محترم غامدی صاحب کی تعبیرِ دین اہلِ تجدد کے سوا دیگر تمام مسالک کے لیے بڑی پریشانی کا باعث ہے اور ہر مکتبِ فکر ان کے خلاف اپنا اپنا رد پیش کرتا رہتا ہے۔ اس رد میں جو بات بہت زیادہ زور دے کر کہی جاتی ہے یہ ہے کہ غامدی صاحب کسی مدرسے سے ”باقاعدہ“ تعلیم یافتہ نہیں ہیں، اور ان کی دینی تعلیم ناقص ہے۔ ان کی عربی دانی پر بھی اعتراضات اٹھائے گئے ہیں۔ اس بنا پر ان کے دین کے فہم اور ان کی تعبیری آرا کو ناقص قرار دیا گیا ہے۔ حال ہی میں، میں نے غامدی صاحب کی ایک ویڈیو سنی جس میں دو نوجوان ان کی تعلیم، خاص طور پر دینی تعلیم، کے بارے میں پوچھ رہے ہیں کہ انہوں نے کہاں کہاں سے تعلیم حاصل کی۔ اس پر غامدی صاحب بہت تفصیل کے ساتھ اپنے تعلیمی سفر کو بیان کرتے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں کہ ان کے والد گرامی ان کو کسی مدرسے میں داخل کرانا چاہتے تھے لیکن ان کی والدہ محترمہ اس پر راضی نہ تھیں، اس لیے انہوں نے دینی تعلیم کے لیے دیگر ذرائع استعمال کیے۔ ان کی تعلیم میں افراد کو بطور استاد مرکزیت حاصل رہی جن کے سامنے انہوں نے زانوئے تلمذ تہہ کیا۔
محولہ بالا سلسلۂ گفتگو میں بنیادی ترین سوال یہ ہے کہ جو دینی تعلیم اور علم انہوں نے حاصل کیا اور اس تعلیم اور اس علم کے ذریعے وہ جن دینی اور مذہبی آرا تک پہنچے یا جو علمی نتائج انہوں نے اخذ کیے وہ ہمارے اس طبقے کے لیے قابل قبول نہیں جنہوں نے مدارس میں تعلیم حاصل کی ہے۔ اب اہم سوال یہ ہے کہ آج کی دنیا میں کسی بھی پڑھے لکھے آدمی کی تعلیم اور علم کو استناد کیسے حاصل ہوتا ہے؟ اس حوالے سے محترم غامدی صاحب کے معترضین جو دلیل لاتے ہیں یہ ہے کہ ایک ایسا عالم جس نے مدرسے میں تعلیم حاصل کی ہو اس کا علم اور تعلیم معتبر ہے جبکہ ایک ایسا آدمی جس نے ان ذرائع سے تعلیم حاصل نہ کی ہو اس کی تعلیم اور علم معتبر نہیں ہے۔ ہر طرح کے علم کی ثقاہت میں استناد کا سوال بنیادی اہمیت رکھتا ہے۔ جدید تعلیم اور علم بھی اس سے خالی نہیں ہے اور ان میں استناد کے مسئلے کو جس طرح حل کیا گیا ہے اس کو سمجھنا ضروری ہے کہ یہ کہاں سے حاصل ہوتا ہے۔ محترم غامدی صاحب پر جتنی بھی تنقیدات اب تک سامنے آئی ہیں ان کی نوعیت ٹیکنیکل یا ججمینٹل ہے، اور ان میں کوئی بھی substance نہیں ہے۔ ٹیکنیکل یہ کہ ان کی گردانوں کو نشانہ بنایا گیا ہے یا ان پر تجدد کے فتاویٰ جاری کیے گئے ہیں۔ ہمارے ہاں تجدد کے مباحث اغلباً سادہ لوحی پر مبنی ہیں۔ استناد میں بنیادی طور پر اس اتھارٹی کی نشاندہی ضروری ہوتی ہے جو تعلیم اور علم کی توثیق کرتی ہے۔ اس میں بنیادی سوال یہ ہے کہ آیا یہ استناد سیاسی طاقت اور سرمائے کے اختیار سے جڑا ہوا ہے یا اس کی حق کے ساتھ نسبتیں استوار اور واضح ہیں۔
جدید عہد نے یا درست تر معنی میں جدیدیت نے اس مسئلے کا حل یہ نکالا ہے کہ تعلیم اور علم کے ماضی سے چلے آتے استناد کا کلیتاً خاتمہ کر دیا ہے اور اپنے نئے پیدا کردہ استناد کو اداروں کی طرف منتقل کر دیا ہے۔ نئی ساخت کا ہر ادارہ (institution/organization) سیاسی طاقت اور سرمائے کا محض ایک نقاب ہوتا ہے۔ جدیدیت کی قائم کردہ ریاست اپنے ایک قانونی حکم سے ادارے کے قیام کی اجازت دیتی ہے یا معاشرے میں سرمائے کی نئی حرکیات ادارے کی تشکیل کا باعث بنتی ہے۔ ادارے کا قیام دراصل سیاسی طاقت اور سرمائے کی ایک توسیعی حکمت عملی ہے جس میں جدید ریاست اور سرمایہ روایتی معاشرے کو پسپائی پر مجبور کر دیتا ہے اور آہستہ آہستہ وہ social space میں بھی ہر اس چیز کا استناد اپنے قبضے میں لے لیتی ہے جو اصلاً معاشرے سے فراہم ہوتا تھا۔ اس میں ایک دلچسپ بات ہے کہ جب سلجوقیوں نے فاطمیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے مدارس کی صورت میں تعلیم کی رسومیاتی تشکیل (formalization) کا آغاز کرتے ہوئے مدرسہ نظامیہ قائم کیا تو اس پر ماوراء النہر کے علما کا شدید رد عمل سامنے آیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ ہمارے علما تعلیم اور علم پر سیاسی طاقت کی پرچھائیں سے بھی اجتناب کرتے تھے، اور ہمارے مجتہدین اور علمائے کبار کی زندگیاں اس پر گواہ ہیں۔ کجا یہ کہ تعلیم اور علم کا استناد استعماری طاقت سے براہ راست یا بالواسطہ حاصل ہو۔ ہماری دینی روایت میں تعلیمی اور علمی استناد اور انسانی کردار کی تصویب اور اس کا استناد کبھی بھی ”اداروں“ سے حاصل نہیں ہوتا تھا بلکہ وہ فرد سے فرد تک منتقل ہوتا رہا۔
اگر ذرا گہرائی اور تجزیاتی نگاہ سے دیکھا جائے تو قطعی واضح ہو جاتا ہے کہ برصغیر میں مدارس کا قیام استعماری طاقت اور استعماری سرمائے کی حرکیات کا عکس اور ہماری روایت کی نفی ہے۔ محترم غامدی صاحب نے جس طریقے پر دینی تعلیم حاصل کی وہی طریقۂ کار ہمارے اسلاف کا رہا ہے کہ جس میں فرداً فرداً مختلف اساتذہ کرام سے کسبِ فیض اور تکمیل علم کے بعد طالب اپنے علم میں محکم ہو جاتا ہے، اور دینی امور میں رائے دینے کا مجاز ہو جاتا ہے۔ محترم غامدی صاحب کی اس ویڈیو سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں چیزوں کو دیکھنے کا تناظر کس حد تک بدل گیا ہے۔ اس ویڈیو میں سوال کرنے والے کرید رہے ہیں کہ آیا غامدی صاحب پڑھے لکھے بھی ہیں یا نہیں۔ ان کے سوالات کی بنیاد یہ ہے کہ وہ کسی مدرسے سے تعلیم حاصل کر کے آئے ہیں یا نہیں؟ ان کو خوش فہمی یہ ہے کہ جو آدمی مدرسے سے تعلیم حاصل کر کے آئے اسی کی تعلیم ثقہ ہوتی ہے، جبکہ ہمارے اسلاف کا جو طریقہ کار رہا ہے وہ یہ ہے کہ استاد اپنے شاگردوں کو بغیر کسی ادارے کے نظم کے تعلیم دیتا تھا۔
استعمار کی آمد، مسلم طاقت اور مسلم معاشی اداروں (مثلاً وقف) کے خاتمے کے بعد ایک نئی صورت حال پیدا ہو گئی تھی جس سے ہمارا معاشرہ مجموعی طور پر متاثر ہوا۔ جدید ریاست اور جدید مارکیٹ کے قیام سے تعلیم پر بھی بہت گہرے اثرات مرتب ہوئے۔ جدیدیت، جدید ریاست کے ذریعے آئے یا جدید مارکیٹ کے ذریعے سے، نتائج ایک ہی ہوتے ہیں۔ جدید مارکیٹ کو جاننا ہو تو کراچی کے ایک مدرسے کی خبر کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے جس میں اٹھارہ ارب روپے کی رقوم اور اثاثہ جات شامل تھے۔ اس میں قابل غور پہلو یہ ہے کہ علم پر دو چیزیں اپنا تفوق یا اپنا غلبہ قائم کرنا چاہتی ہیں: ایک حق ہے اور دوسری سیاسی طاقت اور جدید مارکیٹ ہے۔ سیاسی طاقت اور جدید مارکیٹ ادارہ سازی کے ذریعے سے بھلے وہ مدارس ہی کیوں نہ ہوں علم اور تعلیم پر اپنا تفوق اور اپنا غلبہ قائم کر لیتی ہے جبکہ حق کی روایت یہ رہی ہے کہ اہل علم اپنی انفرادی حیثیت میں علم حاصل کرنے کے بعد اس علم کو اپنے طلبا تک پہنچاتے رہے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ روایتی طور پر ذی علم افراد کو ہمارے رؤسا، نبلا، اہل دربار اور بادشاہوں کی سرپرستی حاصل رہی۔ یہاں یہ سوال اٹھ سکتا ہے کہ جو آدمی ہمارے علما کی سرپرستی کرتا ہے وہ ان کی مذہبی رائے اور مذہبی تعبیر پر بھی اثر انداز ہو سکتا ہے یا نہیں؟ اس سوال کا جواب آدمی کو دیکھ کر کیا جائے گا، سرپرستی کی بنیاد پر نہیں ہو گا۔ ماضی قریب میں ارکاٹ کی ریاست میں جہاں مولانا عبدالعلی بحر العلومؒ دینی تعلیم دیتے تھے اور وہاں وہابیت کے حوالے سے جو واقعہ وہاں پیش آیا اس کا مطالعہ اس سوال کا کافی و شافی جواب فراہم کرتا ہے کہ ہمارے علمائے کرام کا طریقہ کار کیا رہا اور سرپرستی کے ہوتے ہوئے انہوں نے اپنی حریت علمی اور حریتِ شعور کو کس طرح باقی رکھا اور کس کس طرح سے دین کی خدمت کی۔
ایک بہت بڑی خوش فہمی یا غلط فہمی یہ ہے کہ چونکہ غامدی صاحب نے مدرسے سے تعلیم حاصل نہیں کی اس لیے ان کو عربی آتی ہے اور نہ ان کی دینی رائے معتبر ہے، اور نہ وہ اسلاف کی روایت میں کھڑے ہیں۔ اس طرح کے بہت سارے الزامات ان پر عائد کیے جاتے ہیں۔ صرف مدرسہ جاتی تعلیم کی بنیاد پر روایت کے جملہ حقوق اپنے نام منتقل نہیں کیے جا سکتے۔ لیکن اگر ہم تاریخ کا کوئی شعور رکھتے ہوں، اپنی دینی اور علمی روایت سے باخبر ہوں اور تعلیم حاصل کرنے کا جو طریقہ ہمارے اسلاف میں یا ہمارے روایتی معاشروں میں مروج رہا اس سے باخبر ہوں تو یہ ویڈیو سننے کے بعد بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ غامدی صاحب نے جس طریقے سے تعلیم حاصل کی وہی ہمارے اسلاف کا طریقہ تھا نہ کہ وہ طریقہ جو کہ مدارس بنا کر برصغیر پاک و ہند میں انگریزوں کی آمد کے بعد رائج کیا گیا۔ تاریخی حالات میں ہماری دینی روایت ازخود مدارس میں سما کر ختم نہیں ہو گئی۔ ادارہ یا آرگنائزیشن استعماری کوزے کی طرح ہے اور تہذیبی اور دینی روایت اتنی بڑی چیز ہے کہ وہ ان کوزوں میں سما نہیں سکتی تھی۔
ہمارے دینی مدارس اور غامدی صاحب فینامینن ایک ہی تاریخی سبب سے پیدا ہوئے ہیں۔ جدید ریاست کے زیر سایہ جدید مارکیٹ اور کلچر کے ظہور نے مدارس کا قیام ناگزیر بنا دیا اور تجدد کے فنیامینن کو بھی جنم دیا۔ یعنی تعلیمی حوالے سے جو کام ہمارے اہل امر کیا کرتے تھے وہ جدید ریاست کے تحت پیدا ہونے والے نئے مسلم بورژوازی کے سپرد ہوتے چلے گئے۔ لیکن یہ صورت حال جدید ریاست کے لیے قابل قبول نہیں ہے، اور مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے جو حالیہ بحثا بحثی ہوئی اس کا یہی تناظر ہے۔ ہمارے دینی مدارس، محترم غامدی صاحب اور مجموعی طور پر تجدد جدید مارکیٹ اور نئے کلچر کی پیداوار ہیں۔ جن تاریخی مظاہر کے سوتے ایک ہی ہوں وہ ایک دوسرے کے رد پر قادر نہیں ہوتے۔ انیسویں صدی کے آغاز سے ہمارے ہاں جو چیز زیر بحث ہے یہ ہے کہ اصل دین کیا ہے؟ ”اصل دین“ کے اب دسیوں ورژن موجود ہیں اور جو اب ہمارے تکفیری علوم کا حصہ ہیں۔ یہ مسئلہ ابھی تک حل طلب ہے اور بحث جاری ہے۔
تبصرہ لکھیے