ہوم << عمران خان، بھٹو، نواز شریف کی سزاؤں کی حقیقت - عامر خاکوانی

عمران خان، بھٹو، نواز شریف کی سزاؤں کی حقیقت - عامر خاکوانی

میاں نواز شریف کے ایک سابق ساتھی رانا مقبول (سابق آئی جی پولیس)راوی ہیں کہ جب میاں صاحب پر پرویز مشرف کے دور میں طیارہ ہائی جیکنگ کیس چل رہا تھا تو عدالتی کارروائی کے دوران میاں صاحب کے ایک ساتھی ہر پیشی کے بعد کمنٹری کرتے کہ فلاں کام اچھا ہوا ہے، فلاں ہمارے خلاف جا رہا ہے،شکر ہے فلاں دفعہ نہیں لگی وغیرہ وغیرہ ۔ ایک دن میاں نواز شریف نے تنگ آ کر کہا، "یار تو کی لگا رہندا ایں۔ یہ سب کون سا قانون کے مطابق ہو رہا ہے کہ ان چیزوں سے فرق پڑے گا۔ یہ جج آزادی سے فیصلہ سنا سکتا ہے کیا؟جو ہو رہا ہے وہ اوپر سے ہو رہا ہے،نہ ہوا تب بھی اوپر سے نہیں ہوگا۔"

عمران خان کے خلاف ایک سو نوے ملین پاؤنڈ کیس پر بھی جو دوست احباب دھڑا دھڑ لکھے جا رہے ہیں،ان پر مجھے حیرت ہو رہی ہے۔ بعض احباب نے محنت کر کے برطانوی کورٹ کا فیصلہ تک پڑھا اور اب وہ شدومد سے احتساب عدالت کے جج کے فیصلے کا دفاع کر رہے ہیں۔ حضور والا! اپنے بگٹٹ دوڑتے خیال کے گھوڑوں کی لگام کھنچئے۔ نہ یہ قانون اور عدل و انصاف کے مطابق ہو رہا ہے نہ ہی ماضی میں ایسے سیاسی عدالتی کیسز میں ہوا۔ تب بھی جج دباؤ میں فیصلے دیتے تھے، آج بھی یہی ہو رہا۔ کسی کو ذرہ برابر بھی امید تھی کہ عمران خان کو بری کر دیا جائے گا؟ کوئی ایک آدمی بھی اپنے ہوش وفہم میں یہ سوچ سکتا تھا کہ لوئر کورٹس اور احتساب عدالت کے یہ جج عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر بری کر سکتے ہیں؟ کوئی ہے ایسا؟ اگر ہے تو اسے چاہیے کہ فیس بک اکاؤنٹ ڈیلیٹ کرے اور جا کر کارٹون نیٹ ورک اور پوگو چینل دیکھا کرے۔ ابھی وہ ذہنی طور پر بالغ نہیں۔

صاحبو! اس میں شک ہی کوئی نہیں کہ یہ فیصلہ غلط اور دباؤ پر ہوا۔ یہی ہونا تھا، اس کے علاؤہ کچھ اور ممکن ہی نہیں۔ ہائی کورٹس میں البتہ ریلیف ملنے کا چانس ہوتا ہے کچھ حد تک اور ملتا بھی رہا ہے، سپریم کورٹ سے بھی۔ اسی لئے تو اب پورا فوکس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ مینیج کرنے پر ہے۔ اس لئے بھائیو اپنی انرجی ضائع نہ کرو۔ ایسے بیکار فیصلوں کے دفاع میں۔

ہاں یہ حقیقت ضرور مان لینی چاہیے اب کہ بھٹو سے نواز شریف تک سب کے خلاف ماضی کے عدالتی فیصلے بھی ایسے ہی ناجائز اور غلط تھے۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں بھٹو کو پھانسی درست تھی،نواز شریف کو اقامے پر سزا درست تھی اور ہمارے لیڈر عمران خان کے ساتھ ظلم ہوا۔ نہیں۔ بات پھر پوری کہیں۔ اپنی پچھلی غلطی کو درست کریں۔ جیسا ہم کر رہے ہیں۔ باقی سب کہانیاں ہیں۔

چار سادہ پوائنٹس ہیں، میری نظر میں۔
نمبرایک : ہمیں اب اپنی ماضی کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو درست کرنا چاہیے، اسٹیبلشمنٹ نے ہمیشہ عدالتوں پر دباو ڈال کر اپنے من پسند فیصلے کرائے ہیں ان لوگوں کے لئے جنہوں نے اسٹبیلشمنٹ کو چیلنج کیا یا جو اسٹیبلشمنٹ کو بوجوہ ناپسند ہیں۔ ان میں بھٹو اور بے نظیر بھٹو بھی شامل ہے، نواز شریف بھی شامل ہے اور عمران خان بھی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ کرپٹ اعظم زرداری اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول ہے مگر بھٹو اور بے نظیر نہین تھی؟ کیا وجہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ شہباز شریف جیسے جوکر اور نالائق کو تو وزیراعظم بناتی ہے، نواز شریف کو نہیں؟ اگر کرپشن سے مسئلہ ہوتا تو پھر ن لیگ کو حکومت دی ہی نہ جاتی، تب زرداری کو کک آوٹ کیا جاتا، تب ایم کیو ایم اور چودھری شجاعت کی ق لیگ نہ ملائی جاتی۔ کرپشن اسٹیبلشمنٹ کا کبھی مسئلہ رہا ہی نہیں۔ یہ تو صرف ہم جیسوں کو بے وقوف بنانے کے لئے ایک حربہ رہا ہے۔ ان کا مسئلہ حکومت پر اپنی برتری اور قوت قائم رکھنا ہے اور ہر وہ لیڈر جو آواز اٹھائے گا وہ نشانہ بنے گا۔

دوم : بھٹو کو پھانسی جوڈیشل مرڈر ہی تھا۔ یہ بات میں نے آج نہیں لکھی بلکہ پندرہ سال پہلے ایکسپریس اخبار میں اس پر کالم لکھا تھا جس میں کہا کہ اس پھانسی پر عدلیہ کو بھی معافی مانگنی چاہیے اور رائٹسٹوں کو بھی، ہمارے مذہبی حلقوں کا کردار تب اس معاملے میں غلط ہی رہا۔ آج بھی میری یہی رائے ہے کہ بھٹو قاتل تھا یا نہیں تھا، مگر اسے اس کیس میں دباؤ پر سزا سنائی گئی۔ یہی نواز شریف کا معاملہ ہے۔ نواز شریف کرپٹ ہے یا نہیں، اس سے قطع نظر اسے اقامہ والی سزا دباؤ پر سنائی گئی۔ ویسے میں جسٹس کھوسہ کے فیصلے کا حامی تھا کیونکہ اس نے دیگر وجوہات کی بنا پر نواز شریف کو نااہل کیا۔ تاہم یہ بات بعد میں واضح ہوگئی کہ ثاقب نثار نے دباؤ کے تحت ہی وہ بنچ بنائے اور وہ تمام سزا وغیرہ حکم حاکم پر سنائی گئی۔ عمران خان کے بارے میں میرا حسن ظن یہ ہے کہ وہ کرپٹ نہیں۔ جی نواز شریف اور دیگر کے مقابلے میں عمران خان کے بارے میں میری رائے یہ ہے کہ وہ کرپٹ نہیں۔ البتہ اسے اس کی بیگم نے خاصا بدنام اور ذلیل کرایا۔ یہ تمام وہ کیسز ہیں جو بشریٰ بی بی کی وجہ سے عمران خان پر مسلط ہوئے ہیں۔ عدت کیس سے توشہ خانہ اور یہ القادر یونیورسٹی کیس۔ بہرحال عمران خان کو ان تمام کیسز میں سنائی گئی سزائیں غلط ہیں۔ یہ ناانصافی ہوئی اور تمام فیصلے دبائو پر سنائے گئے، اسی لئے اعلیٰ عدالتوں میں ایک فیصلہ بھی نہیں ٹک سکا۔

سوم: عمران خان، نواز شریف اور بھٹو کے بارے میں یہ بات کہنا کوئی باریک واردات نہیں بلکہ ایک اصولی بات ہے کہ جب آپ آج کی اسٹیبلشمنٹ کے دباؤپر غلط عدالتی فیصلوں پر تنقید کررہے ہیں تو ایمانداری کا تقاضا ہے کہ جو ماضی میں ہوا، اس کی بھی مذمت کریں، اس پر بھی تنقید کریں۔ یہ نہایت درجے کے بددیانتی اور جھوٹ ہوگا کہ ماضی میں بھٹو کو سزا ٹھیک ملی، بے نظیر کو بھی اور نواز شریف کو بھی ٹھیک سزا سنائی گئی، مگر عمران خان کے ساتھ زیادتی ہو رہی ہے۔ نہیں جو بات درست ہے وہ ویسے ہی کہی جائے۔ یہ امر بھی واضح ہے کہ اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ لوگ معصوم عن الخطا ہیں یا کرپٹ نہیں۔ کرپٹ ہونا الگ بات ہے اور عدالت سے سزا ملنا الگ بات ہے۔ آصف زرداری کرپشن کا بے تاج بادشاہ رہا ہے۔ بابائے کرپشن مگر اسے عدالتون سے اس میں سزا نہیں ملی ۔ یہ الگ امر ہے۔ سزا نہ ملنا اسے پاک صاف قرار نہیں دیتا اور عمران خان کی سزا اسے کرپٹ نہیں بناتی۔ میرے پاس اس کے شواہد اور ثبوت اور دلائل ہیں کہ عمران خان کرپٹ نہیں۔ ممکن ہے کسی کو اس سے اختلاف ہو، مگر میں تو اپنا تاثر، اپنی رائے ہی بیان کروں گا۔

چہارم: میرے نزدیک البتہ توشہ خانے کے تحائف بیچنا غلط تھا۔ قانونی طو رپر یہ ممکن ہے غلط نہ ہو، مگر اخلاقی طور پر بہرحال غلط تھا۔ تحفے کون بیچتا ہے؟ یہ دلیل کمزور ہے کہ سڑک بنوائی تھی۔ سڑک بنانے کے لئے بھی ایسے تحائف نہیں بیچے جا سکتے۔ اسی طرح ملک ریاض سے زمین لینے کی کیا ضرورت تھی ؟ کون عقل مند ملک ریاض سےعطیہ میں زمین لیتا ؟ عمران خان کے پاس فنڈز کی کوئی کمی تھی ؟ وہ وزیراعظم تھا، سرکاری یونیورسٹی بنا دیتا، مفت تعلیم رکھتا، اس کے لئے انڈومنٹ بنا دیتا وغٰیرہ وغیرہ۔ ایک سو نوے ملین پاونڈ کیس میں چاہے عمران خان کا موقف قانونی طور پر مضبوط اور درست ہو، مگر اخلاقی طور پر خان صاحب کو ایسے پنگوں سے دور رہنا چاہیے تھا۔ انہیں سوچنا چاہیے تھا کہ اگر آج ملک ریاض کو ان سے زرا سا بھی فائدہ پہنچے گا ، اس سے کوئی تعلق جڑا تو کل کو یہ بدنامی کا باعث بنے گا۔ افسوس کہ خان صاحب کی عاقبت نااندیش بیگم اور شہزاد اکبر جیسے لالچی اور نالائق مشیروں کے طفیل عمران خان کو شرمندہ ہونا پڑا۔

بہرحال یہ اور اس جیسے ماضی کے فیصلے غلط تھے۔ انہیں غلط ہی کہنا چاہیے۔ یہ میرا ماننا ہے۔