دوست کا سوال ہے کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ہندوستان کے علماء کو عربی نہیں آتی؟ جواب: دیکھیں، عربی زبان سے آپ کی مراد کیا ہے، یہ اصل سوال ہے۔ اگر تو عربی زبان سے مراد عربی بولنا ہے تو اس معنی میں یہ بات درست ہے کہ ہمارے ہاں عام طور علماء پریکٹس نہ ہونے کی وجہ سے عربی بول نہیں پاتے۔ لیکن اگر انہیں دو چاہ ماہ عرب ماحول میں رہنے کا موقع ملے تو زبان کھل جاتی ہے اور بولنا شروع کر دیتے ہیں۔ تو یہ پریکٹس نہ ہونے اور ماحول نہ ہونے کی کمی ہے، اس کا عربی نہ آنے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ باقی بر صغیر پاک وہند کے علماء کا عربی گرامر، املاء، رسم، بلاغت کے علوم میں رسوخ، عام طور عرب علماء سے بڑھ کر ہوتا ہے۔ میں نے بعض مقامی علماء کو دیکھا ہے کہ وہ عرب شیوخ کی کتب کے ٹائیٹل میں سے املاء کی غلطیاں نکال رہے ہوتے ہیں۔
دیکھیں، عربی زبان جو کسی عالم کے عالم ہونے کے لیے ضروری امر کی حیثیت رکھتی ہے، وہ بولنے کا فن نہیں بلکہ زبان کو سمجھنے کی صلاحیت ہے۔ جہاں تک بولنے کی بات ہے تو عرب ممالک میں ایک بدو بھی عربی بول رہا ہے لیکن اسے عربی گرامر، املاء، رسم اور بلاغت کا علم نہیں ہے۔ اور کتاب وسنت سے استدلال واستنباط کے لیے زبان کی گرامر اور بلاغت کا علم ضروری ہے۔ اور اس معاملے میں ہندوستان کے علماء کا مقام اور مرتبہ بہت بلند ہے۔ وہ عربی زبان کے علوم وفنون کی گہرائی کو جانتے اور سمجھتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ جاحظ [159-255ھ] جیسا تخلیق کار عربی ادیب بھی اپنی کتاب "البیان والتبیین" میں بلاغت جیسے علوم میں ہندوستانی علماء کی آراء کو چھاپتا نظر آتا ہے۔
ہندوستان کے علماء کی عربی زبان وادب میں خدمات مسلم ہیں۔ ان کا انکار کوئی ناواقف ہی کر سکتا ہے۔ بر صغیر پاک وہند میں مختلف مسالک کے علماء نے اردو اور فارسی کے علاوہ عربی زبان میں بھی بہت سا ذخیرہ کتب ورثے میں چھوڑا۔ تفاسیر، کتب احادیث کی شروحات، فقہ وکلام، تصوف وتاریخ، غالبا کوئی ایسا میدان نہیں ہے کہ جس میں ہندوستان کے علماء کی کوئی تصنیف عربی زبان میں موجود نہ ہو۔ مجھے یاد ہے کہ غالبا 2007ء کی بات ہے کہ مدینہ منورہ میں شاہ فہد پرنٹنگ کمپلیکس میں الدکتور ف عبد الرحیم رحمہ اللہ سے ملاقات ہوئی۔ یہ ہندوستان سے تعلق رکھنے والے ایک عالم دین تھے۔ اب فوت ہو چکے۔ اللہ عزوجل مغفرت فرمائے۔ انہوں نے اپنی پوری زندگی عربی زبان کی تعلیم وتدریس کے لیے وقف کر دی تھی۔ شادی شدہ بھی نہ تھے اور اس اعتبار سے گویا فنا فی اللغۃ العربیۃ تھے۔
الدکتور ف عبد الرحیم چودہ زبانیں جانتے تھے۔ 1957ء کے زمانے کے ہندوستان سے انگریزی زبان میں ماسٹرز تھے۔ پھر جامعہ ازہر سے عربی میں پی ایچ ڈی کی۔ سوڈان میں پڑھاتے رہے۔ پھر مدینہ یونیورسٹی میں شیخ بن باز رحمہ اللہ کے زمانے میں تقریبا چھبیس برس تک عربی پڑھاتے رہے۔ ان کی عربی کتابیں اس وقت مدینہ یونیورسٹی میں عربی پڑھانے کے لیے بطور نصاب مقرر تھیں۔ ابھی کا مجھے علم نہیں۔ ہمیں بھی ان سے ملاقات کا شوق اسی وجہ سے تھا کہ ان کی کتاب دروس اللغۃ العربیۃ ہم بھی پڑھاتے تھے۔ ان سے ملاقات ہوئی۔ نہایت عاجزی اور انکساری سے ملے۔ عربی کی تدریس کے حوالے سے مفید مشوروں سے نوازا۔
اس وقت وہ شاہ فہد پرنٹنگ کمپلیکس کے مدیر تھے۔ انہوں نے ہمیں کمپلیکس کا وزٹ کروایا۔ ان کے زیر انتظام قرآن مجید ستر سے زائد زبانوں میں پبلش ہوتا رہا۔ اپنے اس عہدے پر وہ اپنی وفات تک تقریبا تیس سال تک فائز رہے۔ اللہ عزوجل ان کی خدمات کو قبول فرمائے۔ پوری دنیا میں اس وقت ان کے شاگرد عربی زبان کی تعلیم وتدریس کا فریضہ سر انجام دے رہے ہیں۔ پاکستان میں ان کے نامور شاگردوں میں بشیر احمد سیالکوٹی رحمہ اللہ تھے کہ جنہوں نے جدید انداز میں عربی زبان کی تدریس کے لیے معھد اللغۃ العربیۃ قائم کیا اور اقراء کے عنوان سے نصاب مرتب کیا۔
یہ تو ایک مثال ہے، ایسی سینکڑوں مثالیں ہمارے ارد گرد موجود ہیں کہ جن پر ایک پی ایچ ڈی کا مقالہ لکھا جا سکتا ہے کہ بر صغیر پاک وہند کے علماء کی عربی زبان کی تعلیم وترویج میں کیا خدمات ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ اب کے چار لفظ عربی کے بولنے کو ہی زبان کا علم سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ زبان کے علم سے مراد زبان کے متعلقہ فنون کا علم ہے۔ زبان بولنے میں اور زبان کا عالم ہونے میں بہت فرق ہوتا ہے۔ ہر زبان بولنے والا زبان کا عالم نہیں ہوتا اور ہر زبان کا عالم ضروری نہیں کہ بولنا بھی جانتا ہو۔ زبان کے علم سے مراد، اس کی گرامر، املاء، رسم اور بلاغت وغیرہ کا اس قدر علم کہ زبان کو گہرائی میں سمجھنا ممکن ہو۔ جزاکم اللہ خیرا
تبصرہ لکھیے