"لکھاری / متکلم کی موت" کا دعوی اور اصول فقہ: کیا متکلم و مخاطب کلام میں مساوی حیثیت کے حامل ہیں؟
جدید لسانیاتی ابحاث میں "لکھاری کی موت" کا نعرہ پس ساختی (پوسٹ سٹرکچرلسٹ) مفکرین کے نظریات سے پیدا ہوا۔ اس فکر کے حاملین و متاثرین کہتے ہیں کہ متن کا معنی متعین کرنے میں متکلم کی شناخت و ارادے کو اہمیت حاصل نہیں اور نہ ہی معنی کی تعیین میں متکلم کو مخاطب پر اولیت و فوقیت حاصل ہے، بلکہ معنی کی تعیین میں مخاطب اور اس کا پس منظر بنیادی اہمیت کے حامل ہیں۔ اس دعوے کے لئے بعض دلائل پیش کیے جاتے ہیں (مثلا یہ کہ لفظ و معنی کا تعلق روابطی (relational) ہوتا ہے جو بلحاظ افراد و زمان بدلتا رہتا ہے، الفاظ کے معنی difference (الاشیاء تعرف باضدادھا) کے اصول سے حاصل ہوتے ہیں وغیرہ)، جن سے یہ نتیجہ پیدا کیا جاتا ہے کہ متن کے کوئی متعین یا فکسڈ معنی نہیں ہوتے بلکہ وہ مخاطب کے اعتبارات سے بدل سکتے ہیں نیز یہ طے کرنے کا کوئی پیمانہ نہیں کہ متکلم کی مراد کیا ہے اور کیا نہیں۔ مزید کہا جاتا ہے کہ "متکلم کی موت" کا مطلب یہ بھی ہے کہ متکلم کی مراد کوئی شے نہیں۔ اس دعوے کو بنیاد بنا کر ایک طرف الوہی متن کے معنی کی آفاقیت و تعیین پر سوال کھڑا کیا جاتا ہے اور دوسری طرف مخاطب کو متکلم کی مراد جاننے کی ذمہ داری سے بری قرار دینے کی تیاری کی جاتی ہے۔
درج بالا تجزیہ پیش کرنے والے حضرات کئی طرح کے امور کو خلط ملط کرکے نیز پس ساختیت کے مقدمے کے پس پشت چھپے ہوئے مفروضات سے سہو نظر کرکے اہل مذھب کے مقدمے پر سوالات پوچھتے ہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ پس ساختی فلسفے کے مقابلے میں اصول فقہ کی روایت میں لسانیات کی تفہیم کا زیادہ گہرا ادراک پایا جاتا ہے۔ یہاں ہم اس نظرئیے کے حامیین کے صرف اس سوال کو لیتے ہیں کہ آخر اہل مذھب کس دلیل کی بنا پر یہ کہہ سکتے ہیں کہ لسانیات میں متکلم و لکھاری کو مخاطب و قاری پر فوقیت یا اولیت حاصل ہے۔
دراصل یہ سوال پس ساختی فلسفے کی اس کمزوری سے پیدا ہوتا ہے کہ ساختیت کی طرح پس ساختیت بھی full blown لسانیاتی ڈسکورس کے ساتھ بحث کرتی دکھائی دیتی ہے اور یہ دونوں نظریات دو سوالات کا تسلی بخش جواب نہیں دیتے:
- ایک زبان کی اوریجن کا سوال اور
- دوسرا لفظ و خارجی حقیقت کے مابین تعلق کا سوال
یہاں پہلے سوال کو لیجئے جہاں یہ امر زیر بحث ہے کہ کسی بھی لفظ کی ابتدا کی نوعیت کیا ہے؟ یہ بات کہ الفاظ کے معنی روابطی نوعیت کے ہوتے ہیں زیر بحث سوال کے جواب پر کوئی روشنی نہیں ڈالتی کیونکہ اس سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ کوئی لفظ ابتداً جس معنی کے لئے استعمال ہوتا ہے ان کا وہ تعلق کس نوعیت کا اور کس بنا پر ہے۔ اس سوال کا جواب اصول فقہ کے ماہرین کے ہاں یوں ملتا ہے (مثلا دیکھئے امام غزالی کی "المستصفی") کہ لفظ کی معنی پر دلالت دو طرح پر ہے:
الف) بطریق وضع (by way of stipulation) اور
ب) بطریق عقل (طبعی دلالت کو یہاں ہم نے عقلی دلالت میں ضم کردیا ہے)۔
وضعی دلالت ارادی دلالت ہوتی ہے اور یہ کسی واضع کے ارادے کی متقاضی ہے جس نے کسی لفظ یا نشانی کو اس معنی کے لئے خاص کیا (جیسے مثلا ک ر س ی یعنی کرسی کی دلالت ایک خاص ھئیت کی شے کے لئے)۔ عقلی دلالت کسی شے کی کسی شے پر اپنی ذاتی دلالت ہوتی ہے (جیسے حادث کی دلالت محدث پر)۔ سر دست یہاں پہلی قسم کی دلالت ہمارا فوکس ہے جو لسانیات میں اصلا زیر بحث ہوتی ہے۔ الفاظ کی معنی پر وضعی دلالت لازماً ایک ارادی فعل کا نام ہے (کہ ارادہ کرنے والوں نے اس تخصیص کا فیصلہ کیا)۔ اس دلالت کا ارادی ہونا اس بات کو لازم کرتا ہے کہ زبان میں واضع (یعنی لفظ و معنی میں وضع کا ارادہ کرنے والا) موضوع (یعنی خاص الفاظ) اور ان کے ذریعے جس سے خطاب کرکے مافی الضمیر بیان کرنا مقصود ہے دونوں سے ماقبل ہے۔ اصول فقہ کے ماہرین کا کہنا ہے کہ لغات کی بحث دو پہلووں کی حامل ہے: الفاظ کی خاص معنی کے لئے وضع کی کھوج لگانا اور متکلم کی جانب سے کسی خاص وضعی دلالت کو مراد لینے یا نہ لینے کی کھوج لگانا۔ پہلے پہلو سے متعلق امام رازی کہتے ہیں کہ لغات کی اوریجن کی بحث کے چار پہلو ہیں: (الف) واضع، (ب) موضوع، (ج) موضوع لہ (یعنی معنی) اور (د) وہ طریقہ جس سے اس وضع کا علم ہو۔ لسانیات کو اپروچ کرنے کی یہ ایک نہایت منطقی ترتیب ہے جسے اصولیین نے اختیار کیا اور اسی بنا پر یہ کہا جاتا ہے کہ کلام میں مخاطب کی ذمہ داری یہ ہے کہ وہ واضعین زبان کے مابین مشترک لغوی اصولوں (اور دلالت عقلیہ) کی روشنی میں متکلم کے ارادے کی کھوج لگائے۔ الغرض یہ دعوی کہ متکلم و مخاطب کلام کے معاملے میں وجودی طور پر مساوی مقام پر فائز ہوتے ہیں یا مخاطب اس میں متکلم سے بڑھ کر ہوتا ہے، یہ خیالات زبان کی اوریجن اور خارجی حقائق کے ساتھ الفاظ کے تعلق کی نوعیت سے صرف نظر کرنے سے پیدا ہوتے ہیں۔
کسی مزید فرصت میں ہم ان شاء اللہ دکھائیں گے کہ اصول فقہ کے ماہرین نے زبان کے مباحث پر کس باریک بینی سے کلام کیا ہے۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ماضی قریب میں اصول فقہ پر لکھی جانی والی کتب میں لسانیات و لغات کا باب شامل نہیں کیا جاتا جبکہ امام رازی نے مقدمات کے بعد اسی سے بحث کا آغاز کیا ہے۔
تبصرہ لکھیے