ہوم << بیوہ ہونے سے پہلے - رقیہ اکبر چوہدری

بیوہ ہونے سے پہلے - رقیہ اکبر چوہدری

کچھ عرصہ قبل ایک ڈاکٹر صاحب کی وڈیو سامنے آئی جس نے مجھے چونکا دیا . کئی بار سوچا یہ بات آپ احباب سے شیئر کروں مگر جانے کیوں کر نہ سکی۔ آج پھر سے ذہن کے پردے پہ ابھری تو آپ کے سامنے پیش کر رہی ہوں.

ڈاکٹر صاحب کا کہنا تھا کہ میرے پاس کونسلنگ کے لیے جو خواتین آتی ہیں، ان میں سے کئی ایک ہیں جن کے من میں ایک "ڈارک ڈیزائر" (یہ ٹرم ڈاکٹر صاحب نے استعمال کی) پل رہی ہوتی ہے، اور وہ اس کا اظہار بھی کرتی ہیں مگر کئی ایک نہیں بھی کرتیں. اور وہ ڈارک ڈیزائر یہ ہوتی ہے کہ وہ دعا کرتی ہیں کہ کاش ان کا شوہر مر جائے۔ اب اس بات پہ فوری طور پر استغفرُللہ ۔۔۔یا توبہ توبہ کیسی عورتیں ہوتی ہیں وہ، یا ایسی عورتوں کا پھر یہ حشر ہونا چاہیے یا وہ حشر ہونا چاہیے، جیسا کوئی ججمنٹل تبصرہ کرنے سے پہلے ڈاکٹر صاحب کی پوری بات سن لیجیے۔

ان کا کہنا تھا یہ وہ خواتین ہوتی ہیں جن کے شوہروں نے ان کی زندگیاں جہنم بنائی ہوتی ہیں. وہ پل پل مرتی ہیں، ان سے الگ بھی ہونا چاہتی ہیں لیکن سماجی اور معاشرتی پریشر کی وجہ سے یہ ان کے لیے کسی طور ممکن ہی نہیں ہوتا، کیونکہ انھیں معلوم ہوتا ہے کہ معاشرہ مطلقہ عورت کو کبھی قبول ہی نہیں کرتا۔ انھوں نے مزید کہا تھا کہ عورت اگر بیوہ ہو جائے تو معاشرے کی ہمدردیاں حاصل کر لیتی ہے. اگرچہ اس کے لیے بھی مشکلات ہوتی ہیں مگر ان مشکلات میں معاشرتی ناگواری ،نفرت یا بری عورت کا ٹھپہ نہیں لگتا، اس لیے اس کےلیے زندگی نسبتاً آسان ہو جاتی ہے بلکہ اکثر اوقات تو معاشرہ ان کے لیے بہت نرم گوشہ رکھتا ہے، اور آسانیاں مہیا کرتا ہے، جبکہ مطلقہ کے لیے معاشرے میں قبولیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ایسی عورتوں کے حصے میں ہمدردی ،نرمی ،محبت نہیں آتی بلکہ اس کی جگہ ناگواری ،ناپسندیدگی ،نفرت اور اس سب سے زیادہ "بری عورت" کا تاثر لوگوں کے اذہان میں پیدا ہوتا ہے، یہ سماجی دباؤ ایسی عورتوں کو جیتے جی مار دیتا ہے، نہ صرف انہیں بلکہ ان کے بچوں کے ساتھ بھی معاشرے کا رویہ بہت بےرحمانہ ہوتا ہے جس کے اثرات اور نقصانات یہ پورا خاندان بھگتتا ہے۔

یہی وجہ ہوتی ہے کہ وہ خواتین یہ خواہش دل ہی دل میں پالتی رہتی ہیں کہ کاش ان کا شوہر مر جائے تاکہ انہیں اس ٹاکسک زندگی سے رہائی اس طرح نصیب ہو کہ معاشرہ انھیں خوش دلی سے قبول بھی کر لے اور وہ اور ان کے بچے معاشرے کی اس بےرحمی، سفاکیت، تذلیل، تحقیر اور نفرت کا شکار ہونے سے بچ جائیں۔
مجھے بخوبی اندازہ ہے کہ میری یہ تحریر جو کہ ایک ماہر نفسیات کی ولاگ سے اخذ کی گئی ہے بہت سے احباب کو ناگوار گزرے گی مگر بہرحال میرے مشاہدے ،تجربے اور معلومات کے مطابق ڈاکٹر صاحب کی بات سو فیصد درست ہے۔ طلاق ،گھروں کا ٹوٹنا کبھی کسی کے لیے بھی خوشگوار تجربہ نہیں ہوتا اور عموماً کوئی بھی فریق یہ سب خوشی خوشی نہیں کرتا. حالات یقینا قابو سے باہر ہو جاتے ہیں، تبھی ایسے فیصلے کیے جاتے ہیں، لیکن ہمارے ہاں طلاق چاہے کتنے ہی ناخوشگوار حالات کی وجہ سے وقوع پذیر ہو جائے، ہم اسے ہر دو فریق کے لیے قبول کرنے کو تیار نہیں ہوتے، خواتین کے لیے تو بالکل نہیں۔

آج بھی عورت کے لیے طلاق "کلنک کا ٹیکہ" ، "ماتھے کا داغ" ہی سمجھتے ہیں۔ ہمارے یہی رویے ہی پھر کئی عورتوں کے دل میں یہ "ڈارک ڈیزائر" پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ کوئی بھی مرد یا عورت اپنے لیے اگر ایسا کوئی فیصلہ کرتا یا کرتی ہے تو ہمارے نظروں میں اس کی عزت وقار مقام مرتبہ دو ٹکے کا کیوں ہو جاتا ہے؟ بالخصوص ایک عورت اپنے لیے اگر ایسا کوئی فیصلہ کرتی ہے تو کیوں وہ ہماری نظروں میں بری ،گھٹیا ،دوکوڑی کی عورت ہو کر رہ جاتی ہے؟ کیوں ایک مطلقہ کےلیے ہمارے معاشرے میں نفرت اور ناپسندیدگی کا رویہ اتنا زیادہ پایا جاتا ہے کہ وہ من ہی من میں ایسی "ڈارک ڈیزائرز" تو پالتی رہتی ہے مگر الگ نہیں ہو پاتیں؟ کیا مجموعی طور پر ہم انتہائی بے رحم اور سفاک لوگ ہیں؟

ہمارا پورا معاشرہ ہی بہت بے رحم ہے۔ کون کن مشکلات سے گزر کر کن حالات کا سامنا کر کے یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہوا ہے اسے کبھی سمجھنے کو تیار ہی نہیں ہوتے( وہ چاہے عورت ہو یا مرد میں دونوں کی بات کر رہی ہوں) یقیناً اس بات کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ گھروں کے ٹوٹنے کو خدانخواستہ ایک عام چلن یا سہل بنایا جائے یا پھر اسے گلیمرائز کیا جائے، لیکن اس کا یہ مطلب ضرور ہے کہ ایک جائز عمل کو عورت کے ماتھے کا داغ نہ بنایا جائے، اس کے کردار کو پرکھنے ،جانچنے اور اس کے ساتھ معاشرتی ربط رکھنے کا معیار اس کی ازدواجی حیثیت نہیں ہونی چاہیے۔عزت ،مقام ،مرتبہ ہر ایک کو اس کی بشری حیثیت پر ملنا چاہیے نا کہ ازدواجی حیثیت پر۔
سوال یہ ہے کہ ایسا ہوتا کیوں نہیں؟ کیوں ہمارے ہاں "ازدواجی حیثیت" ہی عزت و وقار کا معیار ٹھہری خاص طور پر عورت کےلیے؟