پہلے تو ایک تصحیح کیجیے۔ ابراہام لنکن نے غلامی ختم کرنے کےلیے جنگ نہیں کی، بلکہ جنگ میں غلاموں کو ساتھ ملانے کےلیے غلامی کے خاتمے کا اعلان کیا۔ خیر حقائق کو ایسے ٹویسٹس تو یہ دیتے ہی رہتے ہیں۔
یہ بھی محض غلط فہمی/دھوکا ہے کہ غلامی ختم ہوگئی ہے۔ غلامی اپنی بد ترین صورتوں میں آج بھی موجود ہے اور اس منافقت کے ساتھ موجود ہے کہ اس کے خاتمے کا اعلان کیا گیا ہے لیکن اسے ختم نہیں کیا گیا۔ اور سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ غلامی کو بس ایک جامد حقیقت کے طور پر پیش کیا گیا ہے اور فرض کیا گیا ہے کہ دنیا بھر میں بس ایک ہی طرح کی غلامی رائج تھی۔ ایسی سطحیت اور دو ٹوک قطعیت ان دوستوں کی خاصیت ہے جو رجعیت پسندی، انتہا پسندی اور ملائیت سے پاک ہونے کے زعم میں مبتلا ہوں لیکن ان کے اندر یہ تینوں خصوصیات بدرجۂ اتمّ پائی جاتی ہوں۔
اس بحث میں ایک مفروضہ بات کو مسلمہ حقیقت کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ کبھی اس مفروضے پر سوال تو اٹھائیے: کیا واقعی غلامی بری چیز تھی؟ کیوں؟ اچھائی اور برائی کا معیار کیا ہے؟ کیسے آپ کسی کام کو اچھا یا برا کہتے ہیں؟ اور جسے آپ اچھائی یا برائی کا معیار قرار دے رہے ہیں، اسے آپ دوسروں پر کیسے تھوپ سکتے ہیں؟ خود اپنے ہی مفروضات کی روشنی میں بتائیے۔
خیر، اس پر تفصیل سے بات کریں گے، ان شاء اللہ، لیکن اس وقت ایک پرانی پوسٹ سے چند اقتباسات پیشِ خدمت ہیں۔ یہ پوسٹ ایک صاحبِ علم کی پوسٹ کے جواب میں لکھی گئی تھی۔
اس موضوع پر پچھلی ڈیڑھ صدی میں لکھے گئے لٹریچر کی عمومی خصوصیت ہے، یہ ہے کہ "غلامی" کو ایک جامد اور عالمی طور پر متفق علیہ یکساں تصور کے طور پر پیش کیا گیا ہے حالانکہ مختلف ادوار میں ، مختلف معاشروں میں، مختلف نظام ہاے قوانین میں، غلامی کا عنوان مختلف نوعیت کی جکڑبندیوں کو دیا گیا ہے۔ اس انتہائی وسیع spectrum میں موجود مختلف shades کو "غلامی" کا ایک نام دے کر نہ صرف تنوع کی نفی کی جاتی ہے بلکہ بہت ہی زیادہ سادہ فکری ، اور معاف کیجیے گا، سطحیت کی بنیاد پر انتہائی قطعی لہجے میں دو ٹوک مؤقف اپنایا جاتا ہے جو خطبوں ، یا عذرخواہی، میں تو مفید ثابت ہوسکتا ہے، علمی اور عملی طور پر اس کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ مثال کے طور پر کیا جسے رومی قانون میں غلام کہا جاتا تھا، اسلامی قانون میں غلام کا وہی تصور تھا؟ کلاسیکی (اور چونکہ "کلاسیکی" کا لفظ آپ کو بہت مرغوب ہے، اس لیے یہاں استعمال کرنے کی جسارت کررہا ہوں) رومی قانون میں غلام کو "شخص" (person)کے بجاے "مال" (property)قرار دیا جاتا تھا۔ "شخصیت" (personality) کی نفی کے نتائج نفسیات میں نہیں، بلکہ قانون میں دیکھیں تو اس کا قانونی اثر یہ تھا کہ گائے، بھینس، زمین، لکڑی یا کسی بھی دوسری چیز کی طرح، جسے مال مانا جاتا تھا، غلام کے کوئی قانونی حقوق نہیں ہوتے تھے (خواہ عملاً ان کےلیے کچھ نہ مانا جاتا رہا ہو، لیکن قانون میں ان کے کوئی حقوق نہیں تھے)۔ قانونی حقوق کےلیے پہلے قانونی شخصیت کا ماننا لازم تھا اور وہ غلام کو میسر نہیں تھی۔
مجھے معلوم ہے کہ آپ کے بہت سے "قاری "فوراً کہہ اٹھیں گے کہ فقہاے کرام نے بھی تو غلام کو مال مانا ہوا ہے؛ جی ہاں، یقیناً مانا ہوا ہے لیکن صرف مال نہیں، شخص بھی؛ بلکہ پہلے شخص، پھر مال ؛ اور اس وجہ سے اسلامی قانون میں غلامی کا تصور کلاسیکی رومی قانون کے غلامی کے تصور سے اپنی اساس اور جوہر میں ہی مختلف ہوجاتا ہے۔ شخص ماننے کا لازمی نتیجہ یہ ہوا کہ غلام کے کچھ حقوق ایسے تسلیم کیے گئے جن پر آقا کا اختیار نہیں ہوتا تھا کیونکہ وہ حقوق شریعت نے متعین کیے ہیں اور شریعت کے دیے گئے حقوق کو چھیننے کا اختیار آقا کے پاس ، بلکہ ریاست کے پاس بھی ، نہیں تھا۔ اسلامی قانون کے بعد کی دنیا میں غلامی کی مختلف نوعیتیں دنیا میں رائج رہی ہیں، اور اب بھی رائج ہیں، اور وہ بنیادی طور پر انھی دو قسموں میں تقسیم ہیں: غلام بطور مال یا غلام بطور قانونی شخص اور مال؟ اگر دوسری قسم ہے تو اس کے مختلف مدارج ہیں کہ کسی میں قانونی حقوق زیادہ ہیں اور کسی میں کم لیکن بہرحال کسی نہ کسی درجے میں "کسی کی ملکیت"میں بھی ہیں۔ اب ذرا گرد و پیش پر نظر ڈال کر دیکھیے کہ یہ دو قسمیں آج بھی رائج ہیں یا نہیں؟ بالکل ہی آخری سطح پر آکر دیکھیے کہ کیا بعض انسانوں کےلیے قانونی شخصیت کا انکار آج بھی ہورہا ہے یا نہیں؟ اگر ہورہا ہے تو پھر آج کے مسلمانوں کو ماضی کے مسلمانوں کے کیے گئے کاموں کی بنیاد پر کیوں ملزم کے کٹہرے میں کھڑا کیا جائے ؟ آج کے انسانوں سے آج کے کرتوتوں کا کیوں نہ پوچھا جائے؟
معاصر بین الاقوامی نظام کے متعلق یہ مفروضہ کہ اس نے غلامی کا خاتمہ کردیا ہے، محض پروپیگنڈا ہے اور بس۔ غلامی کی دونوں قسمیں (غلام بطور مال اور غلام بطور شخص و مال) معاصر دنیا میں نہ صرف رائج ہیں بلکہ بین الاقوامی قانون کی رو سے انھیں تسلیم بھی کیا گیا ہے ۔ چند مثالیں ملاحظہ کیجیے۔
نوے کی دہائی میں سعودی عرب نے اپنے ایک شہری کو (اس شہری کا نام خوفِ فسادِ خلق کی وجہ سے نہیں لے رہا) حقوقِ شہریت سے محروم کردیا۔ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا۔ نہ ہی تنہا سعودی عرب نے یہ کارنامہ سرانجام دیا ہے۔ بہت سے ممالک نے بارہا بہت سارے لوگوں کو حقوقِ شہریت سے محروم کیا ہوا ہے۔ دور کیوں جائیں؟ روہنگیا اور بہار میں ہی دیکھ لیجیے۔ سوال یہ ہے کہ حقوقِ شہریت سے محرومی کا قانونی مطلب کیا ہےبالخصوص جب آپ دوسری ریاستوں کو بھی مجبور کریں کہ وہ اس شخص کو شہریت تو کیا "سیاسی پناہ "بھی نہ دے ؟ حقوقِ شہریت سے محروم شخص ، جو کسی بھی ریاست کا شہری نہ ہو، جسے بین الاقوامی قانون کی زبان میں stateless person کہا جاتا ہے ، کے قانونی حقوق کیا ہوتے ہیں؟ پھر یہ بھی یاد کیجیے کہ بین الاقوامی قانون کی رو سے انسانی حقوق کےلیے مطالبہ ریاست سے کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب ایسا شخص کسی ریاست کا شہری ہی نہیں ہے تو اس کے حقوق کا مطالبہ کن سے کیا جائے؟ ہاں، اس سوال پر بھی ضرور غور کیجیے کہ اس کی حیثیت قانونی طور پر اس غلام سے کیسے مختلف ہے جس کےلیے قانونی شخصیت تسلیم کی گئی ؟
دوسری مثال گوانتانامو کے قیدیوں کی ہے۔ بین الاقوامی قانون کی رو سے مانا جاتا تھا کہ جنگ میں آپ کے مخالف فریق یا تو مقاتل ہیں اور یا غیر مقاتل اور پھر دونوں قسموں کےلیے قانونی حقوق و فرائض متعین تھے۔ امریکا نے کہا کہ یہ لوگ نہ مقاتل ہیں، نہ ہی غیر مقاتل اور اس وجہ سے بین الاقوامی قانون میں موجود دونوں قسموں کے قانونی نحقوق سے محروم ہیں۔ مزید انھوں نے ان کو امریکا سے باہر گوانتانامو کے جزیرے میں رکھا کہ امریکی قانون کی پہنچ سے بھی دور رہیں۔ سوال یہ ہے کہ گوانتانامو میں موجود قیدیوں کو کس بنیاد پر غلاموں سے مختلف گروہ مانا جائے؟ اور ہاں۔ گوانتانامو تو محض ایک مثال ہے۔ برطانیہ کی بل مارش جیل ہو، عراق کی ابوغریب جیل ہو، افغانستان کی بگرام جیل ہو یا پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود انٹرنمنٹ کیمپس ہوں، اس نوعیت کی غلاموں کی فیکٹریاں تقریباً ہر ریاست نے بنا رکھی ہیں۔ مقدار اور معیار کا فرق ضرور ہوگا لیکن نوع ایک ہی ہے۔ پھر "مسنگ پرسنز" کو غلام نہ کہا جائے تو کیا کہا جائے؟ ان کی تو قانونی شخصیت ہی کا انکار کیا جاتا ہے۔ ہمیں کیا پتہ وہ کہاں ہیں؟ جہاد کےلیے گئے ہوں گے۔ گوادر میں دریافت ہوئے۔ بوریوں میں لاش مل گئی،شکر کریں۔
پھر کارپوریٹ غلامی (corporate slavery)کی کیا بات کی جائے؟ اور اس سب سے آگے بڑھ کر ریاست کی غلامی تو اس وقت بھی بین الاقوامی قانون کا رکنِ رکین ہے۔اپنے دستوری نظام میں ہی دیکھیے۔ پاکستان میں جو کچھ ہے اور جو کوئی بھی ہے، وہ پاکستان کی ملکیت ہےاور پاکستان کے ساتھ غیرمشروط وفاداری اس کا ناقابل تنسیخ فریضہ ہے۔ آپ فلم کو بے شک عنوان دیں "مالک" اور شوق سے کہیں کہ میں اس ملک کا مالک ہوں لیکن قانونی طور پر ملک مالک ہے اور میں اور آپ مملوک۔ چند دن قبل عرض کیا تھا کہ پاکستان میرا نہیں ہے، میں پاکستان کا ہوں ۔ یقین نہ ہو تو جبری خدمت کا قانون ہی دیکھ لیجیے ۔ ریاست کیسے ہم سب کو زبردستی کام کرنے پر مجبور کرسکتی ہے۔ ینگ ڈاکٹرز کے خلاف کارروائی اسی قانون کے تحت تو ہوتی ہے۔ ریاست کے غلام ہو تم، انکار کیسے کرسکتے ہو؟ جبری تعلیم بھی دیکھیے۔ آپ چاہیں یا نہ چاہیں، آپ کے بچے کو تعلیم دیں گے اور اسے وہ کچھ پڑھائیں گے جو ہم چاہیں گے۔ جبری ویکسینیشن کو ہی دیکھیے۔ آپ لاکھ چیخیں چلائیں، آپ کے بچے کو ہر بار پولیو کے قطرے پلائیں گے۔ وغیرہ ۔
اب کہیے کہ اس جبر میں اور غلامی میں فرق ہوتا ہے۔ میں مان لوں گا لیکن یہ ضرور کہوں گا کہ اس غلامی اور اس غلامی میں بھی فرق ہوتا ہےاور غلامی کی بہت سی قسموں کو لمحۂ موجود میں بھی بین الاقوامی قانونی نظام نے تسلیم کیا ہوا ہے۔ اس لیے یہ سوال ہی غلط ہے کہ کل کو اگر مسلمان عالمی سیاسی غلبہ حاصل کرلیں گے تو وہ غلامی کو کیسے رائج کرسکیں گے؟ بے فکر رہیں۔ انسانوں نے غلامی کو ہمیشہ تسلیم کیا ہے اور آئندہ بھی تسلیم کرتے رہیں گے۔ ہاں، مغربی سیاسی نظام کی منافقت یہ ہے کہ "غلامی" کے عنوان پر پابندی لگادی ہے خواہ غلامی کی کئی نئی بدترین شکلیں انسانی تاریخ میں پہلی دفعہ اسی نظام نے رائج کی ہوں۔
تبصرہ لکھیے