو چوستی رہی‘ بے گھر ہونا اس کا مقدر بنا ‘ اس کی حالت ِزار کی طرف کوئی توجہ نہ دی گئی۔ ٹرمپ کی سیاسی دنیا کو ملک کے کذب بیان میڈیا ‘ سرکاری ایجنسیوں اور ڈیپ اسٹیٹ سے شدید گلہ رہاکہ انہوں نے انتخابات میں صدر کو شکست فاش دینے میںایکا کیا مگر عوام نے ان کو دندان شکن جواب دے کر نامراد کیا ۔ اس لئے ٹرمپ کی دنیا زیادہ سے زیادہ امریکہ کے عام آدمی کی مرہون ِ منت ہے ‘انہی کی فکر میں کام کام اور صرف کام کرنا چاہتی ہے۔
ٹرمپ کی تقریر کا مثبت پہلو یہ بھی گرداناجائے گا کہ دنیا کا سپر پاور اب اوروں کی فکر میں گھل جانے کی بجائے اپنی ملکی معیشت کی ترقی کو اپنی پہلی ترجیح بنا چکاہے۔اس سلسلے میں دو مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں:اول شام میں بشار الاسد کی یکا یک معزولی ‘ دمشق سے اُس کی رازدارانہ ملک بدری اور شام میں ابومحمد الجولانی کے زیر قیادت مسلح مزاحمتی گروپوں کی عبوری حکومت کا قیام۔ دوم غزہ میں اسرائیل اور حماس کے درمیان اگست ۲۴ سے معرض ِ التوا میں پڑے جنگ بندی معاہدے کایک بہ یک اعلان ‘وہ بھی ٹرمپ کی صدارت شروع ہونے سے دوتین دن قبل ہی۔ شکر ہےکہ اب غزہ میں جنگ بندی نافذ العمل ہے ‘ اُمید کی جاسکتی ہے کہ آگے یہ امن معاہدے کی شکل اختیار کرے گا۔ اس مثبت پیش رفت کے پیش نظر اگر دنیائے انسانیت کے لئے ٹرمپ جی کا بہ حیثیت امریکی صدر منتخب ہونا ایک نیک شگون قراردیاجائے تو بے جا نہ ہوگا۔ پتہ نہیں کہ غزہ کے یہ لٹے پٹےاوربے خانماں لوگ کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ جنگ بندی معاہدے کو اسرائیل کی ہا راوراپنی فتح سے تعبیر کرتے ہیں اور اپنی بربادیوں کی بھاری قیمت بھلا کر جشن مناتے جارہے ہیں ۔ غزہ پٹی ایک ایسے وحشت ناک اور صدمہ انگیز وسیع وعریض ویرانے کا منظر پیش کرتی ہے جس کے چپے چپے پر اسرائیلکے جنگی طیاروں نے لاکھوں ٹن بم بر سائے اور اسرائیلی ڈیفنس فورس( آئی ڈی ایف ) نے زمینی کارروائیاں کرکر کے فلسطینی حکام کے اعداد وشمار کے مطابق اُنچاس ہزار نوسو تیرہ پیروجواں بشمول بچے اور خواتین کوجان بحق کیا ‘ ایک لاکھ دس ہزار سات سو پچاس غزہ باسی زخم زخم کیا ‘ ۴۲ ؍ ملین ٹن کنکریٹ ملبہ کی صورت میں جگہ جگہ بکھیردیا ‘ ستھر فی صد انفرا سٹرکچر منہدم کیا‘ ساٹھ فی صد سے زائد سرکاری عمارات تباہ وبرباد کئے ‘ نوے فی صد رہائشی گھربار کھنڈرات اور ملبے کا ڈھیر بنائے ‘ اسی فی صد کاروبار کھاتہ جات اور مال واسباب سمیت قصہ ٔ پارینہ کیا‘ پچاس فی صد شفاخانے فرش زمین سے نابود ‘ اَڑھ ساٹھ فی صدزرعی زمینیں بنجر بنائیں ‘ اٹھاسی فی صد اسکولوں کاوجود غائب کرڈالا‘ پانسٹھ فی صد رابطہ سڑکیں ختم شد ہ ہیں۔ غزہ کی تباہ حال بستی کےان ڈراؤنے اعداد وشمار سے نہیں لگتا کہ وہاں جنگ بندی کا کوئی مطلب بھی رہا ‘ اس لئے تباہی و تخریب پر مبنی ۴۷۱ دن طویل المیے کے بعد جنگ بندی معاہدے پر اہل شہر کا جشن منانا ایک ناقابلِ فہم گتھی ہے ۔
غور طلب ہے کہ اس دوران حماس کی تحویل میں مغویہ اسرائیلی شہریوں کے پریشاںحال اہل ِخانہ کا دُکھ درد کچھ کم تکلیف دہ نہ رہا ۔ یہ لوگ اپنے پیاروں کے زندہ لوٹنے کی اُمید اور نااُمیدی کے درمیان متواتر معلق رہ کر بے پناہ ذہنی وقلبی اذیتیں سہتے رہے ۔ بہر صورت معاہدے کے مطابق جب غزہ کے۹۰ ؍ قیدیوں کو رہا کیاگیا تو اسرائیلی پارلیمان کی باسٹھ سالہ سابق فلسطینی رُکن بائیں بازو کی فعال لیڈر خالدہ جرار اور بقیہ قیدی ہٹلر کے کنسٹریشن کیمپوںمیں محبوس مظلوم یہودیوں کی طرح ہڈیوں کا ڈھانچہ لگ رہے تھے‘ جب کہ جن اسرائیلی دوشیزاؤں کو حماس نے رہا کیا ‘وہ ہنستےمسکراتے چہروں کے ساتھ خوش وخرم اور چاق وچوبند لگ رہی تھیں‘ لگتاتھا کہ جیسے یہ نانہال میں تھیں‘ جہاں اُنہیں ہر طرح کا لاڈپیار ملا ہو ۔ یہ متضاد مناظر دو مختلف رویوں کو متشکل کرکے دنیا کو بہت کچھ کہے بغیر بتا تے ہیں ۔ یہ معاملہ کوئی محتاج ِ توجیہہ وتاویل سربستہ رازنہیں کہ ان تصاویر سے اخلاقی طور کون کہاں کھڑا دکھائی دیا۔ اپنےتاریخی تقریر میں ٹرمپ نے اس جنگ بندی کا کوئی ادانیٰ سا ذکر کیا نہ لاس اینجلز کے آگ متاثرین کا برسبیل ِتذکرہ کوئی ذکر چھیڑا مگر ’’ اسلامی دہشت گردی‘‘ کے خلاف مسلسل مزاحمت کا عزم دہرانا وہ کسی حال میں نہ بھول گئے ۔
تلخ حقیقت یہ ہے کہ ٹرمپ کی دنیا ہر کس وناکس کے لئے بانہیں کھولی استقبال نہیں کرتی۔اس دنیا میں قدم رکھنے یا ٹرمپ کے ساتھ ایک ہی میز پر کینڈل لائٹ ڈنر میں شریک ہونے کے لئے مکیش اَمبانی اور انیتا امبانی یا ایلان مسک جیسے کارپوریٹ ورلڈ کے ہیروز اور ہیروئین ہونا پہلی شرط ہے ۔ اس دنیا کی منفرد خصوصیت یہ ہے کہ یہاں امیروں کے ساتھ دوستی اور غریبوں کے ساتھ ہمدردی ہے مگر مفلسوں کے لئے اپنائیت کی کوئی گرم جوشی نہیں ۔ حلف برداری کی مرکزی تقریب میں پچیس ہزار چنیدہ لوگ مدعو کئے گئے تھے۔ یہ لوگ ٹرمپ کی دنیا کے چہیتے سرمایہ دار ہی ہوسکتے تھے ‘ صف ِ اول میں یہی مال وزر والے یا خودٹرمپ والی دنیاکے دست وبازو ۔ تقریب میں سابق امریکی صدور جوبائیڈن ‘ جارج بُش‘ بل کلنٹن‘ بارک اوبامہ جیسی بڑی سیاسی شخصیات اپنی بیگمات کےساتھ حاضر تھیں ۔ زمتسانی ہواؤں کے چلتے اور مدعوئین کی کثیر تعداد کے پیش نظر تقریب کا وِینو آخری لمحات میں منتقل کرنے کا فیصلہ لیا گیا۔لگ بھگ پچاس کلومیٹر پر محیط ایریا میں سخت حفاظتی حصار کا بندوبست تھا ‘ مقام ِ تقریب کے تین کلو میٹر علاقے میں ہر قسم کی نقل وحرکت پر پابندی عائد تھی ۔ تاریخ کا بے رحم قلم جنوری ۲۰۲۹ تک ہمہ وقت لکھتا رہےگا کہ امریکی صدر اپنی دنیا کو واقعی درد کا درماں بنایا یا دنیا کادردِسر بڑھایا ۔
تبصرہ لکھیے