ہوم << اسلام نے حربی غلامی کو کیوں باقی رکھا ؟ محمد شاہ رخ خان

اسلام نے حربی غلامی کو کیوں باقی رکھا ؟ محمد شاہ رخ خان

قطع نظر اس بحث سے کہ ملازمتوں کی موجودہ شکلیں بھی کسی غلامی سے کم نہیں، نیز غلامی یا ملازمت معاشرے میں موجود ناگزیر hierarchy کا ایک لازمی جز ہے. بعض لوگوں نے امیر اور بقیہ لوگوں نے ان کے پاس ملازم رہنا ہی رہنا ہے. اسی طرح جنگوں کے نتیجے میں ہمیشہ کسی نے فاتح اور کسی نے مفتوح رہنا ہی رہنا ہے، لیکن یہاں اس بات کو یاد دلانا ضروری ہے کہ اسلام نے غلامی کی اصلا تمام شکلوں کو ختم کر کے محض جنگ ہارنے والے لوگوں میں سے بعض بچ جانے والوں کو غلام بنانے کی صورت حال کو باقی رکھا تھا۔۔

اس کی حکمت کیا تھی؟

اس کا سادہ سا جواب یہ تھا کہ پہلی بات تو یہ ہے کہ ہار جانے والی قوم میں سے کچھ کو حراست میں رکھنا ضروری ہوتا ہے کہ ان کے اندر پنپنے والے انتقام کے جذبات کسی وقت بھی دوبارہ حملہ کرنے پر ابھار سکتے ہیں، اور اپنا دفاع کرنا ہر ریاست کی ذمہ داری ہے۔ دوسری بات یہ کہ اگر اسلام میں جنگوں کے مقاصد پر غور کیا جائے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں دوسروں کے ساتھ جنگ اسی صورت ہوتی ہے کہ یا تو اسلام کی دعوت میں رکاوٹ بن رہے ہوں، یا وہ مسلمان علاقوں پر حملہ کردیں تو دفاع کیا جائے۔ دفاعی صورت سے ہٹ کر اگر اقدامی صورت کو دیکھا جائے تو اسلام کا اولین مقصد توحید کی نشر و اشاعت ہے۔ اب یہ معاہدوں کی صورت ممکن ہو یا جنگ کر کے، یہ حالات طے کرتے ہیں۔

یہی وجہ ہے کہ جب مسلمان کسی علاقے کو فتح کرتے ہیں، تب بھی بچ جانے والے لوگوں کو اپنے معاشروں میں اس لیے جگہ دیتے ہیں کہ وہ اسلام کو سیکھ سکیں، اسلام کی دولت سے مالا مال ہو ں اور اپنے بڑوں کی طرح غلطی کر کے آخرت برباد نہ کریں۔ یہ مضمون خود نبی علیہ السلام کی حدیث سے ثابت ہے۔ سیدنا ابوطفیل رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور بہت مسکرائے، پھر فرمایا: ”کیا تم مجھ سے میری مسکراہٹ کے بارے میں دریافت کرو گے؟“ ہم نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ کیوں ہنسے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں نے اپنی امت کے کچھ لوگ دیکھے، جنھیں زنجیروں میں جکڑ کر جنت کی طرف لے جایا جا رہا ہے، وہ جنت انھیں بڑی ہی ناپسند ہے!“ ہم نے کہا: وہ کون لوگ ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ عجمی لوگ ہیں، مہاجروں نے انھیں قیدی بنا کر اسلام میں داخل کر دیا۔“ (الصحیحة: 2135)

اس حدیث کا شاہد صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔ ثمامہ بن اثال رضی اللہ عنہ جو کہ اسلام لانے سے قبل نبی علیہ السلام پر حملہ کرنا چاہتے تھے ، جب انھیں گرفتار کر کے تین دن مسجد نبوی میں باندھ دیا گیا تو وہ مسلمانوں کے حسن سلوک سے متاثر ہوکر مسلمان ہوگئے اور الٹا اہل مکہ کا راشن پانی بند کردیا۔ تو ایسے لوگوں کو مانوس کرنے کے لیے اپنے گھر کا حصہ بنالینے سے بہتر دعوت دینے کا کوئی طریقہ نہیں ہوسکتا۔ بلکہ بعض احادیث میں باقاعدہ غلام لونڈی کی تربیت کرنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے۔

اور پھر ایسے لوگ صرف اسلام قبول نہیں کرتے بلکہ بہت مرتبہ پیدائشی مسلمانوں سے بڑا مقام حاصل کرلیتے ہیں۔ امام اوزاعی کے خاندان کو سندھ سے قیدی بناکر شام لے جایا گیا تھا۔ وہاں امام اوزاعی کی تربیت ہوئی، آپ نے علم سیکھا اور اللہ نے آپ کو اس قدر بلند مرتبہ عطا فرمایا کہ آپ آئمہ اربعہ کے پائے کے تھے، اور آپ کا مذہب بھی کئی سالوں تک چلتا رہا ہے۔

سلطنت عثمانیہ کے بہت سے حکمران بھی لونڈیوں کے بطن سے ہی پیدا ہوئے تھے۔ لہذا اس قدر potential کو ہم کیوں ضائع کریں۔ اپنے نظریے کو فروغ دینے کی کوشش تو کیا مشرق اور کیا مغرب، ہر کوئی کرتا ہے، کیا مغربی ممالک کے تعلیمی اداروں میں زبردستی سیکولرزم اور لبرلزم کو فروغ نہیں دیا جاتا؟

اسلام تو پھر آخرت کا تصور رکھتا ہے، اور آخرت کے عذاب سے بچانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ غلام اپنے آپ کو مکاتب کے معاہدے کے تحت آزاد بھی کرواسکتے ہیں۔ البتہ یہ سہولت دنیا بھر کے قید خانوں میں کسی مجرم کو حاصل نہیں. اگر کوئی یہ کہے کہ انہیں مجرموں پر کیوں قیاس کیا جارہا ہے تو کہنے کو تو جب لوگوں کو غلام لونڈی بنایا جاتا ہے، یہ بھی ایک جرم ہی تھا کہ وہ مسلمانوں کو مارنے کے درپے تھے، اگر مسلمان ان کو جنگ نہ ہراتے تو یہ ان کو ماردیتے۔
غلامی کا مکمل خاتمہ تب ہی ممکن ہے جب تمام لوگ مسلمان ہو جائیں، اور کسی غیر مسلم کو اسلامی معاشرے سے مانوس کرنے، اس کو دعوت دینے کی حاجت باقی نہ رہے۔