آج کل گھروں میں اکثر جھگڑے کی بنیاد یہ ہے کہ بہو کام نہیں کرتی۔ بہو کہتی ہے میں کام کیوں کروں، میں کیا نوکرانی ہوں۔ جن کا اپنا الگ سیٹ اپ ہے وہاں بھی بے ترتیبی ہے کام نہیں کرنا۔ کچھ مائیں کہتی ہیں ہم نے بیٹیوں کو سب کام سیکھائے ہیں ہر کام میں طاق ہیں۔ کچھ مائیں کہتی ہیں ہماری بیٹی کو کچھ نہیں آتا ہم نے کبھی کام نہیں کروایا۔ کچھ کہتی ہیں ہم نوکری کرتے ہیں کام کرنے کا ٹائم نہیں ہے۔ کچھ کہتی ہیں ہم بیمار ہیں ہم سے کام ہوتا ہی نہیں۔ کچھ کہتے ہیں کام کاج کرو تو بچوں پہ توجہ نہیں دی جا سکتی۔ ہر طرف سے کام، کام اور کام کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔سوال یہ ہے کہ کام کرنے یا کام نہ کرنے کو ایشو کیوں بنا دیا گیا ہے. کیا محض کام کاج کرنے سے گھر اور معاشرے چلائے جا سکتے ہیں یا اس کے ساتھ کچھ اور سیکھنے کی ضرورت بھی ہے.
درصل بنیادی چیز کام کرنا نہیں ہے ، بلکہ کام کرنا آنا اور کام لینا آنا بھی ہے . اصل ایشو احساس ذمہ داری اور مینیجمنٹ ہے Sense of responsibility & Management جو کہ احساس ملکیت کے ساتھ جڑا ہوا ہے یعنی Sense of ownership . بچوں میں بچپن سے احساس ملکیت پیدا کرئیں پانچ سال کے بعد بچوں کو چیزوں کی ملکیت دیں مثلاً میں نے اپنی بچوں کو الماری میں ایک ایک دراز دے دی، یہ ان کی دراز ہے، اس میں وہ جو چاہیں رکھیں لیکن اس کو صاف رکھنا اور ترتیب سے رکھنا ان کی ذمہ داری ہے، ہاں میں مدد کر سکتی ہوں۔ اسی طرح اپنی رائٹنگ ٹیبل صاف رکھنا ایک بچے کے ذمہ ہے اور کتابوں والا ریک ترتیب سے رکھنا دوسرے بچے کی۔ اسی طرح سب بچوں کی ایک الگ الماری ہے اس کے باوجود کہ میرے پاس ملازم ہیں، بچے اپنی الماری خود ارینج کرتے ہیں میں ساتھ مدد کرتی ہوں۔ جب بچے تھوڑے بڑے ہو جائیں تو انہیں سکھائیں کہ یہ آپ کا کمرہ ہے، اسے صاف رکھنا اور ترتیب دینا آپ کی ذمہ داری ہے. ہاں آپ کے پاس ملازم ہیں تو ملازم بچوں کی مدد کر سکتے ہیں لیکن ذمہ داری بچوں کی رہے گی ملازم کی نہیں۔ اسی طرح ٹوائلٹ، گاڑی، کچن ، گارڈن، لاونج سب کی ذمہ داریاں بانٹی جا سکتی ہیں۔
جب لڑکی بیاہ کے سسرال جائے تو سسرال والوں کو بھی یہ سمجھنا چاہیے کہ بہو کو اپنائیت اور ملکیت کا احساس دیں اور خود اس کی ہر ممکن مدد کریں۔ ملازم رکھ سکتے ہیں تو ملازم ضرور رکھیں، آپ کی مدد بھی ہو گی ، ساتھ کسی کو روزگار بھی ملے گا . جو لوگ فخر سے یہ کہتے ہیں کہ ہمارے گھر ملازم رکھنے کا رواج نہیں، ہم سب کام خود کرتے ہیں، وہ یہ سمجھیں کہ استطاعت کے مطابق ملازم رکھنا انبیاء کی سنت ہے۔ کسی کے روزگار کا ذمہ ضرور لیں۔ اس کے علاوہ جو سسرالیں یہ کہتی ہیں کہ گھر تو ہمارا ہے ہمارا حکم چلے گا، بہو صرف کام کرے اور کام سے کام رکھے، تو یہ بہت خراب رویہ ہے. بہو آپ کے گھر کا فرد ہے ملازمہ نہیں ہے، وہ ذمہ دار تب بنے گی جب آپ اسے گھر کا فرد سمجھیں گے، اپنائیت اور ملکیت دیں گے اور بوجھ ڈالنے کے بجائے ان کے مددگار رہیں گے۔
اس کے ساتھ لڑکیوں کو بھی سمجھنا چاہیے کہ اپنی ذمہ داریوں کو own کریں، کام نہیں آتا کوئی بات نہیں، سیکھا تو جا سکتا ہے ناں، سیکھنے کی خو ہمیشہ رکھیں۔ اپنی شخصیت کو ہر دن کچھ نیا سیکھ کے چمکاتی جائیں، گھر داری بنیادی چیز ہے۔ اسی طرح والدین اپنے بچوں کو خدمت گزار بنائیں. یقین جانیں خدمت گزار لوگ بہت بانصیب ہوتے ہیں. کبھی کام نہیں کروایا پانی تک نہیں مانگا کوئی قابل فخر بات نہیں ہے. یوں تو آپ نے اپنے بچے کا نصیب نہیں کھولا ظلم کیا ہے۔
اسی طرح بچوں کو مینیجمنٹ سیکھائیں۔ وقت کی مینجمنٹ، پیسے کی مینجمنٹ، کاموں کی مینجمنٹ، پیسے کی مینجمنٹ کے لیے بچوں سے اپنے گھر کا بجٹ بنوائیں یا بجٹ بناتے ہوئے ساتھ رکھیں۔ کسی دعوت کا بجٹ بنوائیں، کسی شادی کے خرچے کا بجٹ بنوائیں، سیزن کی شاپنگ کا بجٹ, گھر پہ رنگ روغن کروانے کا بجٹ یا سیرو سیاحت کا بجٹ۔ انہیں بتائیں روپے کمانا اہم ہے اس کے ساتھ سنبھالنا اور خرچ کرنا بھی آنا چاہیے۔
بچوں کو ان کی ذات کو سنبھالنا نہیں آتا گھر کیسے سنبھالیں گے، گھر داری کی بنیادی چیزیں بلا تفریق بیٹا ہو یا بیٹی، انہیں سکھائیں، ان میں صفائی ستھرائی اور پاکیزگی کا کانسیپٹ ڈویلپ کرئیں۔ گندگی، غلاظت، ناپاکی، بے ترتیبی، گھروں میں ہی نہیں دماغوں میں بھی پنپنے لگتی ہے اور شخصیت کا حصہ بن جاتی ہے ۔ بے ڈھنگا پن زندگی کے رنگ پھیکے کرتا ہے۔ بچوں کو سکھائیں کام کرنے کے ساتھ کام لینا بھی ایک فن ہے اور کام لینے کے لیے، کام کرنا آنا ضروری ہے. ملازم بھی مالک کے سیٹ کیے ہوئے معیار پہ کام کرتے ہیں، بے ڈھنگوں کے ساتھ بے ڈھنگ پنا ہی دکھاتے ہیں۔
ٹائم مینیجمنٹ ایک پورا سبجیکٹ ہے،مہارت ہے۔ اس میں بچوں کو طاق کریں کہ وہ کیسے اپنے وقت کا بہترین استعمال کر سکتے ہیں۔ اپنی شخصیت کو خوبصورت اور فعال بنائیں، اپنے لیے اور کار آمد بنائیں دوسروں کے لیے۔ یہی پرسکون اور آسودہ زندگی کا راز ہے۔
تبصرہ لکھیے